گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر مری آنکھوں کا پردہ تھا مرے دامن کے صحرا میں کئی جھیلوں کا قصہ تھا جو بادل کی زبانی میں ہوائوں کو سناتا تھا میں کیا کروں کہ فطرت سے محبت میری فطرت میں شامل ہے۔
مجھ پر ایک وارفتگی سی طاری ہو جاتی ہے جنوں کی تیز بارش میں تجھے پانے کی خواہش میں۔میں دل کی سطح پر اکثر کھلی آنکھوں کو رکھتا تھا ویسے آپ نوٹ کرتے ہوں گے کہ ہماری آنکھیں سیپ ہی تو ہیں اور ان میں آنے والے آنسو موتی کی طرح قیمتی۔ مجھے سبزہ بہت ہانٹ کرتا ہے اور خاص طور پر پیڑ پودے اور ان میں چہچہاتے پرندے۔بعض گھنے پیڑ تو خود گویا نظر آتے ہیں ’’تو نغمہ پرندوں کا، میں جھونکا تھا ہوائوں کا۔مرے باعث ہی فطرت سے ترا یہ سارا رشتہ تھا ایک خوبصورت شعر تو آپ سب کے حافظے میں ہو گا: سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ے ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے گویا کہ’ میں گھنا پیڑ ہوں میں تو سایہ کر دوں گا۔ واہ کیا اچھا کہا تھا قاسمی صاحب نے میرا دشمن بھی جو چاہے تو مری چھائوں میں بیٹھے، ایسے آتا ہے وہ خیالوں میں جیسے رستے میں شجر آتا ہے۔ لگتا ہے انسان اور پیڑ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ درخت ہماری زندگی ہیں کہ ہمارے لئے آکسیجن بہم پہنچاتے ہیں اور تو اور ہمارے موسموں کو خوشگوار رکھتے ہیں۔ سیلابوں کو روکتے ہیں ۔ خیر میں درختوں پر مضمون لکھنے نہیں بیٹھا بلکہ دل کے پھپھولے پھوڑنے بیٹھا ہوں کہ اخبار کھولا تو 92نیوز کے اولین صفحہ پر تصویر نظر آئی کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران اسلام آباد بلیواریا میں کارکنوں نے درختوں کو آگ لگا دی ہائے ہائے یہ کیا کیا۔ یہ تو آپ پر سایہ نچھاور کرنے کے لئے آپ کی راہوں میں ایستادہ تھے ۔وہ دھوپ برداشت کر کے آپ کو سایہ بخشتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ اس میں خان صاحب کا قصور ہے پولیس کی آنسو گیس کی شیلنگ بھی وجہ تھی مگر یہ سازشی اور شیطانی افراد بے قابو کیوں تھے پیڑ تو پیارے دوست ہوتے ہیں: پیلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے میں اسے المیہ ہی کہوں گا کہ پہلے ہی شاہراہوں کو کشادہ کرنے کے لئے درختوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔جنگل بھی بہت بے دریغ کاٹے گئے اور موسم میں تغیر آ گیا ۔باقاعدہ ٹمبر مافیا ہے۔
مجھے یہاں اپنے مجید امجد کیوں یاد نہ آئیں گے کہ ساہیوال میں نہر کے کنارے کچھ درخت کٹ گئے تو یہ عظیم شاعر کانپ کر رہ گیا اور باقاعدہ ان درختوں کے کٹنے پر نوحہ لکھا۔ میں ساہیوال گیا تو باقاعدہ افتخار شوکت کے ساتھ اس نہر پر گیا اور کھڑا سوچتا رہا ان کی نظم توسیع شہر پڑھنے کے لائق ہے: بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانگے پہرے دار گھنے سہانے چھائوں جھڑتے بور لدے چھتنار بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار ہائے ہائے دیکھیے جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم۔قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم ،گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار اور پھر سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار، آخر میں تو مجید امجد نے اخیر ہی کر دی۔ اس مقتل میں صرف اک میری سوچ مہکتی ڈال مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل۔ کیا کروں دکھ ہوتا ہے ہم کدھر جا رہے ہیں ہم نے تو اپنے وطن کو جنت نظیر بنانا تھا یہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر تھی جسے قائد نے ہمارے لئے حاصل کیا تھا ہم کدھر چل پڑے ایک لمحے کے لئے بھی ہم نہیں سوچ رہے کہ ہمارے سامنے مقصد کیا ہے۔
اپنی املاک کو نقصان پہنچانا کہاں کی دانشمندی ہے گاڑیوں کو آگ لگانا اور توڑ پھوڑ کرنا کہ اس میں پولیس بھی یقیناً معاون ہے مگر درختوں کو آگ لگانے جیسا واقعہ شاید کم کم ہی ہوا ہو گا لوگوں کی زندگی اجیرن ہوتی جاتی ہے۔زندگی جیسے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ اب آخر میں تھوڑی سی بات لانگ مارچ کے اختتامی لمحات پر بھی ہو جائے کہ ہم نے عمران خان کی تقریر سنی اور خوش ہوئے کہ انہیں احساس ہو گیا کہ اس عمل سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جس طرح سے پولیس کو استعمال کر رہی ہے اس طرح عوام اور پولیس کے درمیان ایک قسم کی نفرت پیدا ہو رہی ہے یہ بات انہوں نے بہت اعلیٰ کہی کہ وہ قوم کو تقسیم کرنے نہیں بلکہ یکجا کرنے آئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر رکاوٹیں ختم کی گئیں خان صاحب نے یقیناً وعدہ وعید کے بعد ایک شاندار فیصلہ کیا کہ فی الحال اس جنگ کو ختم کیا جائے اور ان کا شکریہ کہ انہوں نے حکومت کو مزید چھ روز دے دیے ہیں۔ فیصلہ کر لیں جون میں انتخاب کا اعلان کریں مجھے تو یوں لگتا ہے خان صاحب نے اپنی خواہش کا اعادہ کیا کہ وہ پھر حکومت میں آئیں گے پھر انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں گے اور لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے!۔ سچی بات یہ ہے کہ عوام روز روز کی چیخ چیخ سے تنگ آ چکے ہیں۔کاروبار بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
بچوں کی پڑھائی بہت بڑا مسئلہ ہے۔بچوں کے سالانہ امتحان ہو رہے ہیں خدا نہ کرے کہ چھ دن بعد پھر ایسی صورتحال ہو تو یہ بہت ہی برا ہو گا۔دیکھتے ہیں حکومت اپنی ساکھ کو بناتی ہے یا نہیں۔کچھ گرد بیٹھے گی تو منظر نکلے گا۔ قمر رضا شہزاد کا خوبصورت شعر: مرا تو صرف یہی کام رہ گیا ہے کہیں بھی آگ لگے میں بجھانے لگتا ہوں
تبصرہ لکھیے