ہوم << افراد سازی میں جامعہ نعیمیہ لاہور کا کردار - محمد ہارون

افراد سازی میں جامعہ نعیمیہ لاہور کا کردار - محمد ہارون

قوموں کا عروج وزوال گزشتہ اسلاف کے اچھے یا برے اعمال میں پنہاں ہوتا ہے۔اقوام میں اعمال ہی بطور وراثت یاد رکھے جاتے ہیں۔ اعمال ہی کسی قوم کی سربلندی کا مینارہ یا پستی کا ٹھکانہ ٹھہرتے ہیں۔لمبی عمریں اور ذاتی منفعتیں انسان کی زندگی کے مقصد کے طور پہ نہیں لیے جاتے، باہمی شراکت داری ونفع رسانی ہی اقوام وافراد کی حیات کا مقصد ہیں۔اسی تناظر میں آج عروس البلاد، لاہور میں قائم شدہ عظیم دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کی خدمات کوسراہنا ہے، افراد سازی میں یہ ادارہ اپنی مثال آپ ہے۔ یاد رہے ادارہ افراد سازی میں مثالی کردار ادا کرتا ہے اور تحریک کسی بھی مذہبی، سیاسی نظریے پہ بنے وہ افراد ساز نہیں ہوسکتی۔ یہی بنیادی فرق ہے ادارہ اور تحریک میں۔ اقوام وافراد کا حال اور مستقبل اداروں سے وابستگی میں مضمر ہے، جبکہ تحریک مذہبی وسیاسی عزائم کے تحت ایک عرصے کے لیے ظاہر ہوتی ہے۔

اس ادارے کے بانی یگانہ روزگار مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ ہیں۔ 6 مارچ 1923ء ہندوستان میں ضلع مراد آباد کے قریبی قصبہ سنبھل میں پیدا ہوئے۔آپکے والدگرامی ملا تفضل حسین علیہ الرحمہ 1933ء میں آپ کو مبلغ اسلام بنانے کی غرض سے مراد آباد کی دینی درسگاہ "دارالعلوم جامعہ نعیمیہ،مراد آباد" میں داخل کروایا. وہاں آپ صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ کے زیر سایہ مختلف اساتذہ سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا شمس الحق بہاری، مفتی امین الدین نعیمی،مولانا وصی احمد، مولانا یونس نعیمی اور مولانا عمر نعیمی شامل ہیں۔ قیام پاکستان کی جدو جہد میں اپنے استاذ مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے ہمراہ شریک رہے۔1941ء میں آپ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ سے فارغ التحصیل ہوئے اور لاہور تشریف لائے۔ مختلف مدارس حزب الاحناف، جامعہ نعمانیہ وغیرہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ بالآخر 1953ء میں جامع مسجد چوک دالگراں میں عظیم ادارے جامعہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی، جسے 1960ء میں عیدگاہ گاہ گڑھی شاہو میں منتقل کردیا گیا، جو آج بحمدہ تعالیٰ سائبان علم و حکمت بن کر مختلف بلاد وامصار سے تشریف لائے ہوئے طلباء کی فکری وعملی آبیاری میں برسرپیکار ہے۔ جہاں بانی ادارہ کی شخصیت کے بے بہا پہلو نسل نو کے لیے فکری وعملی رخ متعین کرتے ہیں، ایک ایسے منفرد پہلو کی نشاندہی یہاں ضروری ہے جو وقت کی ضرورت بھی رہی ہے، جس سے آنکھیں موندھ لینا حقیقت سے منحرف ہونے کے مترادف ہے۔دینی مداس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے حصول کو جس دور میں مسلمانوں کے ہاں کفر سمجھا،لکھا، بولا جاتا رہا، عین اسی دور میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی زاد اللہ درجۃ فی الجنہ نے خود 1948ء اور 1951ء میں پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے فاضل عربی اور فاضل فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مزید برآں جامعہ نعیمیہ میں قائم کردہ شعبہ علوم عصریہ بمطابق یکم جنوری 1975ء میں میٹرک، ایف اے کی تعلیم کا آغاز مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی دوررس افکار کی غمازی کرتا ہے۔ اس کے نتائج بڑے حوصلہ افزاء رہے۔ پھر ستر سے اسی کی دہائی میں عصری تعلیم میں سائنسی مضامین اور لیب کا باقاعدہ اجراء بھی جدید طرز تعلیم کے فروغ میں یہ ادارہ فعال رہا ہے۔اس کے ساتھ مئی 1993ء میں شعبہ کمپیوٹر کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس سے اب تک جامعہ اور غیر جامعہ سے 3000 تک طلباء تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب علیہ الرحمہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں 1977ء سے 1980ء تک اسلامی نظریاتی کونسل،پاکستان کے ممبر رہے۔پھر 1981ء سے 1985ء تک صدر محمد ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔آپ علیہ الرحمہ 1991ء میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہوئے۔علاوہ ازیں "سنی امن کمیٹی اور محکمہ اوقاف کے انٹرویو بورڈ" کے رکن بھی رہے۔ آپ علیہ الرحمہ اسلامیہ یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ دعوت وارشاد کے ممبر بھی رہے۔آپ 12 مارچ 1998ء داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔آپ کا مرقد انور جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو، لاہور میں زیارت گاہ خلائق ہے۔

معمار ادارہ جگر گوشہ مفتی اعظم پاکستان، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی 16 فروری 1948ء لاہور کے علاقے چوک دالگراں میں پیدا ہوئے۔ مفتی صاحب کے یہ فرزند ارجمند بھی کبھی ملحوظ الرحمن اور کبھی سرفراز احمد کے نام سے پکارے جاتے۔نابغہ روزگار، اسیر تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی شہید علیہ الرحمہ نے جامعہ نعیمیہ سے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے دینی علوم کی تکمیل 1971ء میں اسی دارالعلوم سے کی۔والد گرامی کی طرح جدید تعلیم بھی حاصل کی۔ آپ نے 1975ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے عربی اور لاہور بورڈ سے فاضل عربی ( گولڈ میڈلسٹ) کی اسناد حاصل کیں۔1976ء میں پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے ہی ایم اے اسلامیات کی تکمیل کی۔آپ نے 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ او۔ ایل ( عربی) کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد 1986ء میں عالم اسلام کی مشہور درسگاہ جامعہ الازہر (مصر) کا سفر کیا جہاں سے فاضل علوم اسلامیہ کے لقب سے موسوم ہوئے۔ آپ نے عصری تقاضوں سے بہرہ مند ہوتے ہوئے 1991ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور " سرفراز احمد" سے " ڈاکٹر سرفراز احمد" کے نام سے موسوم ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ، مفتی عبدالعلیم سیالوی اور علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ قابل ذکر ہیں۔

دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کا انتظام وانصرام آپ کے والد گرامی کی حیات میں ہی آپ کے سپرد کردیا گیا تھا، جسے باحسن طریق آپ نے پورا کیا۔آپ نے 39 سال تک مسلسل تدریس فرمائی۔ آپ جامعہ کے ماہنامہ "عرفات" کے مدیر اعلی بھی رہے۔آپ روزنامہ جنگ میں مختلف موضوعات پر "نشان راہ" کے عنوان سے کالم بھی تحریر کرتے رہے۔والد گرامی علیہ الرحمہ کی طرح اسلامی نظریاتی کونسل،پاکستان کے ممبر بھی رہے۔الغرص تحریر و تقریر ہر سو منفرد اوصاف کے حامل تھے۔ آپ 2001ء میں تنظیم المدارس اہلسنت، پاکستان کے ناظم بھی منتخب ہوئے۔ دینی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کے سد باب کے لیے HEC سے کئی بارگی ملاقاتیں اور منظوری کا سہرا بھی آپ کے سر سجتا ہے۔ جن کی انتھک کوششوں کی بدولت دینی تعلیم کے آٹھ سالہ کورس پہلے دو سال، مساوی میٹرک، دوسرے دو سال، مساوی ایف اے،تیسرے دو سال، مساوی بی۔اے اور چوتھے دو سال، مساوی ایم۔اے عربی واسلامیات پھر مزید دو سال مفتی کورس کو مساوی ایم۔فل (قانون وفقہ) قرار دیا گیا۔ گویا دینی تعلیم کو جدید تعلیم کے مساوی قرار دینے میں مکمل نمائیندگی دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کو مدارس میں فروغ دینے کی جدو جہد بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی طور پہ اذہان وافکار میں جاگزیں کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مدارس جہاں قدیم وجدید تعلیم کو ایک ساتھ دیا جاتا ہے، ایسے مدارس سے نکلنے والے افراد کبھی بھی متشدد ذہنیت کے حامل نہیں ہوسکتے۔ ایسے ادارے معتدل اور صلح جو افراد کی آبیاری میں پیش پیش رہتے ہیں۔بلاشبہ روز اول سے یہ امتیاز " جامعہ نعیمیہ،گڑھی شاہو لاہور " کو حاصل رہا ہے۔ جس کے بانیان و ناظمین نے کبھی بھی سقیم ونیم سقیم اذہان کی نشوونما نہیں کی، بلکہ اسی تعلیم کو فروغ دیا ہے جس طرح نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دارارقم و صفہ میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ غزوہ بدر میں کافروں سے حصول تعلیم کو معیوب نہیں سمجھا۔

ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات پہ لکھنا کئی کالمز لے جاسکتا ہے۔ آپ بلامبالغہ ہر کام میں خراج تحسین کے حقدار ہیں۔جیسا کہ پاکستان کی ملکی سیاست شروع دن سے متنازع کن معاملہ رہی ہے۔ جمہوری نظام میں یہ امور لاحق رہتے ہی ہیں۔ بہرحال جن دنوں دہشتگرد فعال تھے اور ہر عام وخاص اس کی زد میں تھا۔ جراتمندانہ مؤقف دینے کی بناء پہ 12 جون 2009ء کو آپ نے جمعہ کی نماز کے بعد چار روحانی بیٹوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ اللہ کریم آپ کی خدمات سے راضی ہو اور حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوار رحمت میں وسیع جگہ عطا فرمائے۔آمین۔آپ کا مزار پر انوار بھی والد گرامی کے ہمراہ جامعہ میں مرجع خلائق ہے۔

جگر گوشہ شہید پاکستان، ڈاکٹر محمد راغب حسین صاحب نعیمی جامعہ کے موجودہ ناظم اعلی ہیں۔ آپ بھی قدیم وجدید دوطرفہ علوم سے آراستہ ہیں۔والد گرامی علیہ الرحمہ کی طرح لاہور بورڈ سے فاضل عربی، پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے عربی ( گولڈ میڈلسٹ) ہیں۔ اسی طرح آپ نے ایم۔ او۔ ایل (عربی) کی تکمیل بھی پنجاب یونیورسٹی،لاہور سے ہی کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے اسلامیات، معاشیات کی تکمیل بھی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم۔ سی۔ایس کی ڈگری اسکالر کالج آف کمپیوٹر سائنس، لاہور سے حاصل کی۔ اور اسلامک اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپ بھی دادا جان، والد گرامی علیھما الرحمہ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کے ممبر رہے۔ آپ ماہنامہ "عرفات" کے بھی مدیر اعلی ہیں۔ ایک ایسا رسالہ جو شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی علیہ الرحمہ کی تحریر کا زندہ وجاوید ثبوت ہے۔ آپ کے مضامین اور کالمز عصری تقاضوں سے ہم آہنگ چھپ چکے ہیں۔آپ رویت ہلال کمیٹی، پاکستان کے موجودہ ممبر بھی ہیں۔ آپ مختلف ٹی وی چینلز پہ پر مغز ہفتہ وار خصوصی پروگرام بھی کرتے ہیں۔ آپ مختلف بلاد وامصار امریکہ، انڈیا، نیپال، سعودی عرب، اردن، ترکی ودیگر کے تعلیمی دورے بھی کرچکے ہیں۔

آپ نے حال ہی میں ملک پاکستان میں یونیورسٹیوں اور اداروں سے باہمی اشتراک پہ دستخط بھی کیے ہیں، جو اہم سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔ جن میں جامعہ نعیمیہ اور آئی۔آر۔ڈی، جامعہ نعیمیہ اور انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ اقبال ریسرچ انسٹیٹیوٹ اینڈ ڈائیلاگ، جامعہ نعیمیہ اور ادارہ تفہیم، جامعہ نعیمیہ اور ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور کے معاہدے قابل ذکر ہیں۔ ایسے معاہدے طلباء میں اتحاد، امن، فروغ تعلیم، نوجوانوں کی شخصی نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاؤہ آپ جامعہ نعیمیہ سراجیہ للبنات کے انتظام وانصرام کی نگہداشت بھی کرتے ہیں۔ آپ نے قومی و بین الاقوامی سطح پہ کئی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بطور سپیکر وبطور منصف شرکت کرچکے ہیں۔ جن میں پنجاب یونیورسٹی،لاہور کے ادارہ علوم اسلامیہ میں "القدس اور اہل علم ودانش کی زمہ داریاں" ، پنجاب یونیورسٹی،لاہور اور شیخ زاید اسلامک سنٹر میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس، اوکاڑہ یونیورسٹی کانفرنس ودیگر قابل ذکر ہیں۔اللہ کریم آپ پہ اپنی رحمتوں کا سائبان ہر لمحہ فگن رکھے اور ہمیں اس اس ادارے کی ترویج واشاعت کے لیے دن رات کمربستہ رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

جامعہ نعیمیہ لاہور افراد سازی میں روز اول سے نمایاں کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ ادارے میں سکول اور کمپیوٹر کے شعبہ جات کا قیام تو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ میں ہی ہوگیا تھا۔ اب تک جو شعبہ جات فعال ہیں وہ یہ ہیں۔ شعبہ درس نظامی جس سے ہزاروں، لاکھوں طلباء فارغ التحصیل ہوچکے ہیں، جس میں مفتی عبدالعلیم سیالوی صاحب، مفتی انور القادری صاحب، علامہ نصیر الدین چشتی صاحب، مفتی عمران حنفی صاحب ودیگر اسماء قابل ذکر ہیں۔ پھر نعیمیہ پوسٹ گریجوایٹ کالج جس میں مڈل سے ایم۔اے اسلامیات تک بتدریج سکول کی تعلیم جاری وساری ہے۔ جس میں پروفیسر رفیق صاحب مرحوم، صدر شعبہ پروفیسر عبدالستار شاکر صاحب، جناب ہیڈماسٹر عبدالمجید صاحب، پروفیسر میاں خلیل صاحب، پروفیسر ڈاکٹر وارث علی شاہین صاحب، علامہ عابد نعیمی صاحب، انچارج شعبہ علامہ ہارون نعیمی ودیگر قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ شعبہ حفظ القرآن جس میں قاری منظور حسین صاحب، قاری غلام رسول صاحب مرحوم، قاری امیر قادری صاحب ودیگر قابل ذکر ہیں۔ شعبہ تجوید و قرات جس میں صدر شعبہ مولانا قاری محمد رفیق نقشبندی صاحب، مولانا قاری ذوالفقار علی نعیمی صاحب، قاری محمد اشفاق صاحب ودیگر قابل ذکر ہیں۔اسی طرح شعبہ دارالافتاء جس میں مفتی عمران حنفی صاحب، مفتی عارف خورشیدی صاحب، مفتی مدنی سعیدی صاحب، مفتی فیصل ندیم صاحب، مفتی حافظ عبدالستار سعیدی صاحب ودیگر قابل ذکر ہیں۔ شعبہ کمپیوٹر جس میں صدر شعبہ جناب مولانا فاروق امیر صاحب، جناب مولانا ارشد جاوید رضا قادری صاحب ودیگر قابل ذکر ہیں۔ جس میں ڈپلومہ ان ونڈوز ایپلیکیشن، ڈپلومہ ان گرافک ڈیزائننگ، ڈپلومہ ان ڈبلیو تھری کامرس، ڈپلومہ ان انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈپلومہ ان پاور پیک ڈپلومہ اور ڈپلومہ ان کمپیوٹر ہارڈ ویئر انجینئرنگ کورسز متداول ہیں۔شعبہ تصنیف وتالیف جسے باقاعدہ مکتبہ نعیمیہ سے پبلش کیا جاتا ہے۔ جس میں حاجی عمران صاحب، مولانا شاہد عزیز صاحب ودیگر قابل ذکر ہیں۔جامعہ کے ساتھ متصل "ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سائنس جو قدیم وجدید تعلیم سے ہم آہنگ ہے، جس میں مولانا ڈاکٹر ضیاء اللہ نورانی صاحب، مولانا بلال فاروق نعیمی صاحب، مولانا بلال سلطان صاحب، مولانا احمد رضا صاحب، مولانا سلطان صدیقی صاحب ودیگر قابل ذکر ہیں۔اس ادارے میں تعلیم صبح سات سے دو بجے تک دی جاتی ہے۔ جبکہ جامعہ میں دینی تعلیم صبح 8 سے 1 بجے تک اور عصری تعلیم بعد از نماز ظہر تا شام دی جاتی ہے۔ جہاں ہزاروں تشنگان علم ملک پاکستان کے ہر صوبہ سے تشریف لاتے ہیں اور رہائش پذیر ہوکر اکتساب فیض پاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ نعیمین ایسوسی ایشن اور نعیمیہ انٹیلیکچیول فارم بھی ہیں جہاں فارغ التحصیل علماء کے ساتھ باہمی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔