کبھی عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی عمران خان کے لیے گایا کرتے تھے کہ "اچھے دن آئے ہیں، اچھے دن آئے ہیں" وہ دن اچھے تھے یا برے اس کا فیصلہ تو تاریخ نے کرنا ہے کیونکہ پاکستانیوں کی زندگی میں ایسے دن ابھی نہیں آئے کہ وہ اچھے اور برے دنوں کا موازنہ کر سکیں، یا مشکل اور آسان دنوں کا فیصلہ کر سکیں، آج تک تو بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا یہی سنتے گذرا ہے کہ ملک نازک صورتحال سے گذر رہا ہے.
ملک مشکل دور سے گذر رہا ہے. ملکی معیشت کو شدید خطرات کا سامنا ہے، ہر دور ایسے ہی خطرات سے بھرا پڑا ہے۔ سکون ہی میسر نہیں آتا، دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر حکمران یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا دورِ حکومت سب سے بہتر تھا، اس کے دور میں سب سے زیادہ کام ہوا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یہاں کہ تک ملک کے بڑے اور اہم شہروں میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات کی کمی ہے لیکن پھر بھی یہ ایسے گانے ضرور سننے کو ملتے ہیں کہ "اچھے دن آئے ہیں" دیکھنا یہ ہے کہ اچھے دن کب آتے ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت میں اچھے دن تو نہیں آئے البتہ ان کی حکومت ضرور چلی گئی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد اب مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے اچھے دنوں کی پیشگوئی کی ہے۔
ہو سکتا ہے وہ علم نجوم پر دسترس رکھتی ہوں اور انہوں نے ستاروں کی چالوں سے اچھے دنوں کا اندازہ لگایا ہو۔ دونوں صورتوں میں عام آدمی کو صرف اچھے دنوں سے غرض ہے۔ وہ کوئی بھی لے کر آئے۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی آئے گی اور اب ملکی ترقی پانچویں گیئر میں چلے گی۔ اللہ آپ کی زبان مبارک کرے، یہ تو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ لوگ ملک کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، اسی لیے موسموں کی شدت کو نظر انداز کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیتے اور ووٹ ڈالتے ہیں لیکن ووٹ کے ذریعے آنے والی تبدیلی عوام کے بجائے عوام کے منتخب نمائندوں کے لیے اچھے دنوں کی خبر لاتے ہیں۔ یقینا ایسے ہی حالات بارے شاعر عوام، شاعر انقلاب حبیب جالب نے لکھا تھا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقہ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے
مریم نواز کہتی ہیں سترہ جولائی کے ضمنی انتخابات میں شیر کا مقابلہ پنجاب دشمن عمران خان اور اْس کی مسلط مہنگائی، نااہلی،کرپشن، انتشار اور فتنے سے ہے۔ مریم نواز نے اپنے خطاب میں اچھے دنوں پر زور دیا ہے اللہ کرے کہ عوامی اجتماعات میں کیے جانے والے وعدے وفا ہوں اور اچھے دن بھلے فوری نہ آئیں لیکن ان کی آمد کا احساس تو ہو۔ مسلم لیگ نون نے اچھے دنوں کی خبر تو دی ہے انہیں چاہیے کہ کوئی اپنا عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی بھی متعارف کروائیں کیونکہ ایسی خوشخبریاں ترنم میں سننے کا الگ ہی مزہ ہے۔
جب اچھے دنوں کی بات کرتے ہیں تو اچھی خبریں بھی آتی رہتی ہیں ابھی ابھی ایک اچھی خبر یہ ملی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کیلئے بھارت کی کوشش پھر ناکام ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنا فیصلہ جاری کیا ہے جس میں سلامتی کونسل کی مستقل نشست پربحث جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔ بھارت، جاپان، جرمنی اور برازیل کے جی فور گروپ نے بحث شروع کرانے کیلئے دباؤ ڈالا تاہم پاکستان اور بارہ رکنی یو ایف سی گروپ نے مستقل اراکین کی تعداد بڑھانے کی بھرپور مخالفت کی یوں جی فور ممالک اپنا ایجنڈا منظور کروانے میں ناکام رہے۔
چلیں ہم کہیں تو بھارت کے لیے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ ہمیں اس کے جوابی وار کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا کیونکہ باز تو اس نے بھی نہیں آنا۔ بھارت کوششیں جاری رکھے گا اس کے ساتھ دنیا کے مالی مفادات جڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے حمایت حاصل کرنے کے لیے زیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑتی۔ بہرحال ہمیں متحرک اور بیدار رہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے خطے اور دنیا کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں وہ کیسے سلامتی کونسل کا رکن بن سکتا ہے یہ تو سلامتی کونسل کی توہین ہے۔
تبصرہ لکھیے