ہمارے زمانہ طالب علمی میں ادبی لطافت میں گھلی ایک غیر نصابی سرگرمی ہوا کرتی تھی کہ مختلف تقریبات پر اپنے اساتذہ کے لیے ایسے اشعار منتخب کیے جاتے جو ان کی شخصیت پر دلچسپ انداز میں منطبق کرتے ہوں ۔ تقریب میں یہ بر محل اشعار بہت رنگ بھرتے۔تربیت کا کیا اچھا ماحول تھا شعر وادب سے واسطہ بھی بڑھتا اور ادبی ذوق کے نکھار کا اہتمام بھی ہوتا میں اشعار منتخب کرنے میں کافی طاق تھی کیونکہ شروع سے ہی شعر و ادب سے لگاؤ تھا ۔
میرے منتخب کئے ہوئے شعروں کی بازگشت بہت دیر تک رہتی کیونکہ وہ اساتذہ کی شخصیت کے کسی خاص پہلو کو بیان کرتے۔ یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے دوران ایک خاتون پروفیسر آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کر کے تازہ تازہ واپس آئی تھیںاور وہ ہمارے لئے بالکل ایک اجنبی شخصیت تھیں اور انہیں بمشکل چند دن ہوئے تھے ڈیپارٹمنٹ جوائن کیے۔ اتفاق سے انہی دنوں ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایسی ہی تقریب کا اہتمام تھا۔ پروفیسر صاحبہ اس تقریب میں بھی تشریف لائیں مجھے کہا گیا کہ ان کی شخصیت پر بھی برمحل شعر پڑھا جائے ۔ صورت حال یہ تھی کہ نہ ہم انکو بطور استاد جانتے تھے نہ وہ ہماری طالب علمانہ نالائقیوں سے واقف تھیں۔ اب ان کی شخصیت کے مطابق شعر منتخب کرنا مشکل مرحلہ تھاکہ اچانک مجھے یہ شعر یاد آیا۔ میں اس کو حشر میں کس نام سے صدا دیتا کہ میرا اس کا تعارف تو غائبانہ تھا ان سے عدم شناسائی کے پس منظر میں اس برمحل شعر کو خاص طور پر داد ملی۔
انگلش ڈیپارٹمنٹ میں تقریب بزبان انگریزی ہوا کرتی تھی تو انگریزی کے اس ماحول میںہم نے اردو اشعار کا ایسا تڑکا لگایا اور اردو کے خوبصورت اشعار منتخب کرکے اپنے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا ۔یہ بات یوں یاد آئی کہ کل ایک پرانی ڈائری کھولی۔ اس میں پاکستان کی نمایاں سیاسی شخصیات کے حوالے سے کچھ اشعار درج تھے جو اس وقت ہماری اس سیاسی ماحول اور ان سیاسی شخصیات کے بارے میں سوچ کی عکاسی کرتے تھے۔90 کی دہائی کا زمانہ تھا اس دور میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نواز شریف ،محترمہ بے نظیر بھٹو، قاضی حسین احمد الطاف حسین موجود تھے ۔ کرکٹر عمران خان کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی سیاسی پارٹی تحریک انصاف کی بنیاد رکھ چکے تھے اور لوگوں کو ایک آئیڈیل مملکت کا تصور دے رہے تھے جہاں حکمران دیانت اور انٹیگریٹی کا مجسمہ ہوگا۔ اور اس کے زیر اہتمام پسے ہوئے طبقے کو سر اٹھا کر جینے کا ماحول میسر آئے گا۔ معاشی اور معاشرتی انصاف پر مبنی معاشرے کا تصور اور بہت خوش کن تھا۔میری جنریشن کے لوگوں کا عمران خان سے متاثر ہونا ۔
فطری امر تھا پرانی سیاست گری کے درمیان ایک ابھرتے ہوئے نئے سیاستدان کی سحر انگیز شخصیت سے جو خواب ہم نے باندھے وہ اس شعر میں نظر آئیں گیاپنی ڈائری میں عمران خان کے لیے یہ شعر تحریر کیا یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی اب اس بات کو دو دہائیاں بیت چکی ہیںہم خواب سے عذاب تک کا سفر طے کر چکے۔یہ داستان صرف مجھ پر نہیں بیتی سیاسی بحرانوں میں اپنے خوابوں کو کاشت کرتی ہوئی ایک پوری اداس نسل پر یہ داستان بیتی ہے۔ ہم اہلِ اعتبار کتنے بدنصیب لوگ ہیں۔ اب رائیگانی کا احساس ہوتا ہے کہ ہم نے سیاسی منڈپ سجانے والوں کے کھوکھلے لفظوں پر اعتبار کیا ہم نے ان کی جھوٹی تقریروں کے طاقوں میں اپنے قیمتی خوابوں کے آئینے سجائے۔ایک لیڈر کو کیسا ہونا چاہیے ملک کے حکمران کو کیسا ہونا چاہیے۔
عمران خان نے اس حوالے سے اعلی معیار لوگوں کے سامنے رکھے مگر افسوس جب ان کو حکومت ملی تو انہوں نے ہر وہ کام کیا جو یہاں 70 سالوں سے ہر روایتی سیاست دان اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے کرتارہا ہے۔عمران خان نے 126 دن کا دھرنا شہر اقتدار میں دیا اتنے دنوں تک شہر یرغمال بنا رہا بچوں کے اسکول بند کرنے پڑے۔سیاسی مخالفین کے لئے غلط زبان استعمال کرنا اور پاکستان کو بند کرنے اور کھولنے کی دھمکیاں دینا یہ سب چیزیں ایسی تھیں جو کم از کم ہم عمران خان سے توقع نہیں رکھتے تھے۔ اس دھرنے کے دوران عمران خان نے کبھی سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا کہا، کبھی بجلی کے بلوں کو آگ لگا دینے کا کہا۔مگر اس بار جب سے وہ اقتدار سے باہر ہوئے ہیںان کا لہجہ زیادہ خطرناک ہوچکا ہے۔جو ایک ایسے قومی لیڈر کے شایان شان نہیں جو ریاست کے امن و امان کا حامی ہو اور قومی وحدت پر یقین رکھتا ہو۔
اس لانگ مارچ کو عمران خان نے خونی لانگ مارچ کہا اور کہا کہ جیل جانے کی بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت ایک ایسے لیڈر کے طور پر ابھر چکے ہیں ہیں جن کے حامی ان کی بات کو دنیا کاآخری سچ سمجھتے ہیں۔ اپنی مقبولیت کا احساس کرتے ہوئے عمران خان کو بطور قومی رہنما زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔25 مئی یعنی بروز بدھ عمران خان نے اسلام آبادکی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔کالم ایک دن پہلے لکھا جارہا ہے آج صورتحال کیا ہوگی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اس وقت ملک میں افراتفری کا عالم ہے ۔ پی ٹی آئی کے حامیوں پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔
بڑے بڑے سیاسی جلسوں کی صورت عمران خان اپنی مقبولیت ثابت کرچکے ہیں لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ جمہوری اور سیاسی احتجاج کو ایسی جدوجہد میں بدلنا چاہتے ہیں جو ملک میں خانہ جنگی اور انتشار کو مہمیز دے گی۔ملک میں بے یقینی کی صورتحال ہے یہ بے یقینی میری نسل کے لوگوں کو ورثے میں ملی ہے۔ہم سیاسی بحرانوں کے سائے تلے خواب دیکھنے والی اداس نسل ہیں۔ہم اہل اعتبار کتنے بدنصیب لوگ ہیں!
تبصرہ لکھیے