ہوم << دنیا کے قدیم ترین شہر، بابل کی بحالی کےاقدامات - جین اعراف

دنیا کے قدیم ترین شہر، بابل کی بحالی کےاقدامات - جین اعراف

مھند احمد، بغداد سے تقریبا 50 میل جنوب میں واقع بابل کے قدیم مقام کی اینٹوں کی دیواروں کو کنارے لگانے کے لیے امریکی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبے کے تحت تربیت یافتہ 10 عراقی تکنیکی ماہرین کی ایک ٹیم کا حصہ ہیں۔ اس ٹیم کا مقصد یہ ہے کہ بابل کے کھنڈرات کو یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر تسلیم کروایا جائے ، یہ اس قدیم ترین شہر کے آثار کے بہتر تحفظ کو یقینی بنانے اور مستقبل کی سیاحت کی حوصلہ افزائی کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔

"بابل تاریخ کا پہلا منظم اور مستحکم شہر تھا۔ ہم یہاں کام کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں اس شہر سے پیار ہے ۔" یہ ایک 29 سالہ عراقی ٹیکنیشن، حیدر باسم کا کہنا ہے ، جو قدیم شہر کے آس پاس ہی پلے بڑھے تھے۔ ایک امریکی جیف ایلن کا کہنا ہے کہ ، "جب آپ ہزاروں سال قدیم اینٹوں کو دیکھتے ہیں تو آپ کو معمار کے کام کو کچھ مختلف انداز سے لینا ہوگا ، اور مجھے لگتا ہے کہ عراقی تکنیکی ماہرین اس کام کے لیے خاصی حساسیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور یادگاروں کے سلسلے میں خوب احتیاط برت رہے ہیں۔" جیف ایلن نے یہ بات نیو یارک شہر میں قائم ورثہ کے تحفظ کے گروپ ، ورلڈ مونیومنٹ فنڈ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔ عراقی تربیت یافتہ افراد کی نگرانی کرنے والے ایلن گذشتہ نو برسوں سے بابل کے مقام پر کام کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ ، جسے محکمہ خارجہ اور دیگر نے مالی اعانت فراہم کی ہے ، ورلڈ مونیومنٹ فنڈ کے مستقبل کے بابل پروگرام کا ایک حصہ ہے ، جس کا مقصد ان آثارِ قدیمہ کو محفوظ رکھنا ہے۔

ابتدائی طور پر ، مقصد یہ تھا کہ قدیم دیواروں اور چھتوں کو مستحکم کیا جائے۔ جن کو انہدام کا خدشہ لاحق ہے ، ان پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ اب ، پروگرام کا ایک اہم مقصد مقامی تکنیکی ماہرین کو تربیت دے کر تیار کرنا ہے ، زیادہ تر قریبی دیہات کے کسانوں اور مزدوروں کو تربیت دی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ وہ بابل کے آثار کے تحفظ میں مدد کرنے کی خواہش کے ساتھ ، بے بہا بے روزگاری والے خطے میں ان مفید مہارتوں کے حامل بن کر رخصت ہوں گے۔
کئی دہائیوں سے ، یہ سائٹ یعنی شہر بابل کے آثار بار بار خطرے کی زد میں ہیں ، یہاں تک کہ بحالی کی کوششیں بھی اسے نقصان پہنچا چکی ہیں ۔ مثال کے طور پر ، 1950 اور 1990 کی دہائی میں ، نقصان اس وقت ہوا جب غلط سائز کی جدید اینٹوں کو ان کی دیواروں کی مرمت کے لیے نصب کیا گیا تھا اور سائٹ کے نیچے کھارے، شوریدہ زمینی پانی کو ڈالا گیا تھا۔ ایلن نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ، "نمک اینٹوں کے کام میں پڑ جاتا ہے اور یہ اینٹوں کے کام کے میٹرکس کو تحلیل کردیتا ہے اور اینٹیں بالکل الگ ہوجاتی ہیں۔"

20 ویں صدی کے اوائل میں ، جب عراق پر برطانوی مینڈیٹ کا راج تھا ، قدیم شہر کی باقیات پر سے ایک ریلوے چلتی تھی۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ، فوجی ہیلی کاپٹر سائٹ پر ہی اترے۔ پولینڈ کی فوج ، جو امریکی زیرقیادت اتحاد کا حصہ ہے ، نے بابل میں ایک فوجی اڈہ چلایا ، گارڈ ٹاورز بنائے اور باڑیں کھڑی کیں۔ عراقی وزارت تیل نے اس سائٹ کے ذریعے ایک پائپ لائن چلائی تھی اور صرف پچھلے مہینے ہی اسے ہٹانے پر مجبور کیا گیا تھا ، جب محکمہ نوادرات اس معاملے میں تیل کی وزارت کو عدالت میں لے گیا۔ نقصان اور نظرانداز ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بابل کو کبھی بھی عالمی ثقافتی ورثہ کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا گیا ۔ ایلن کا کہنا ہے کہ بابل کے حالیہ نو دریافت کردہ آثار اس کو ثقافتی ورثہ تسلیم کیے جانے کے مستحق ہیں۔

اپنے لمحۂ عروج پر ، بابل دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا ۔ اپنی سلطنت کا دارالحکومت ، جس میں ایک اندازے کے مطابق 200،000 باشندے تھے۔ شاہ نبوکدنذر دوم (بخت نصر دوم) کے سر پر آج سے اڑھائی ہزار برس قبل بابل کے معلق باغات بنانے کا سہرا ہے ، یہ معلق باغات قدیم دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تسلیم کیے گئے ہیں ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بابل کے مینار کی بائبل میں موجود تمثیل ، ایک حقیقی بابل کے مینار پر مبنی ہے جو کم از کم تین سو فٹ بلند ہے ۔ اس وقت کے اعتبار سے یہ اس قدر بلند مینار تھا کہ اسے پڑوسی شہروں میں دیکھا جاسکتا تھا۔

قدیم شہر تقریباً 4 میل چوڑائی اور 2 میل کی لمائی میں پھیلا ہوا ہے۔ اسے کئی پرتوں اور تہوں پر بنایا گیا ہے اور اس کے صرف ایک چھوٹے سے حصے میں کھدائی کی گئی ہے۔ عظیم الشان بابِ عشتار ، جو شہر کے بالائی حصے میں ہے ، اس کی کھوج اور کھدائی کا کام جرمن آثار قدیمہ کے ماہرین نے 1899 میں شروع کیا تھا اور برلن کے پرگیمن میوزیم Pergamon Museum میں اس کی تعمیر نو کی تھی۔ پرگیمن میں محفوظ کیا گیا ،بخت نصر کے دور کا ایک کتبہ، شہر کے عجائبات کو بیان کرتا ہے۔

بخت نصر نے اس کتبے پر یہ کندہ کروا رکھا تھا: "میں نے ان( عجائبات) کو نیلے پتھر والی اینٹوں سے بنوایا تھا جن پر شان دار بیل اور ڈریگن منقش کیے گئے تھے ۔میں نے ان پر شاہی دیودار بچھاتے ہوئے ان کی چھتوں کا احاطہ کیا۔ میں نے پیتل سے مزین دیودار کی لکڑی کے دروازے بنوائے۔ میں نے راستوں میں جنگلی بیلوں اور خوف ناک اڑنے والے ، پردار اژدھوں کے مجسمے بنوائے اور انہیں اس پُرتعَیُّش شان سے آراستہ کیا کہ بنی نوع انسان کی نگاہیں ان کو دیکھیں تو حیرت سے مبہوت ہو جائیں۔"

آج کے زمانے میں چھٹی کے دن ، یہ مقام اکثر عراقی زائرین سے بھرا ہوتا ہے۔ بصورتِ دیگر ، یہ ویران ہے۔ ۔ ایک دھاتی ڈاک خانہ ، جہاں سیاح 1990 کی دہائی میں پوسٹ کارڈ بھیج سکتے تھے ، زنگ آلود ہے اور اسے ترک کردیا گیا ہے۔ عراقی ، اس تہذیب کے امین ہونے کا دعوےدار ہیں جس نے دنیا کا پہلا ضابطہ اخلاق اور پہلے شہر آراستہ کیے ، لازمی طور پر اپنے ملک کے آثار قدیمہ کے مقامات کی قدر نہیں کرتے۔ "آپ ان کھنڈرات اور دھول مٹی کو دیکھنے بغداد سے آئے تھے؟" حیرت زدہ پولیس اہلکاران اس مقام کے قریب سیکیورٹی چوکی پر سیاحوں سے پوچھتے ہیں۔ صدیوں سے ، اس علاقے کے لوگوں نے بابل کو اس سے ملحق "حِلا" شہر اور آس پاس کے دیہات میں مکانات تعمیر کرنے کے لئے پکی اینٹوں کے حصول کا ذریعہ سمجھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، قصبے کے لوگوں نے عشتار نامی دیوی کے نام پر بنائے گئے بابِ عشتار کی ایک پوری اوپری پرت کو ہٹا دیا اور مزین ، چمک دار ، نیلی اینٹوں کو پھینک دیا جو بعد میں برلن کے پرگیمن میوزیم میں تعمیر نو کے سلسلے میں اسی دروازے کا حصہ بنانے کے لیے دوبارہ حاصل کی گئیں۔ ایلن کا کہنا ہے کہ ورثے کے تحفظ کو قومی مزاج کا حصہ بنانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا بابل کی دیواروں کو محفوظ بنانا۔ "یورپ یا شمالی امریکہ میں ، ہم ورثے کے تحفظ کی تعلیم حاصل کرنے کے عادی ہیں۔ اس قسم کے پروگرام اس خطے میں موجود نہیں ہیں اور پھر بھی ان کے پاس تاریخی عمارتوں کی یہ ناقابل یقین اور غیر معمولی کھیپ موجود ہے۔"

پہلے قدم کے طور پر ، عراقی انجینئر سلمان احمد ، تقریباً تیس ہزار اینٹوں میں سے ہر ایک کو مرتب کرنے کے لیے ایک ایپلیکیشن کا استعمال کرتے ہوئے ، کھدائی کا نقشہ تیار کر رہے ہیں ۔ اس ضمن میں وہ دراڑوں اور اینٹوں پر مختلف نقوش و نگار کا حساب بھی رکھ رہے ہیں۔ اگر عراق کی بابل کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دینے کی درخواست قبول کرلی گئی تو اس سے عراق کے محکمہ نوادرات کو اس سائٹ کی حفاظت کے لیے حکومت کے اندر مزید اختیار ملے گا۔ یہ عنصر مزید سیاحوں کے آنے جانے کی ترغیب بھی فراہم کرے گا ، اور ممکنہ طور پر مزید آثار قدیمہ بھی سامنے آئیں گے۔ پیڈرسن کا کہنا ہے کہ بابل کی سطح کی صرف 10 فیصد کھدائی کی گئی ہے ۔ وہ 1979 میں پہلی بار طالب علم کی حیثیت سے یہاں آئے تھے۔ وہ اب بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے پر جوش ہوجاتے ہیں۔ قدیم سڑکوں پر چلتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ابھی تک یہاں سے جو کچھ ہم کھوج سکے ہیں ، وہ تو اس مکمل ورثے اور آثار کی دولت جو یہاں پائی جاتی ہے ، اس کے مقابل کچھ بھی نہیں۔ہمیں یہاں پائے جانے والے ہزاروں سال قدیم متفرق عبادت خانوں کے نام معلوم ہیں ، لیکن ہم انہیں ابھی دیکھ نہیں سکے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ یہاں اگر لگن سے کام ہوتا رہا تو آئندہ ایک دو دہائیوں کے دوران یہاں سے مزید قیمتی ورثہ بھی دنیا کی نظروں میں آ جائے گا۔
(یہ تحریر معروف کینیڈین مصنفہ جین اعراف کی ہے جس کا ترجمہ حماد یونس نے دلیل کے قارئین کے لیے کیا ہے)

Comments

Click here to post a comment