ابراہیم علیہ السلام بت فروش کے بیٹے تھے،گردوپیش کا ماحول بت پرستی سے آلودہ تھا،بظاہر کوئی امکان ایسا نہ تھا جس کی بنیاد پر کہا جاتا کہ بت فروش کے ہاں پیدا ہونے والا یہ بچہ عقیدہ توحید کی خاطر پوری دنیا سے لڑ جائے گا، حتی کہ عقیدہ توحید تک پہنچ جانا بھی محال نظر آتا تھا .
ایسے معاشرے میں، جہاں گمراہی کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا بخوشی قبول کر لیا گیا تھا۔ یقیناً یہ فیضان نظر تھا جس کی بدولت ابراہیم علیہ السلام رب تک پہنچے۔ستارے ، چاند ، سورج کی عالمگیر خصوصیات ، جسامت، نظم، فرض شناسی سے متاثر ہوئے، ٹھٹھکے، رکے، لیکن یکے بعد دیگرے تینوں چیزوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بجائے خود محتاج ہیں ۔۔۔ کوئی اور ہے جو اس نظام پر قادر ہے، بجائے خود یہ بے اختیار ہیں، کسی ناظم کے کہے کے مطابق عمل کر رہی ہیں۔۔۔ پس جب انہوں نے تفکر کیا تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کی تلاش حق کے سفر، راستی کے طلبگار ، منزل کے متلاشی کی ساری آنکھ مچولی کو دیکھ رہا تھا اور لطف اندوز ہو رہا تھا تلاش حق کے راہی کے اس خوبصورت سفر سے۔ بالآخر اللہ نے اپنے بندے کی ان کوششوں کو قبول فرمایا اور حق کی راہ اس پر واضح کر دی۔۔۔ یوں ابراہیم علیہ السلام معرفت کا یہ سفر پایہ انجام تک پہنچا ۔
یہ وہی ابراہیم علیہ السلام ہیں جو نمرود کے دربار میں بھی کلمہ حق کہنے سے نہ چوکے ،دلیری سے اپنا موقف بیان کیا، منکر حق گر چہ تکبر، ضد و عناد کے باعث قبول حق سے محروم ہی رہے تاہم ابراہیم علیہ السلام کے دلائل نے انہیں ششدر ضرور کیا،ورطہ حیرت میں پڑ گیا نمرود لیکن ہدایت تو توفیق الٰہی سے ہی ملتی ہے اور اسے ملتی ہے جو ہدایت کا طالب ہو۔ زبردستی ہدایت یا بنا طلب ہدایت عطا کرنا اللہ کا طریقہ نہیں۔گھر بار، والدین ،رشتہ داروں سے نظریاتی اختلاف اور نمرود کی انتقام کی آگ سے بچ نکلنے کے بعد انہوں نے ہجرت کی راہ اپنائی۔ گویا قربانی کی ابتدا ہو گئی، اس کے بعد بار بار آزمائے گئے،قربانیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حنیف ، امت، خلیل للہ کے القاب سے انہیں نوازا گیا ۔ امام الناس کے درجے کو جا پہنچے۔
پیدائش سے معرفت حق تک کا سفر دیکھیں یا ہجرت سے تعمیر کعبہ تک کا پر مشقت مگر با برکت سفر دیکھیں ،قربانیوں کی بے مثال قربانیوں سے عبارت ہے۔سیرت ابراہیمی کا مطالعہ بے مزہ ہے اگر زندگیوں میں تبدیلی نہ لائے، مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے کے باوجود اگر ہم میں نفس کے بتوں اور سیاسی بتوں سے کنارہ کرنے کا شعور پیدا نہ ہو۔۔۔ جی ہاں یہ بھی وہی بت ہیں جو اپنے نفع ،نقصان پر بھی قادر نہیں ہیں، اقتدار کی سیڑھی تک بھی خود رب کائنات ہی انہیں کسی حکمت کے تحت پہنچاتا ہے اور ان جاندار بتوں میں تکبر کی ہوا بھر دیتا ہے یہ عارضی اقتدار۔۔۔ ابراہیم کی سنت یہی ہے نا کہ ان بتوں کو توڑو جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو، اور پوجتے ہو۔۔۔ پھر تم کیوں اس روش پر نہیں چلتے، کیوں ان بتوں کو پوجتے ہو جو اقتدار کے ایوانوں تک پہچنے کے لیے بھی تمھاری ایک 'ہاں' کے محتاج ہیں ۔
تمھیں نظریے کے اختلاف کی خاطر قربانیاں دینا کیوں گوارا نہیں!!! یا تم ابراہیم کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے باوجود ابراہیمی نظریے کا شعور نہیں رکھتے!!! کیا تم تلاش حق کے سفر کی لذتوں سے محروم رہنا چاہتے یو؟ کیا تم بت شکن کہلانے کی بجائے بتوں کے پجاری کہلوانے پر رضا مند ہو؟
یہ دور اپنے براہیم کی تالش میں ہے
صنم کدہ ہے ، جہاں لا الہ الا اللہ
فیصلہ تمھارا ہے۔۔۔ کیا تم دس ذی الحجہ کو بکرے کی گردن پر چھری پھیر کر محض رسم قربانی ادا کرو گے یا اپنے غلط نظریے،غلط لیڈر کی بابت بھی کلمہ حق کہو گے۔۔۔ بھولئے نہیں ، فلسفہ قربانی محض بکرے کی گردن کاٹنے کا نام نہیں بلکہ اپنی گردنیں کٹوانے کا حوصلہ پیدا کرنے کا نام بھی ہے۔ بتان وہم و گماں پر چھری چلانے کا نام ہے۔ اللہ ہمیں سیرت ابراہیمی کے ہمہ گیر پہلوؤں کا شعور عطا کرے اور فلسفہ قربانی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ا'مین
تبصرہ لکھیے