ہوم << اپنی بیٹی کو خودمختار کریں - اخت ولید

اپنی بیٹی کو خودمختار کریں - اخت ولید

نہیں اب کسی کو کیا اعتراض ہونا ہے؟ ایوری تھنگ از فائن. جب میری تنخواہ سے سب بہن بھائی پڑھیں گے،گھر کا خرچہ چلے گا تو کون ناراض ہوگا؟
اس کے میسیجز دیکھ کر میں ساکت کی ساکت رہ گئی۔اتنی تلخی، اتنا زہر. جانے تھا یا مجھے ہی اتنا محسوس ہوا۔ تادیر میں موبائل پر کچھ ٹائپ نہ کر سکی۔
چند سال قبل ہم اس شہر میں رہائش پذیر ہوئےتھے۔ ابھی سیٹنگ بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ آ گئی، قدرے بوکھلائی سی تھی۔ مجھے سربراہ گھرانہ نے بتایا تھا کہ اس کی فیملی سے بہت اچھے خاندانی تعلقات رہے تھے، والد محترم سے بھی شناسائی تھی۔ اب کافی عرصے بعد اس کی والدہ نے فون کر کے اس کے آنے کابتایا تو کوئی انکار نہ کر سکا۔گھر میں ویسے بھی کون سے مرد موجود تھے جو رہائش کا مسئلہ در پیش ہوتا۔
سادہ سی طبعیت کی مالک عمیرہ ملک کی مشہور یونی ورسٹی کے اسلامیات ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے آئی تھی. خاصا دین دار گھرانہ تھا لیکن مجھے اس کی ٹک ٹک کرتی ہائی ہیل ہضم نہ ہوئی تھی۔ دوسرے دن ریلیکس ہوئی توکہنے لگی کہ میں تو سمجھ رہی تھی کہ بچیاں بہت ماڈ ہوں گی پر یہ تو کہیں سے نہیں لگتا کہ دارالحکومت میں چودہ سال رہی ہوں گی۔ میں تو اسی خجالت میں ڈھنگ کےکپڑے اور نقاب کے تمام لوازمات گھر چھوڑ آئی تھی اور یہ ٹک ٹک جوتا بھی اسی لیے لےآئی تھی۔ ہم کافی دیر تک اس کی باتوں پر دل کھول کر ہنستے رہے۔ میری اس سے خاصی بے تکلفی ہو گئی تھی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اس کے سوتیلے بھائی اس کی پڑھائی کے سخت خلاف ہیں، والدہ بھی نہیں مانتیں، حالانکہ والد (جو فوت ہو چکے تھے) نے خود ملتان میں مخلوط جامعہ میں پڑھایا تھا تو بھائیوں کو کیا مسئلہ ہے؟
چند دن بعد داخلہ ہوا تو وہ ہاسٹل چلی گئی۔کبھی کبھار ٹیکسٹنگ ہو جاتی۔ زندگی کے سو بکھیڑے تھے۔انھیں سمیٹنے سے فرصت ہی نہ ملتی کہ کچھ مزید پوچھوں۔ دو سال بعد پتا چلا کہ اس کا ماسٹرز مکمل ہو گیا ہے۔ وہ مزیدپڑھنا یا جاب کرنا چاہ رہی تھی لیکن اس کی والدہ راضی نہیں تھیں۔ اس نے فیملی تعلقات کی بنیاد پر بات کروانا چاہی مگر اس کی والدہ سخت ناراض تھیں کہ بس بہت پڑھ لیا۔اب کیا کرنا ہے؟ سراسر ذاتی معاملہ تھا۔کیا کیا جا سکتا تھا؟ وہ بھی چپ کرگئی۔ آج تین سال بعد واٹس ایپ میسج پر مجھے بہت حیرانی ہوئی۔وہ پڑھ رہی تھی؟ جاب کر رہی تھی یا گھر واپس چلی گئی تھی؟ اب تو وہ بےتکلفی بھی نہ رہی تھی کہ کچھ کھل کر پوچھ سکوں۔ حال چال کے بعد میں نے سرسری سے پوچھا کہ اپنے شہر ہو؟ بتانے لگی کہ نہیں آپ کے ساتھ والے شہر میں۔
اچھا! ماشاءاللہ . کیا کر رہی ہو؟
”پی ایچ ڈی ان اسلامک سٹڈیز“ ، مجھے دھچکا لگا۔ پی ایچ ڈی!! کیسے؟ کیسے کر لیا؟؟ والدہ سے لڑی ہوگی۔رشتہ ناطہ توڑ لیا ہوگا اس نے۔
”اور جاب کر رہی ہوں ایک ٹریولنگ ایجنسی میں، پردے کے ساتھ.“ اس نے مجھے رات کو آتا دیکھا تو دوپہر میں خود ہی آ گئی۔
میں مزید پریشان ہوگئی۔ خود سری اور اسلامک سڈیز!! اکیلی رہ رہی اور اسلامک سٹڈیز!!" جتنا سوچ سکتی تھی،سوچ لیا۔"کہاں جا رہی ہیں یہ لڑکیاں؟؟"
اچھا پی ایچ ڈی کس موضوع پر؟ میں بات پلٹ گئی۔لیکن دماغ میں وہی ہلچل!!
گھر والے راضی ہیں؟ پھر خود ہی اس بے ڈھنگے سوال پر شرمندہ ہو کر وضاحت کرنے لگی. مطلب، بتایا تھا ناں تم نےکہ بھائی راضی نہیں تمہارے.
"نہیں اب کسی کو کیا اعتراض ہوناہے؟؟ ایوری تھنگ از فائن. جب میری تنخواہ سے سب بہن بھائی پڑھیں گے،گھر کا خرچہ چلےگا تو کون ناراض ہوگا؟"
میں دھک سے رہ گئی۔ تا دیر سمجھ نہ آیا کہ کیالکھوں؟ بس دعائیں دے کر بتایا کہ نماز فجر ادا کرنی ہے۔ اس کے بعد اس سے بات کرنے کی ہمت ہی نہ کر سکی۔ تب سے صرف اس سوچ میں پڑی ہوں کہ والدین پہلے کیوں منع کرتے ہیں؟ اگر انجام یہی ہے تو پہلے ہی افہام و تفہیم سے بات سلجھالیں تاکہ اتنی تلخیاں اور ناہمواریاں پیدا نہ ہوں۔
محترم والدین!
اپنی بیٹیوں کو ایک حد میں آزادی ضرور دیں۔ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دیں لیکن پاؤں میں جوتا تربیت کا پہنائیں۔ حالات دن بدن بدتر سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ لڑکیوں کو اتنی خود مختاری ضرور دیں کہ شادی کے بعد کسی ازدواجی ناہمواری کے باوجود آپ اسے وہیں مرنے کی تلقین نہ کریں۔ آپ کو یہ ڈر نہ ہو کہ وہ آپ پر یا آپ کے بیٹوں پر بوجھ بن جائے گی۔ اسے اتنا خود مختار کریں کہ کل کو کسی بھی مشکل میں وہ آپ کا ساتھ دے سکے۔ آج چاہ اس کی، واہ جاہ جس کی۔ لازمی نہیں کہ آپ مخلوط تعلیم سے ہی اسے خود مختار بنائیں۔ یاد رکھیے کہ ہنر بھی خودمختاری ہے اور ہنر سے بڑھ کر خود مختاری مرد و زن میں سے کسی کے پاس نہیں۔ جلدی کیجیے کیونکہ وقت کسی کی لاکھ خواہش پر بھی پلٹ کر نہیں آتا!