ہوم << مرشد آباد تا ڈیوڑھی نمک حرام، پلاسی تا پاکستان-حماد یونس

مرشد آباد تا ڈیوڑھی نمک حرام، پلاسی تا پاکستان-حماد یونس

غزالاں، تم تو واقف ہو!!!!
بچپن میں جب یہ شعر سنا تو ہمارا یہی گمان تھا کہ یقیناً یہ کوئی غزالہ آنٹی ہیں جن سے مجنوں انکل کی وفات بارے تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں۔ گو کہ ہمیں تب بھی علم تھا کہ مجنوں صاحب والی خاتون لیلیٰ تھیں، لیکن پھر یہ بھی تو دیکھیے کہ ساٹھ برس کے کسی صاحب/صاحبہ کا اصل نام کچھ بھی ہو، ان کے اقارب انہیں بے دھڑک گڈی باجی، بے بی آنٹی ، پپو بھیا، مُنا ، گُڈّو کہتے نہیں شرماتے ، سو غزالہ بھی انہیں لیلیٰ آنٹی کا دوسرا نام رہا ہو گا۔
یہ تو ہمیں آٹھویں یا نویں جماعت میں پہنچ کر علم ہوا کہ یہ "غزالاں" ہے،۔ یوں تو ہمارے یہاں بہت سے مہرباں(کیسے کیسے) مونث ناموں یا الفاظ کے اختتام پر ایک عدد نونِ غُنّہ ، مفت میں دان کر دیتے ہیں ، مثلاً خالاں ، ساراں، صاحباں ، رشیداں،فریداں، خود غزالاں ، وغیرہم۔۔۔ مگر یہاں ،غزالاں ، غزال کی جمع تھی ، جس کا معنی ہے ، ہِرنِیاں۔

جب یہ حقائق سامنے آئے تو شعر کی شانِ نزول بھی تلاشنا چاہی۔ پھر یوں ہوا کہ یہ عُقدہ پوری طرح وا ہو گیا۔ تو صاحب، مرشد آباد موجودہ مغربی بنگال کا ایک شہر ہے،جو اٹھارہویں صدی کے اوائل سے ریاستِ بنگال کا پایۂ تخت تھا۔ نواب سراج الدولہ 23 جون 1757 کو یہیں سے اپنا وہ لشکر لے کر چلے تھے ، جس کے شمر مزاج سالار ، میر جعفر نے پلاسی کے میدان کو ریگزارِ کربلا بنا دیا۔ خیر ، سراج الدولہ تو خدا کا شیر تھا، سو پسِ دیوارِ زنداں بھی عدو اس سےگھبراتے اور خوف کھاتے تھے۔ لہٰذا اس کی جان لیے بنا چارہ نہ تھا ، سو میر جعفر اور اس کے بیٹے، غدار ابنِ غدار میر مدن نے 2 جولائی 1757 کو نواب سراج الدولہ کو شہید کر دیا۔

تاریخ کا ستم دیکھیے کہ میر جعفر کے جس محل میں سراج الدولہ شہید کیے گئے، اسے تاریخ کے پنّوں میں میر جعفر کی نمک حرامی کی یاد میں "نمک حرام دیوڑھی "کے نام سے جگہ ملی۔ رہی بات نواب سراج الدولہ کی ، توایسے لوگ ہار کر بھی کہاں ہارتے ہیں؟ مظفر حنفی نے کہا تھا،
شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو!!!
ہمارے قد سے کم نہ ہو فرازِ دار دیکھنا

واضح رہےکہ یہ صرف جذبات سے گندھے قصے نہیں ۔ میر جعفر کے پڑپوتے ،میجر جنرل ریٹایرڈ اسکندر مرزا کے بیٹے (ہمایوں مزرا) کی کتاب ، From Pilasi to Pakistan ان سب واقعات کی تصدیق کرتی ہے۔ جب بنگال کی فوج شکست خوردہ واپس آئی ، اور میرِ سپاہ و نوابِ بنگال جنابِ سراج الدولہ لوٹ کر نہ آئے تو ریاست پر کیا قیامت گزری ہوگی، ایسے میں نوحہ کناں لوگوں میں ایک بلند ترین آواز رام نرائن موزوں کی تھی ، جو سراج الدولہ کے دوست اور بنگال کے ضلع عظیم آباد (موجودہ پٹنہ ) کے صوبیدار تھے۔ انھی نے تو یہ شعر کہا تھا کہ
غزالاں! تم تو واقِف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری؟

Comments

Click here to post a comment