ہوم << چور گلی والی باجی - حق نواز انصاری

چور گلی والی باجی - حق نواز انصاری

حق نواز انصاری ہم نے میلاد والی باجی، سلائی والی باجی، ٹیوشن والی باجی، کمیٹی والی باجی، رشتہ کرانے والی باجی کا نام تو سن ر کھا تھا لیکن چور گلی والی باجی کا نام پہلی دفعہ سنا تھا. جب ہمارا ان سے واسطہ پڑا تب پتہ چلا کہ یہ باجی اصل میں جگ باجی ہیں اور ضرورت پڑنے پر تمام باجیوں والے کام بہت اچھے طریقے سے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں. ان کی ایک خصوصیت جو انھیں مذکورہ بالا باجیوں سے ممتاز کردیتی، وہ اپنے منفرد انداز میں خواتین کا روحانی علاج کرنا اور ان کے خود ساختہ گھریلو مسائل حل کرنا تھا. ایک مقررہ دن مخصوص وقت پر خواتین کی ایک معقول تعداد باجی کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے مسائل پیش کرتی اور باجی اپنے جلالی عمل سے انھیں‌متاثر کر کے نذرانے وصول کرتیں. کسی کو بیٹے کی خواہش ہوتی حالانکہ اس کی بیٹی نے پانچویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کر رکھی ہے اور سکول میں تقسیم انعامات کی تقریب میں اپنے ماں باپ کا سر بلند کرنے کا سبب بن چکی ہے، لیکن بیٹا چاہیے. حد ہے یا اللہ پاک سے ضد ہے. کوئی خاتون اپنی بہو کا دماغ ٹھکانے لگوانے آئی ہے کیونکہ بہو نے کالا جادو کرا کر بیٹے کو اپنے بس میں کر لیا ہے. یہ اور بات ہے کہ بہو اس کی سگی بھتیجی ہے، جس کی پیدائش پر سب سے زیادہ اسی نے خوشیاں منائی تھیں. بہو صاحبہ جن کی زبان میٹھی پھپھو میٹھی پھپھو کرتے نہیں تھکتی تھی وہ بھی باجی کی کلائنٹ ہیں. ایک دو بار اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لایا گیا کیونکہ داماد اس کی بیٹی کے بجائے ماں کی زیادہ سنتا ہے. جادو کر رکھا ہے ڈائن نے بیٹے پر.
چور گلی والی باجی کے پاس ہر درد کی دوا تھی. باجی کپڑوں کی سلائی، چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا، چھوٹی کمیٹیاں ڈالنا، بڑی بی بی جی کے ساتھ بطور اسٹنٹ میلاد پڑھنے جانا جیسے کام باآسانی سرانجام دیتی رہی تھیں. میلاد میں بڑی بی بی جی کے بیان سے پہلے باجی نعتیں پڑھا کرتیں. 'کالیا زلفاں والا دکھی دلاں دا سہارا' پڑھتے پڑھتے اپنے دل پہ لازمی ہاتھ رکھتیں. آخر میں دعا سے پہلے نم آنکھوں کے ساتھ جب 'مصطفے جان رحمت پہ لاکھوں سلام' بھیجتیں تو وہاں موجود تمام خواتین کو رلا دیتیں. مگر جو پذیرائی انھیں چور گلی والی بن کے ملی وہ سب سے بڑھ کر تھی.
چور گلی والی باجی کا گھر ایک سنسان اندھیری گلی میں واقع تھا. دن کے وقت بھی رات کا گماں ہوتا تھا. محلے کی بڑی بوڑھیاں بچوں کو اس گلی میں جانے سے روکتی تھیں. ان کا کہنا تھا کہ اگر بچے وہاں جائیں گے تو چور اٹھا کے لے جائیں گے. اس پر بچوں نے اس گلی کو چور گلی کہنا شروع کر دیا تھا. اور باجی کو چور گلی والی باجی،حالانکہ ان کا نام مصباح یعنی چراغ تھا.
مقررہ دن باجی کے گھر میں موجود واحد کمرہ ایک مخصوص وقت میں اس صاحب کرامت باجی کا حجرہ بن جاتا. سب خاموشی سے بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتیں کیونکہ ایک خاص عمل کے بعد باجی کے موکل باجی کی خدمت میں حاضر ہونے کو ہوتے. ٹیپ ریکارڈر پر قوالی کی کیسٹ چلائی جاتی، باجی اپنے چہرے پر دوپٹہ ڈال کر بیٹھے بیٹھے پہلے وائبریشن موڈ پہ آتیں اور پھر اسی حالت میں ہلکا ہلکا دھمال پیش کرتیں. یہ باجی کے موکلوں کی آمد کا اعلان ہوا کرتا. ٹیپ ریکارڈر بند کر دیا جاتا اور وہاں موجود خواتین ایک ایک کر کے باجی کے سامنے پیش ہوتیں، اپنا دکھڑا سنا کر تعویذ یا دوران دھمال دم کیا پانی حاصل کرتیں. باجی کی خدمت میں کیش نذرانہ پیش کر کے الٹے قدموں باہر چلی جاتیں. وہ خواتین جو باجی سے کپڑے سلوا کر طے شدہ اجرت دینے کے بجاۓ بحث کرتی تھیں یا بچوں کی پوری ٹیوشن فیس دینے میں شدید تکلیف محسوس کیا کر تیں، اس موقع پر دل کھول کر باجی کو نذرانے پیش کر کے جاتیں، کیونکہ اب باجی کا ہاتھ ان کی دکھتی رگ پہ تھا اور پچھلے دس سال میں باجی نے ان کی جو بلا معاوضہ خدمت کی تھی، اب وہ اس کا محنتانہ سود سمیت وصول کر رہی تھیں. باجی بہت ہوشیاری کے ساتھ ان ضعیف العقیدہ خواتین کی نفسیات سے کھیل کر اپنے چار بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کر رہی تھیں. باجی کا شوہر لکڑی کی چوکیاں بنا کر بیچا کرتا تھا مگر باجی نے اپنے بچوں کے لیے کچھ اور سوچ رکھا تھا
ہماری بیگم سمیت ہماری 'سسرالی' خواتین باجی کی مریدنیاں تھیں، ڈائی ہارڈ قسم کی. ان دنوں ہم اپنے گلے کے انفیکشن کے علاج کی غرض سے اپنے سسرال آئے ہوئے تھے. ڈاکٹر کا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا، لیکن ہماری مشکوک حرکات کی وجہ سے اہلیہ محترمہ کو یہ وہم تھا کہ ہم پر جنات کا سایہ ہو گیا ہے. سرشام سکون آور دوائیوں کے استعمال سے ہم پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی. پھر ہم جان بوجھ کر ٹن لہجے میں باآواز بلند میڈم نور جہان کے گانے گایا کرتے، بلاوجہ ہنسنا یا رونا شروع کر دیتے. تب تو بیگم کو پکا یقین ہوگیا کہ ہم پہ سایہ ہے. ان کی وساطت سے ہماری حالت کی خبر خاندان بھر میں ہوگئی. پھر کیا تھا روز شام کو ہماری چارپائی کے گرد جھمگٹا لگا رہتا. ہماری فرمائشیں پوری کر کے کوئی رشتہ دار کاروبار کے لئے دعا کرا رہا ہے تو کوئی بیماری سے شفا کے لیے. ہم یعنی ہمارا سایہ کبھی آئس کریم کی فرمائش کرتا تو کبھی زنگر برگر کی، کبھی مارلبرو سگریٹ کے پیکٹ کی، حالانکہ یہ تمام چیزیں ڈاکٹر نے منع کی ہوئی تھیں. ساری رات مست رہنے کے بعد صبح ہم ٹھیک ہوجاتے. لیکن انفیکشن اتنی شدید تھی کہ بار بار قے کرنے سے نڈھال ہوجاتے اور متفقہ طور پر یہ سمجھا جاتا کہ یہ سب کچھ وہ سایہ کر رہا ہے. ہماری حالت کو دیکھتے ہوۓ ہمارا علاج چور گلی والی باجی سے کرانے کا فیصلہ کیا گیا. باجی منہ مانگی فیس پہ بہت مشکل سے راضی ہوئیں کیونکہ وہ صرف خواتین کو ڈیل کرتی تھیں
جس دن باجی نے تشریف لانا تھا ٹھیک اسی روز ہمارے دوست عیادت کے لیے ہمیں ریکس آڈیٹوریم لے کر جانے کا پروگرام بنا چکے تھے، جیمز بانڈ فیسٹیول دکھانے. لیکن زوجہ ماجدہ نے سنگین نتائج کی دھمکی دے دی تھی. صحن کے عین درمیان میں ہمارے لیے چارپائی بچھا دی گئی جس پہ ہم منہ پھلا کر لیٹ گئے. کچھ دیر بعد محلے کےایک ناہنجار بچے نے باجی کی آمد کی نوید سنائی. یہ سنتے بیگم سمیت گھر کی تمام خواتین صف آرا ہوگئیں اور جیسے ہی باجی نے اپنے مبارک قدم گھر میں رکھے، سب نے نہایت عقیدت سے ان کی خدمت میں سلام پیش کیا. جیسے ہماری نظر باجی پر پڑی ہم نے مصمم ارادہ کر لیا کہ ہم انھیں باجی نہیں کہیں گے چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے. بڑی بڑی آنکھوں والی، دودھ میں روح افزا ملے رنگت والی خاتون کو جو ہرگز چار بچوں کی ماں نہ لگے کون کم بخت باجی کہے گا؟ خیر ’’باجی‘‘ کو ہماری کنڈیشن بریف کی گئی. باجی نے کھلے برتن میں پانی طلب کیا اور ہماری چارپائی کے گرد ایک چکر لگا کر بقول ان کے حفاظتی حصار کھینچا لیکن ہمیں معلوم تھا وہ حصار کچھ نہیں تھا کیونکہ بیگم دو بار بہت قریب سے ہمیں دیکھ گئی تھیں. باجی نے زیر لب کچھ بڑبڑاتے ہوئے ہم پر پانی کے تڑونکے لگانا شروع کر دیے، باجی بہت کرخت چہرہ بنائے اپنے جلالی عمل میں مصروف تھیں. ان کی آنکھوں کے نیچے دو لکیریں بہت واضح نظر آرہی تھیں یقینا میلاد میں نعت پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں سے نکلنے والا آنسوؤں کا کارواں اسی راستے سے گذرتا ہوگا. عمل مکمل کرنے کے بعد انھوں نے جب پیشانی پر فائنل دم کرنے کے لیے ہاتھ رکھا تو روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی. فارغ ہوکر انھوں نے اپنے وزٹ کی فیس وصول کرتے ہوئے بتایا کہ ہم پر کوئی جن کی بچی عاشق ہو گئی ہے اور وہ ہمیں لینے آئی ہے. اس پر سب خواتین ان کی قائل ہوگئیں کیونکہ وہ یہی تو سننا چاہتی تھیں.
اگلے دن باجی پھر تشریف لائیں، اور گذشتہ روز والا عمل دہرانا شروع کیا اور اچانک ہم کو مخاطب کر کے کڑکدار لہجے میں کہا تو اس کی جان کیوں نہیں چھوڑتی اور ہم پر پانی کے تڑونکوں کی برسات کردی. ہم کو شرارت سوجھی. ہم نے جواب آں غزل کے طور پر اپنا مشہور زمانہ منتر ’’ایسٹان کے ڈبل بین ک یخبخت ک پیچھ پیچھاڑو کنڑ کانڑ ک کیٹو پیٹو ککو پاۓ ششو پاۓ‘‘ الاپنا شروع کر دیا. ایک زمانے میں ہم بہن بھائی نے یہ منتر ایجاد کیا تھا اور اسے آج تک کوڈ ورڈ کے طور پر برتتے ہیں. اس منتر کو سن کر پیارے پیارے بچے ہم کو درجنوں میٹھی والی کسیاں دیا کرتے تھے. یہ منتر سن کر ان کو غصہ آگیا اور تڑونکے بازی شدید ہو گئی. فائنل دم کے بعد انھوں نے اعلان کیا کہ اگلے دو روز میں وہ اس جن کی بچی کو بھسم کر دیں گی. اس سارے مکالمے کے دوران بیگم سمیت سب کی حالت دیکھنے والی تھی. باجی حفاظتی تدابیر بتا کر چلتی بنیں. ہم نے بیگم کی حالت دیکھتے ہوئے اسے بتایا کہ ہم ڈرامہ کر رہے ہیں لیکن اس نے ماننے سے انکار کر دیا.
ہم بھی خاموش ہو گئے. اگلے دن باجی اپنے ساتھ سات مسجدوں سے پانی بھر کر لے آئیں. تڑونکے بازی کرتے ہوۓ پھر مکالمہ شروع کردیا. اب کی بار ہم نے اردو زبان کا سہارا لیا اور زوردار جملے بازی شروی کر دی. آہستہ آہستہ باجی کے لہجے میں جنجھلاہٹ نمایاں ہونے لگی. غصے کی جگہ اب التجا نے لے لی کیونکہ ھم ٹھیک نہ ہوتے تو ان کی نیک نامی پہ حرف آتا اور چونکہ وہ ہمارا نوری علم سے علاج کر رہی تھیں تو وہ کیسے غلط ہو سکتا تھا؟ جانے سے پہلے باجی نے ہمارے آسیب کو اللہ کے اس برگزیدہ نبی کی قسم دی جن کے نام سے ایسوں کی جان جاتی ہے. باجی کے روزانہ وزٹ سے ایک تو ہمارے زر مبادلہ میں شدید قلت ہو رہی تھی. اور سب سے اہم بات باجی ناکامی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھیں. سو اگلے دن ہمارا آسیب آئس کریم کھا کر آئندہ نہ آنے کا وعدہ کر کے ہمیں چھوڑگیا، اور باجی نے سکھ کا سانس لیا. باجی کو ہماری بیگم نے سوٹ گفٹ کیا اور وہ آج تک باجی کی احسان مند ہے. اس بات کو دس سال ہو گئے. اب سنا ہے باجی نے قوالی والا آئٹم موقوف کر دیا ہے. اب وہ صرف جلالی دم کرتی ہیں. اب ان کی کلائنٹس میں بہت اضافہ ہوگیا ہے. ان کے بچے مہینے میں دو دفعہ پیزا کھاتے ہیں. کسی کی اترن نہیں پہنتے، بلکہ باجی خود دوسرے بچوں کو کپڑے دیتی، اترن نہیں نئے سی کر. بڑی کمیٹیاں ڈال کر خاوند کو رکشہ لے دیا ہے جس پر وہ سکولوں کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتا ہے اور بیٹے کو موٹر سائیکل لے دی ہے جس پر بیٹھ کر باجی ہوم وزٹس کے لیے جایا کرتی ھہں. گھر کے صحن میں بچوں کو ایک کمرہ بنوا دیا ہے، گھر آیا مہمان جب بچوں کے بارے میں پوچھتا ہے تو ایک ادا سے باجی کہتی ہیں، وہ اپنے کمرے میں ہیں، پڑھ رہے ہیں. میلاد کے اختتام پر جب بڑی بی بی دعا مانگتیں تو مکہ مدینہ بلاوے والی دعا پر سب سے بلند آمین کی آواز چورگلی والی باجی کی ہوتی. اب باجی نے حج درخواست بھی جمع کرا دی ہے، اور اس سال مکہ مدینہ روانگی ہے.
آج بھی ہماری بیگم ماننے کو تیار نہیں کہ ہم نے ڈرامہ کیا تھا. اور ہم نے بھی باجی کو کبھی باجی نہیں کہا. بھلا دودھ میں ملے روح افزا جیسی رنگت والی خاتون کو باجی کون کہتا ہے؟

Comments

Click here to post a comment