ملک کا مین سٹریم میڈیا تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں تک کم ہی پہنچا ہے مگر وہاں اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے والے رضاکار متاثرہ علاقوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کررہے ہیں۔۔ریاستی مشینری اور سرکاری انتظامیہ تو ایک گھمبیر بے حسی کا شکار ہیں۔
سوشل میڈیا پر تواتر سے شئیر کی جانے والی سیلاب زدگان کی ویڈیوز نے عام آدمیوں، مخیر حضرات، ویلفیئر تنظمیوں کو مہمیز دی ہے کہ وہ مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں الخدمت کے جانثار رضاکار ہمہ جہت امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں وہاں کے پڑھے لکھے نوجوان خود آگے بڑھ کے امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ دن رات اپنی جان مشکل میں ڈال کر یہ رضاکار مصیبت زدوں کو بچارہے ہیں ،گدھا گاڑیوں میں ان کے لیے پکے پکائے کھانے لے جارہے ہیں ۔ یہ ایثار کیشی واقعی روح گرمادینے والی ہے۔
بپھری ہوئی سیلابی لہریں بلوچستان سے لے کر کراچی اور کے پی کے سے لے کے جنوبی پنجاب تک تباہی مچاتی نظر آتی ہیں ۔ کچے گھروں کے غریب مکینوں کے مال مویشی گھر بار زندگی بھر کی جمع پونجی سیلاب میں اس لیے بہہ گئے کہ یہ غریب اس ملک کے رہنے والے ہیں جہاں پالیسی سازوں کی فہرست میں ان کی زندگیوں سے جڑے مسائل جگہ ہی نہیں پاتے۔ سیلاب کے ان تند و تیز پانیوں میں بسے بسائے گھر ایسے بہہ رہے تھے جیسے کاغذ کی کشتیاں تیز لہروں کے دوش پر دور بہتی چلی جائیں۔ سیلاب کے یہ دلدلی پانی بڑے بے رحم ہیں ،مگر حکمران سیلابی پانیوں سے بھی زیادہ، سب سے زیادہ کٹھور اور بے حس ثابت ہوئے۔ اس وقت پاکستان کی کم وبیش تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں حکومت میں ہیں مگر سیلاب زدگان کے لیے ان کی پتھریلی بے حسی حیران کن ہے۔وفاقی حکومت سے بات شروع کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت کا بندوبست پاکستان کی کم و بیش 13 14, سیاسی جماعتوں کا ملغوبہ ہے ۔ملک میں جب بھی کوئی ناگہانی صورت پیدا ہو تی ہے مشکل وقت میں قوم کو لیڈ کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے۔شہباز شریف جتنا بطور خادم پنجاب فعال نظر آتے تھے اتنا ہی غیر فعال بطور وزیر اعظم کے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، خاص طور پر اس وقت جب کہ پاکستان میں غریب لوگوں پر سیلاب نے قیامت ڈھا دی ہے۔ وفاقی حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے اس کی کارکردگی سندھ میں یہ ہے کہ کراچی جیسا میٹروپولیٹن شہر چند بارشوں کے بعد دریا کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں۔ پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔وسیب پنجاب ہی کا حصہ ہے۔جس کے مسائل کو ہمارے سیاستدان اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں۔کم و بیش ہر سیاسی جماعت نے یہاں کے سیدھے سادے باسیوں کو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا لولی پاپ ضرور دیا لیکن حقیقی مسائل کے حل پر کبھی توجہ نہیں دی۔
لیہ، تونسہ شریف ،مظفر گڑھ، ڈی جی خان، راجن پور میں جس طرح سیلاب نے دھرتی کے خاک بسر مکینوں کی زندگیوں کو تہہ و بالا کیا ہے ان مناظر کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔قدرتی آفت سے اجڑے پجڑے وسیب کے باسیوں کودیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ زمانہ امن میں بھی زندگی ان پر کچھ ایسی مہربان نہیں تھی۔ سامان حیات ایک چارپائی پر لادے زندگی بچا کر نکلے مگر اپنے ڈھور ڈنگر بچانے کی کوشش میں خود پانیوں میں رڑ گئے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے کہیں بھی تندہی سے ریسکیو کے کام کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ پی ٹی آئی کو نہ صرف پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی ہے کہ اوورسیز پاکستانی کپتان کی ایک اپیل پر ڈالروں کے ڈھیر لگا دیں گے۔ اس ناگہانی آفت میں عمران خان کو اپنے گلیمر ،مقبولیت اور کرزما کو بروئے کار لاتے ہوئے لاکھوں متاثرین سیلاب کے لیے کام کرنا چاہیے۔
مشکل کی اس گھڑی میں انسانی جانوں کو بچانے سے بڑھ کر کیا کوئی کام ہو سکتا ہے۔ کپتان اگر شہباز گل کے ریسکیو کے لیے ریلی نکال سکتا ہے تو متاثرین سیلاب کے لیے امداد کی کال کیوں نہیں دے سکتا۔ کپتان اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کرے کہ سیلاب کے متاثرین کی بحالی کے لیے دل کھول کر مدد کریں۔ ایسے میں مریم نواز شریف بھی یاد آتی ہیں جو جلسوں میں دھواں دھار تقریریں کرتی اور اپنے والد نواز شریف کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں لیکن سیلاب متاثرین کے لیے ان کی زبان بھی خاموش ہے ۔ ایک کربناک بے حسی سرکار اور انتظامیہ کے ایوانوں میں دکھائی دیتی ہے۔اس صورتحال کو دیکھ کر کوئی اندھا بھی اندازہ لگا لے گا کہ پاکستان میں سیاست دانوں کو صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے انہیں عوام اور ان کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔سوائے جماعت اسلامی کے عوام کی خدمت کے لیے کوئی بھی میدان میں نہیں ہے۔
محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی کے مطابق اگست کے آخری ہفتے میں بارشوں کا تیز سپیل آنے والا ہے۔ سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں پہلے سے بے گھر سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔پاکستان میں سیلاب کے حوالے سے ارلی وارننگ سسٹم موجود نہیں۔مسائل کا حجم بہت زیادہ ہے جبکہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے پاس اتنے بڑی ناگہانی آفت سے نمٹنے کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ ایک ادارہ ہے جو براہ راست وزیراعظم کے زیر سایہ کام کرتا ہے۔ اس کا کام قدرتی آفات کے حوالے سے متوقع تیاری کرنا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ اس کے اب تک دو اجلاس ہوئے ہیں، 2013 اور 2018 میں۔
اس کے بعد اس کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وطن عزیز میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے جو خاص ادارہ بنایا گیا ہے وہ اپنے کام میں کتنا غیر سنجیدہ ہے۔جہاں ریاست اپنے شہریوں کے مسائل کے حوالے سے بے سمت ،بے حس اور غیر سنجیدہ ہو وہاں خاک بسر اسی طرح اپنے سامان حیات کو گلے سے لگائے پانیوں میں رڑ جاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے