کوئی دوماہ قبل جب عزیزی محمد کریم احمد نے مجھے اپنا چین کا سفر نامہ پڑھنے کے لیے دیا تو میں اُس کی کمپوزڈ شخصیت اور دلچسپ انداز ِ بیان کی وجہ سے ذہنی طور پر اس کتاب کو پڑھنے کے لیئے تیار ہی نہیں بلکہ مشتاق بھی تھا۔ وہ پیشے کے اعتبارسے ریڈیو پروڈیوسر ہے اور اس حوالے سے تین سال عوامی جمہوریہ چین کے قومی ریڈیو کی پاکستان سروس میں ڈپیوٹیشن پر خدمات سر انجام دے چکا ہے۔
اس دوران میں اُس نے چینی زبان کتنی اور کس کس طرح سے سیکھی، چین میں کہاں کہاں گیا، وہاں کی زندگی، معاشرت،تاریخ ، کلچر اور جدید عہد کی حیران کردینے و الی تیز رفتار اور ہمہ جہت ترقی کو کس طرح سے دیکھا اور سمجھا ، اپنے ساتھی چینی ہم کاروں کے ساتھ اُس کے تجربات کیسے رہے اور مجموعی طور پر اُس نے چین کو کیسا پایا، ان سب باتوں کے جواب اُس ان 256صفحات میں ایسی روانی ، خوب صورتی اور وضاحت سے دیے ہیں کہ اسے اگر سفر نامے کے بجائے رپورتاژ کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا کہ محمد کریم احمد کو کہانی سنانے کا فن فطری طور پر ودیعت ہوا ہے ۔
پاک چین دوستی اگرچہ اب کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ گزشتہ 70برس میں چین واحد غیر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ عوام اور حکومت دونوں سطحوں پر محبت کے رشتے قائم، ترقی پذیر اور مستحکم رہے ہیں۔ خود مجھے دوبار(1992 اور 2018) پاکستان کے ادبی وفود کے ساتھ چین یاترا کا موقع ملا ہے اور ہم لوگ چینی دوستوں کی مہمان نوازی سے جی بھر کر لطف اندوز بھی ہوئے ہیں مگر یہ امرِ واقعہ ہے کہ پہلے سے سرکاری سطح پر طے شدہ پروگراموں کے مطاق کسی ملک کے عوام ، تہذیب اور منفرد خصوصیات کو بوجوہ بھرپور طریقے سے دیکھنا اورسمجھنا ممکن ہی نہیں ہوتا البتہ اس تعلق میں میرے ذاتی حوالے سے ایک مختلف بات ضروردرمیان میں رہی ہے کہ1985 میں میرے پی ٹی وی سیریل ’’وارث‘‘ کو چینی زبان میں ترجمہ کرکے ڈب کیا گیا جس کی کیسٹس ریکارڈنگز معہ ایک بچوں کے تیار کردہ تصویری کتابچے کے لیئے نہ صرف مجھے بطور یادگار پیش کی گئیں بلکہ تب سے اب تک مختلف حوالوں سے اُس کا ذکر بھی چلتا رہتا ہے جس کی تازہ ترین مثال گزشتہ دنوں چینی حکومت کے شعبہ ثقافت کی طرف سے پاک چین دوستی کی سترہویں سالگرہ کے حوالے سے میرے ایک انٹرویو کی ریکارڈنگ تھی۔
پاک چین دوستی کے عَلم بردار اور چین میں قیام کردہ چالیس سالہ تجربہ رکھنے والے برادرم ظفر الدین محمود کے توسط سے ایک پورا دن اس ریکارڈنگ میں گزرا، ظفر بھائی چینی زبان بے حد روانی سے بولتے ہیں، اسی انٹرویو کے دوران ایک حصے میں عزیزی محمد کریم احمد بھی شامل تھے، وہ اس ڈرامے کے مترجم لیو شاؤ لین کو بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں، اُن کے سابقہ چینی کولیگز سے بھی واٹس ایپ پر بات ہوئی اور ان کے مخصوس اُردو لہجے کی خوشبو ابھی تک کانوں میں گونجتی ہے ۔ اب جہاں تک بات ہے اس کتاب ’’چین سے چین تک‘‘ کی تو محمد کریم احمد نے اسے احباب کے تاثرات اور چینی ہم کاروں کے تعارفی خاکوں سے قطع نظر جن ابواب میں تقسیم اور تحریر کیا ہے اُن کے عنوانات ہی سے اُن کی دلچسپی اور رنگارنگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
(1) یہ چائنا ریڈیو انٹرنیشنل ہے (2)خلاؤں میں جھانکنے والی سب سے بڑی آنکھ (3) مرزا کی بائسیکل سے چین میں سائیکل سواری تک (4) سینما، تھیٹر اور اوپرا کی چین میں مقبولیت(5) چین کی ہوش رُبا ترقی کا راز، چینی زبان پر کامل انحصار (6) بیجنگ میں واقع ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری (7 ) قدیم ہو تانگ طرزِ معاشرت (8) روز مرہ زندگی میں ٹیکنالوجی کا استعمال۔ (9)سبزیوں کی آدھی عالمی پیداوار چین میں (10) چین کی بدلتے حالات سے ہم آہنگی (11) میرٹ اور جواب دہی کے اصولوں پر استوار چین کا سیاسی نظام (12) چینی سماج میں متحرک قابلِ فخر پاکستانی (13) اُردو سے شناسائی حاصل کرتا چین (14) چین سے پاکستان (15) سی آرآئی میں گزرے تین سال
ان موضوعات پر بات کرتے وقت محمد کریم احمد کے لہجے میں جو حیرت اور توصیف در آتی ہے میں اس کو اس لیئے بھی کسی نہ کسی حد تک سمجھ سکتا ہوں کہ 1992کے دورے کے وقت میں نے جس ابھرتے ہوئے چین کو دیکھا تھا2018میں اسے دوبارہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ کم و بیش اس کی ہر چیز بدل چکی تھی اِکا دُکا بلند قامت عمارتوں کی جگہ اب ہر جگہ ان کا ہی راج تھا ٹرین میں دو سو میل کا سفر ایک گھنٹے میں ہو رہا تھا اور سائیکلوں کے سائیکلون کی جگہ اب ہر انداز اور ماڈل کی لاکھوں گاڑیاں ہر طرف رواں دواں تھیں۔ ماؤزے تنگ نے 1942 میں ایک ادبی تقریب میں ادب اور پروپیگنڈہ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ایک بہت لطیف نقطے اور فرق کی نشاندہی کچھ اس طرح سے کی تھی کہ
’’دنیا کا سادا ادب پراپیگنڈہ ہوتا ہے مگر سارا پراپیگنڈہ ادب نہیں ہوتا‘‘
1978 میں ڈین ژیاؤپنگ نے ماؤ ، اور چواین لائی کے چین کو جس راستے پر ڈالا وہ بظاہر اپنے ان عظیم راہبروں کی تعلیمات کے مختلف بلکہ برخلاف تھا مگر وقت نے ثابت کیا کہ اُس کا فیصلہ صحیح تھا۔ بزروگوں کی عزت کا سب سے بہتر اور تخلیقی انداز اُن کی باتوں پر بدلتے ہوئے حالات میں دوبارہ سے غور کرنا اور اس دوران میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں کو جاننا اور اپنے آپ کو اُن کے مطابق ڈھالنا ہی ہے کہ جس اختلاف سے زندگی کی مثبت قدروں کو فروغ ملے وہ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔
محمد کریم احمدنے اپنے ذاتی ، شخصی اور انفرادی تجربات کے ساتھ ساتھ چین کی اس ترقی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ، اپنی زبان کی عزت اور انصاف کے فروغ کے جن پہلوؤں کی طرف نشاندہی کی ہے اُن میں سے بیشتر ہمارے لیے اجنبی ہوسکتی ہیں مگر اُن کے فیوض و برکات سے آگاہی اور جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے فوائد کا شعور بلا شبہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر جلد از جلد رواں دواں ہونے کے لیئے ہم سب کو مل کر غور وفکر کے ساتھ ساتھ عمل بھی کرنا ہے۔ چینی قوم کی محنت اپنے فرائض سے وفاداری، کام کی لگن اور معاشرتی فرائض کی ہر سطح پر پابندی سب ایسی باتیں ہیں جن سے ہمیں سیکھنا چاہیے۔
محمد کریم احمد کے اس بیانیے کی ایک عمدہ معنویت یہ بھی ہے کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر کسی دوسرے کی کامیابی پر کھل کر بات کرسکتے ہیں ۔ممکن ہے اس کتاب میںر وائتی سفر ناموں والے دلچسپ واقعات بہت کم ہوں مگر میرے نزدیک چین جیسے حقیقت پسند اور ایک ضابطے کے اندرنمود پانے و الے معاشرے میں اس طرح کے واقعات کی تلاش یوں بھی کوئی احسن روّیہ نہیں اور اس حقیقت کا اظہار آپ کو اس کتاب میں جگہ جگہ نظر آئے گا۔
تبصرہ لکھیے