کراچی کی معیشت کی بہتری کی بہت بات کی جاتی ہے مگر اس ماہ رمضان میں طارق روڈ، صدر اور کریم آباد میں افطار کے بعد بھی دکاندار مکھیاں مارتے نظر آئے. کریم آباد جہاں لڑکپن میں آپ دھکے سے اندر جاتے تھے اور دھکے سے باہر آتے تھے، عید کے دنوں میں وہاں دکانیں بند اور اکا دکا خریدار مارکیٹ میں دکھائی دیے جبکہ طارق روڈ کی صورت حال یوں تھی کہ ہر چوتھا دکاندار آپ کو ایسے دیکھتا کہ آپ اس کے خریدار بن جائیں. گاڑیوں کا رش تو خوب ہوتا مگر دکانیں خالی، بس ڈولمین مال اور گلیمر ون میں کچھ عوام ہوتی تھی جبکہ صدر عام دنوں سے کم رش کا منظر پیش کرتا رہا.
جو لوگ کہتے ہیں کہ کراچی میں امن کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور کراچی کی معیشت مستحکم ہوئی ہے تو ان سے گزارش ہے کہ ٹی وی سے نکل کر بازاروں میں خود گھومیں اور حالات کا جائزہ لیں. کراچی کی عوام کا پیسہ پانی خریدنے میں خرچ ہورہا ہے یا پھر جنریٹر اور یو پی ایس لگوا کر ماہانہ ہزاروں روپے بل ادا کرنےکی صورت میں. کوئی عقل کا اندھا ہی ہوگا میری نظر میں جو کراچی شہر کی معاشی آسودگی کی بات کرے گا. پچھلے سال تک سفید پوش ہمیں شاذ و نادر پتا چلتے تھے، اب کچھ تحقیق کر کے دیکھا تو آس پآس میں ہی دو تین گھرانے نکل آئے جبکہ جن این جی اوز کے ساتھ میں کام کرتا ہوں، ان کے پاس بھی بیسیوں جینوئن کیس ہیں. یہ ہے کراچی
اگر کراچی کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ورنہ اگلے دس سالوں میں ہر تیسرے شخص کو دس پندرہ سفید پوش ملیں گے، اور 25 سالوں میں بھوک سے مر نے والوں کی خبریں نشر ہوا کریں گی. سیاستدانوں کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ کر انسان مریںگے. گوادر ضرور چلائیں مگر کراچی کو تاریک ہونے سے بچائیں. سیاسی جماعتیں جذبات اور لسانیت کے جھگڑے سے نکل کر معاشی اعتبار سے سوچیں. حالات و معیشت کی بہتری کا تقاضاہے کہ نچلی سطح تک انتظامی نظام بنادیا جائے. اگر نئے صوبے بنانے سے کسی کی عزت اور انا میں فرق پڑتا ہے تو بلدیاتی نظام کو مضبوط بنائیں اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دیں. اگر کراچی جیسے بڑے شہر کا یہ حال ہے تو باقی پاکستان کا تو سوچ کے دماغ کی نسیں پھٹنے لگتی. ذرا سوچیے گا ضرور
تبصرہ لکھیے