ایک تبصرہ نظر سے گزرا، لکھا تھا سیاسی صورتحال بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، آنے والے دن بہت سنسنی خیز ہوں گے۔ یعنی کسی کی جان گئی، آپ کو مزا آیا والی بات لکھ دی۔ حضرت، صورتحال دلچسپ مرحلے میں نہیں، تپ لرزہ والے بخار کی کیفیت میں داخل ہو گئی ہے.
اور مزید صورتحال یہ ہے کہ دوائوں والی الماری میں کونین کی گولی ہے نہ پیرا سیٹا مول کی۔ ماحولیاتی آلودگی میں زہر آلودگی بھی آ گئی ہے اور تریاق عراق سے بھی کہیں آگے لگتا ہے۔ کوئی فریق دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، ایک طرف سے ملک کے سری لنکا بننے کی خبر سنائی جا رہی ہے۔ پتا نہیں یہ خبر ہے یا دھمکی۔ شیخ رشید نے حالات کی خرابی کا ملبہ حکومت کے بجائے کہیں اور ڈالنے کی سعی فرمائی ہے۔ کہتے ہیں معاملات پہلے بھی کہیں اور سے چلائے جا رہے تھے اور اب بھی وہیں سے چلائے جا رہے ہیں۔ مقطع اس غزل عجیب کا اس سے بھی بڑھ کر عجیب ہے، فرمایا، موجودہ معاملات (بحران) کا حل کسی سیاستدان کے پاس نہیں ہے۔ سیاستدان تو مبینہ طور پر عمران خان بھی ہیں، گویا حل ان کے پاس بھی نہیں ہے۔
معاملات ’’وہیں‘‘ سے چلائے جا رہے ہیں کی خبر کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ حالات جو خراب ہو رہے ہیں تو ’’وہیں‘‘ سے ہو رہے ہیں اور دوسری یہ کہ جو خود کو نیوٹرل کہہ رہے ہیں، وہ نیوٹرل نہیں ہیں۔ نوٹ فرمائیے کہ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے۔ شیخ صاحب کہہ رہے ہیں جو کبھی نیوٹرلز کے ’’ڈارلنگ‘‘ ہوا کرتے تھے۔ ہوا کرتے تھے والی پھبتی بہرحال عمران خان صاحب پر نہیں کسی جا سکتی، اس لیے کہ ہر روز ایسی شہادت ملتی ہے کہ وہ اب بھی ڈارلنگ ہیں، ہاں، بس التفات میں ذرا سا فرق آ گیا ہے اور عمران خان ہر روز انہیں جو ملاحیاں سناتے ہیں تو دراصل غصہ نہیں، شکوہ ہے۔ انداز اس شکوے کا البتہ غصہ سے بھی بڑھ کر سخت اشتعال کا ہے لیکن حساب ِدوستاں دردل کی بات بھی ہو سکتی ہے۔
ہم تو اب بھی کامل یقین اور ایمان کے ساتھ نیوٹرل حضرات کو نیوٹرل ہی مانتے ہیں۔ شیخ صاحب اس کے برعکس بات کرتے ہیں تو اسے فریقین کا شکر رنجی والا داخلی معاملہ سمجھیے۔
اور مقطع کی بات بہت انوکھی اس لیے لگی کہ حل اہلِ سیاست کے پاس نہیں کہہ کر کیا شیخ صاحب نیوٹرل حضرات کو ’’دعوتِ طعام‘‘ نہیں دے رہے؟ محض دعوت ِطعام نہیں، دعوتِ طعام و قیام؟ حکومت ڈٹ گئی ہے کہ وہ اقتدار نہیں چھوڑے گی، اسمبلی بھی نہیں توڑے گی اور مدّت پوری کرے گی۔
ایک صاحب کی راہ چلتے ایک ٹانگ کیچڑ والے گڑھے میں پھنس گئی۔ سوچ رہے تھے کہ کیا کروں۔ اتنے میں ایک اور صاحب پاس سے گزرے جن کی ان صاحب سے مخالفت چل رہی تھی۔ ان صاحب نے مزا لینے کے انداز میں کہا، ارے میاں صاحب ، یہ کیا، ٹانگ گڑھے میں پھنسا لی، جلد باہر آئیے۔ پھنسے ہوئے صاحب کو سخت غصہ آیا اور کہا، میں اور تمہاری بات مان لوں؟۔ جائو اپنا کام کرو، مجھے تو مزہ آ رہا ہے، یہ لو، میں دوسری ٹانگ بھی کیچڑ میں پھنسا رہا ہوں۔ موجودہ حکومت نے تین ماہ پہلے، بڑے شوق سے اپنی ٹانگ کیچڑ میں پھنسائی تھی اور وجہ یہ بتائی تھی کہ کیچڑ صاف کرنے کا چیلنج ہم نے قبول کر لیا ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے، عوام کو ریلیف دینا ہے اور پھر سے ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے، کل بظاہر لگ رہا ہے کہ پرویز الٰہی پنجاب میں حکومت بنا لیں گے۔ پھر کیا ہو گا ادھر سے ایک جلوس پشاور والے لائیں گے اور صوبائی پولیس اس جلوس کی سہولت کاری کرے گی۔ ادھر ایک جلوس لاہور سے نکلے گا اور بے خوف و خطر ، پنجاب پولیس کے ناکے تلے اسلام آباد پہنچے گا۔ وفاقی حکومت کی دونوں ٹانگیں کیچڑ کے گڑھے نہیں، تالاب میں پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ کیسے ان جلوسوں کو روکے گی؟
یہاں پھر شیخ صاحب کا ’’مقطع‘‘ جلوہ دکھائے گا۔ ایک ثالثی ہو گی، وفاقی حکومت کی جگہ نگران حکومت آئے گی، اسمبلی ٹوٹ جائے گی پنجاب اور پختونخوا (بلکہ شاید باقی دونوں بھی) کی اسمبلیاں باقی رہیں گی۔ پھر عام انتخابات ہوں گے صرف قومی اسمبلی کے لیے۔ ایک تہائی اکثریت عمران خان پنجاب حکومت کی برکت سے، دوسری تہائی کی اکثریت پختونخوا حکومت کے بل پر حاصل کر لیں گے۔ زرداری سے خورشید شاہ تک، شہباز سے مریم تک، حمزہ سے رانا ثناء اللہ تک ان گنت لوگ پھر سے داخلِ زنداں ہوں گے۔ بہار در بروں، خزاں در دروں۔ یہ ایک ’’سازشی‘‘ منظرنامہ ہے جو ہم پی ٹی آئی سے مستعار لیے گئے قلم دوات سے لکھ رہے ہیں۔ اسے حقیقی مت سمجھیے لیکن غیر حقیقی بھی مت سمجھیے، بس نیوٹرل رہیے۔
پی ٹی آئی نے کہا ہے بحران کا حل ’’فریش مینڈیٹ‘‘ ہے۔ قومی اسمبلی کو توڑنا ہی پڑے گا۔ یعنی موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدّت پوری کرے، یہ قومی مفاد میں نہیں ہے۔ بجا فرمایا۔ لیکن ذرا ایک مختلف نامہ ملاحظہ فرمائیے، حکومت اسمبلی نہیں توڑتی، اقتدار چھوڑ دیتی ہے۔ حکومت سازی کی دعوت قاعدے سے پھر پی ٹی آئی کو دی جائے گی۔ اوپر سے فون آ جاتے ہیں اور سارے اتحادی آپ سے مل جاتے ہیں۔ یوں نیا پاکستان بحال ہو جاتا ہے۔ تو کیا قومی اسمبلی کا اپنی مدت پوری کرنا تب بھی قومی مفاد کے خلاف رہے گا یا اس کے عین مطابق ہو جائے گا؟
دوسرے لفظوں میں ’’فریش مینڈیٹ‘‘ کا مطلب دراصل اقتدار کی آپ کو حوالگی ہوا۔ اسی منظر نامے میں مزید تبدیلی کر لی جائے۔ نیا الیکشن ہو جاتا ہے اور خاکم بدہن، آپ کو اکثریت نہیں ملتی تو…؟۔ یہ سارا ’’کیاس‘‘ پھر سے لوٹ آئے گا ۔ کوئی شک ؟ ایم کیو ایم میں چھٹے گروپ کا قیام عمل میں آ رہا ہے۔ آہ: جیسی اجڑی ہوں میں، ویسے تو نہ اجڑے کوئی
فاروق ستار نے ’’تالا گروپ‘‘ بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے اس نشان پر، ایم کیو ایم سے الگ رہتے ہوئے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ وہ جلد اپنا گروپ بنائیں گے۔ ایم کیو ایم (اصلی)، ایم کیو ایم (حقیقی)، ایم کیو ایم (لندن)، ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سرزمین شادباد پارٹی کے بعد یہ چھٹا گروپ ہے۔ کراچی میں مہاجر ووٹ کی بھاری اکثریت اب بھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہے لیکن یہ بھاری اکثریت چھ گروپوں میں تقسیم ہو کر غیر مؤثر ہو گئی ہے۔
کراچی میں ایک خلا ہے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت اسے پُر کرنے کے قابل نہیں رہا۔ شہر سندھی، مہاجر اور پٹھان علاقوں میں بٹا ہوا ہے۔جو بھی جگہ لے گا، لسانیت کا جھنڈا اٹھا کر ہی لے گا، اچھی بات نہیں ہے لیکن سچ یہی ہے۔ باقی سب خیریت ہے ۔
تبصرہ لکھیے