ہر روز احتجاج سے امریکہ کو پیغام جانا چاہیے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔۔۔۔۔ جناب وزیر اعظم کا یہ ارشاد پڑھ کر بیٹھا سوچ رہا ہوں پاپولزم کی یہ سیاست ہمیں کہاں لے جائے گی۔دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش یہ معاشرہ اتنا سطحی اورجذباتی نہ ہوتا یا پھر ہمیں کوئی ایسا رہنما مل گیا ہوتا جو اس نیم خواندہ سماج کے جذباتی استحصال کی بجائے اس کی اصلا ح اور تربیت پر توجہ دیتا۔
سوال یہ ہے کیا کسی ملک کو یہ بتانے کے لیے کہ ہم زندہ قوم ہیں ، کیا احتجاج ہی ایک طریقہ رہ گیا ہے؟ گھر سے نکلو، کچھ جذباتی اور کچھ بے روزگار لوگوں کو ساتھ لو ، سڑک بند کر دو، ٹائر جلا دو، محروم لوگوں کے نا آسودہ جذبات سے کھیلو اور اس کے بعد رات بھر جشن فتح مناتے رہو کہ امریکہ سمیت سب کو معلوم ہو گیا ہے ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
تعلیم کا عالم یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایک بھی ایسی یونیورسٹی نہیں، جس کی دنیا میں کوئی حیثیت ہو اور دنیا بھر کے طالب علم وہاں داخلہ لینے کے متمنی ہوں۔ ریاست کی بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ اس نے صرف میٹرک تک تعلیم کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔پی ایچ ڈی حضرات کا یہاں ’’ افراطِ زر‘‘ ہے لیکن عصری بیانیے میں ہمارا اہل دانش کہیں نظر نہیں آتا۔
دو کروڑ تیس لاکھ بچے ایسے ہیں جن کی عمریں پانچ سے سولہ سال ہیں اور وہ سکول نہیں جاتے۔دنیا بھر میں ہم سے بد ترین صورت حال صرف ایک ملک کی ہے اور اس کا نام نائیجیریا ہے۔ہماری نصف سے تھوڑی کم آبادی نا خواندہ ہے۔لیکن ہم امریکہ کو جلسوں میں احتجاج کر کے بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔معیشت کا یہ حال ہے کہ قرض نہ لیا جائے تو ملک چلانا مشکل ہو جائے۔ کشکول ہمارے گلے میں طوق کی صورت لٹکا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دبائو پر ہم قانون سازیاں کر لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے اہلکار کو ہم سٹیٹ بنک کا گورنر بنا دیتے ہیں اور سٹیٹ بنک کو خود مختار بنا دیتے ہیں۔قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے ہمیں مزید قرض درکار ہوتا ہے۔بجٹ آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے قرض پر سود اور اقساط کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کا حجم ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ چکا ہے۔
معیشت کی بحالی کا ہمارے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ قرض کھا کھا کر ہم نے ملک کی کمر دوہری کر دی لیکن ایک ایسا ڈھنگ کا انڈسٹریل یونٹ قائم نہیں کیا جا سکا، جس سے کوئی چیز تیار کر کے ہم دنیا کو بیچ سکیں اور زرمبادلہ کما سکیں۔اب ہم سڑکوں پر نکل رہے ہیں کہ امریکہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے اور اس کو اچھی طرح معلوم ہو جائے ہم ایک زندہ قوم ہیں۔بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اور شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر لیتا ہے ۔ لیکن ہم بے بسی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف سوال کرتی ہے تو عمران خان پلٹ کر سوال کرتے ہیں کیا میں بھارت سے جنگ شروع کر دوں؟مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت کی خارجہ پالیسی کا حال یہ تھا کہ دو سال تک او آئی سی کا ایک اجلاس تک کشمیر پر منعقد نہ ہو سکا۔( افغانستان پر چند ماہ میں دو اجلاس ہوگئے۔)
امور خارجہ کو ہم نے مقامی سیاست کی غلاظت سے بھر دیا اور دنیا میں بلاوجہ کے محاذ کھول لیے۔ اور اب ہم احتجاج کے ذریعے امریکہ کو بتانے نکلے ہیں کہ چاچوبائیڈن آپ کو اگر ہمارے بارے میں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو تو اسے دور کر لیں۔ہم زندہ قوم ہیں۔ ہم ڈی جے کے میوزک پر احتجاج کر رہے ہیں اور ہمارا نچنے نوں بڑا دل کردا اے۔
پارلیمان اور سیاست بند گلی میں راستہ نکالنے کا نام ہے۔ ہم نے سب کچھ اٹھا کر بند گلی میں رکھ چھوڑا ہے ۔حاکم وقت کو اپنے سواسب غدار نظر آتے ہیں ۔محب وطن اب صرف وہ ہے جو قافلہ انقلاب کا ہم سفر بن جائے۔جو گستاخ دوسری صف میں کھڑا ہونے کی جرات کرے گا اس کی دیانت ، امانت ، حب الوطنی سب خطرے میں ہے۔ وہ چور ہے ، اچکا ہے ، بے ایمان ہے ، خائن ہے اور غدار ہے۔آئین سے لے کر پارلیمانی روایات تک ہر چیز کو ہم نے تماشا بنا دیا ہے۔لیکن نامہ اعمال کی اس تیرگی سے کیا ہوتا ہے؟ہم سڑکوں پر آئیں گے۔ دو چار نعرے لگائیں گے اور امریکہ کو بتا دیں گے کہ ابے نا ہنجار ، بین الاقوامی پٹواری ، تو کس غلط فہمی میں تھا ۔ خواب غفلت سے بیدار ہو ، آنکھیں کھول اور دیکھ لے، ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
زندہ قوم بننے کا اس سے اچھا ، اس سے سستا ، اس سے باکمال اور اس سے شاہکار طریقہ معلوم انسانی تاریخ میں اگر کسی کے پاس ہے تو بتائیے۔ نہ قوم کی تعمیر کا بھاری پتھر اٹھانے کی کوئی ضرورت، نہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی کوئی حاجت،نہ تعلیم و ترقی کی کوئی ضرورت، نہ کسی عرق ریزی کی محتاجی ۔بس دن ڈھلے تو ڈی جے بھیا کو ساتھ لیں اور احتجاج کو نکل کھڑے ہوں۔ امریکہ کو لگ پتا جائے گا کہ ہم کتنی زندہ قوم ہیں۔کیا ہوا ہم ٹرمپ سے ملاقات کر کے لوٹے تو اسے ورلڈ کپ جیسی فتح قرار دے دیا اور اس ملاقات میں بھی ہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بات نہ کر سکے ، یہی کیا کم ہے کہ ہم احتجاج تو ہر روز کر رہے ہیں. کشمیر کی آزادی کے لیے بھی ہم نے ایسا ہی کیا تھا۔ ایک جمعہ ہم چند منٹ کھڑے رہے تھے اور پھر جنوبی ایشیاء کی تاریخ بدل گئی تھی۔
ابھی دو چار دن صبر کیجیے ہمارے احتجاج سے جو بائیڈن کے ہوش ٹھکانے نہ آ گئے تو کہیے گا۔حاسدین کو مگر یہ خوبیاں اور یہ کامیابیاں نظر نہیں آتیں۔ وہ عمران کے بغض میں بھن کر کباب ہوجاتے ہیں تو ان کے پا س جب اور کچھ کہنے کو نہیں بچتا توکہتے ہیں عمران کو سیاست نہیں آتی۔ کیا عجب ہمارے احتجاج سے جب سات براعظم مان جائیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں تو ڈپلومیٹک انکلیو کے کسی کونے میں جاپان کا سفیر بھی بیٹھا سوچ رہا ہو کہ دو ایٹم بم بھگتنے کے بعد دنیا کو یہ بتانے کے لیے کہ جاپان مرا نہیں زندہ ہے اس نے بلاوجہ ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نسلیں کھپا دیں۔
اگر جاپان کی بھی ایک کرکٹ ٹیم ہوتی ، وہ بھی ورلڈ کپ جیت جاتی ، اس کا کپتان بھی سیاست میں آتا اور جاپان بھی اپنے محبوب کپتان کو وزیر اعظم بناتا تب شاید وہ بھی راز کی یہ بات جان پاتا کہ امریکہ جیسے دشمن کو یہ بتانے کے لیے کسی محنت اور داخلی تعمیر کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اس کے لیے ہر روز ایک احتجاج کافی ہوتا ہے۔قوموں کی تقدیر بدلنا ناممکن کام نہیں ہے۔بس ایسا مزاج چاہیے جو ہر دم احتجاج پر مائل ہو ۔سائونڈ سسٹم کو دیکھنے والا ایک ڈی جے اور جذبات گرمانے والا ایک ہماارا پیارا لالہ عیسی خیلوی۔امریکہ تو کیا ساری دنیا کے ہوش ٹھکانے آ سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے