ہوم << کشمیری نوجوان کی سوچ - طلحہ سیف

کشمیری نوجوان کی سوچ - طلحہ سیف

ابھی مفتی محمد سعید کا جنازہ بھی دیکھنے والوں کو یاد ہوگا اور ابھی حال ہی میں جام شہادت نوش کرنے والے نوخیز مجاہد "برہان وانی" اور چند ماہ قبل جنوبی کشمیر میں ایک مہمان مجاہد "عدیل جہادی" کے جنازے بھی۔
ان دونوں جنازوں کے بعد ہفتوں جاری رہنے والے تشدد کے واقعات بھی اور ان میں عیاں ہونے والا جذبہ حریت بھی۔
بھارتی فوج کا طرزعمل بھی اور کشمیری قوم کا جواب بھی اور برہان وانی کے والد مظفر الدین وانی کا انڈین صحافی خاتون کو دیا گیا ایمان افروز انٹرویو بھی جو صرف ایک شہید کے والد کے جذبات نہیں پوری قوم کے دلوں میں پک رہے طوفان کی ترجمانی تھی۔
گولیوں کی تڑہڑاہٹ کے بیچ گونج رہے
"ہم کیا چاہتے ہیں آزادی"
"چھین کے لیں گےآزادی"
"پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ"
کے پرجوش نعرے
شک نہیں رہنا چاہیے کہ کشمیری قوم آج بھی کیا سوچ رہی ہے اور اس کا جھکائو کس کی طرف ہے۔
پھر ہمارے لیے کیا جواز ہے سوچ بدلنے کا، نظریہ تبدیل کرنے کا اور طرزعمل میں بدلائو لانے کا؟
برہان مظفر وانی اور اس جیسے تعلیم یافتہ نوجوان جنہوں نے ہندوستانی استعمار کے خلاف ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں اور تحریکِ جہاد سے وابستہ ہیں، کشمیری قوم کی چوتھی نسل کے نمائندے ہیں اور یہ نسل شاید اب تک کی سب سے باشعور نسل ہے۔ یہ تعلیم یافتہ ہیں، انہوں نے ایک زمانہ تحریک جہاد سے تنفر اور دوری کا گذارہ ہے. یہ جن تعلیمی اداروں میں پروان چڑھے ہیں انہیں وہاں دن رات یہ پڑھایا اور سمجھایا گیا کہ تحریک آزادی اور خصوصاً مسلح جہاد کشمیری قوم کے مفاد میں نہیں، یہ بیرونی ایجنڈا ہے، آزادی کی بات کرنے والے قوم کے دشمن ہیں ، پاکستان سے آنے والے جہادی ہی وادی اور اہل وادی کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ ہندوستان کشمیری قوم کا محسن ہے۔ حکومت اس قوم کو خاص مراعات اور تعلیمی کوٹے دے رہی ہے۔کشمیری قوم کی بقاء ہندوستان کے ساتھ رہنے میں ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ نسل ایسے ایام میں جوانی اور عملیت کی عمرکو پہنچی ہے جس میں پاکستان کی بے رُخی اور بے وفائی کے سبب تحریکِ جہاد کمزوری پکڑ چکی تھی اور اس کا وہ زور باقی نہیں رہا تھا جو نوّے کی دہائی میں تھا۔ مجاہدین سخت حالات سے دو چار تھے اور تحریک کو بچانے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔ انہیں ہندوستان کی طرف سے تو مزاحمت تھی ہی اب پاکستان سے بھی چھپنا پڑ رہا تھا۔ پرویز مشرف کی پالیسی کے سبب ناقابل عبور خونی باڑ مجاہدین کا راستہ روکے کھڑے تھی۔ مجاہدین کی وہ قیادت شہید ہو چکی تھی جس نے کشمیری قوم کی ایک پوری نسل کو درسِ جہاد دیا تھا اور اسلحہ تھما کر میدان میں اتارا تھا۔ اب کشمیر میں جہاد اپنی بقاء کی تگ و ود میں تھا اور دعوت جہاد بند تھی جبکہ تحریک مخالف سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ایسے حالات میں اور اس ماحول میں پروان چڑھنے والے نوجوان کے بارے میں ہندوستانی سرکار کو اور اس کی ہم نوا پاکستانی حکومتوں کو کافی حدتک اطمینان تھا کہ یہ نسل غلامی کو بشکریہ قبول کرلے گی، مراعات اور تعلیم کے لالی پاپ پر راضی ہو جائے گی، خصوصی فنڈ سے بہل جائے گی اور بالی ووڈ کی رنگینیوں میں کھو کر آزادی کا نعرہ بھول جائے گی، لیکن یہ سب کچھ محض خام خیال ثابت ہوا اور نتائج اندازوں سے بالکل برعکس آئے۔ اس وقت اسی تعلیم یافتہ نوجوان کے ہاتھ میں اسلحہ ہے اور زبان پر آزادی کا نعرہ۔ اسے کلاشنکوف میسر آ جائے تو لے کر جنگلوں کو مسکن بنا لیتا ہے اور وہ نہ ملے تو پتھر اور غلیل ہاتھ میں لیے گلیوں بازاروں میں آزادی اور جہاد کے نعرے بلند کرتا پھرتا ہے.
جہادِ کشمیر کا علم تھامے یہ نسل پچھلی نسلوں سے زیادہ باشعور ہے اور زیادہ جذباتی۔ یہ سکے کے دونوں رُخ دیکھ کر اپنے شعور اور تجربہ کی بنا پر اس فیصلے کو پہنچی ہے کہ جہاد کے سوا کوئی حل نہیں، آزادی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ یہ محض سنی سنائی پر چلنے والی نہیں، دلیل ومنطق کی بنا پر فیصلے کرنے والی نسل ہے۔ یہ اس زمانے کے نوجوان ہیں جہاں روایت پسندی سے زیادہ عقلیت پسندی کا غلغلہ ہے۔ لہٰذا قوم کے اس طبقے کو اس فیصلے سے ہٹانا بہت مشکل ہے۔ فلسطین کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔ نسلِ نو کا جدید تعلیم یافتہ فلسطینی جذبہ ایمانی، جذبہ جہاد اور جذبہ حریت اور یہود دشمنی میں قدیم فلسطینی سے بڑھ کر ثابت ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ میں آنے کے بعد مزاحمت جوان ہوئی ہے، توانا ہوئی ہے اور پہلے سے بڑھ کر تباہ کن ہو گئی ہے۔ وہ اب اتنی بات سننے کرنے کا بھی روادار نہیں جو پہلے والے کر اور سن لیا کرتے تھے۔ اس نوجوان کا ظاہری حلیہ اگرچہ روایت سے ہٹ کر ہے، اس کی دینی معلومات بھی پہلوں سے کم تر ہیں اور عمل میں بھی ان سے کمزور ہو سکتا ہے لیکن اس میدان میں وہ پہلوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ یہی صورتحال اس وقت کشمیر میں برپا ہے اور اس کا منظر عام پر آنا چھوٹے سے بہانے کا منتظر رہتا ہے۔ پُرسکون موجوں کو اِضطراب میں آنے کے لیے تھوڑی سی ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی مجاہد کی شہادت، ظلم کا کوئی واقعہ یا دشمن کی کوئی نئی چال سوئے شیروں کو جگا دیتی ہے اور پھر کشمیر کی ہر گلی، ہر محلہ ، ہر چوک و چوراہا دلوں میں پل رہے اور بڑھ رہے اس طوفان کا مظہر بن جاتے ہیں۔
افضل گورو شہید اس نسل نو کے قائد ہیں۔ یہ ان کے تہاڑ جیل کی کال کوٹھڑیوں میں دیکھے گئے خواب کی تعبیر ہے جو انہوں نے آئینہ میں لکھا۔ ان کی امیدیں کشمیر کے اس خاموش اور حالات کو بغور دیکھ رہے نوجوان سے وابستہ تھیں۔ وہ خود اسی طبقے کے فرد تھے۔ انہوں نے اپنے شعور کی بلندی سے حقیقت کو سمجھا، اسے اپنی نسل کے نوجوان کو منتقل کیا اور پھر تختہ دار پر جھول کر اپنی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ وہ قوم کے مزاج شناس تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی طرح اس قوم کا تعلیم یافتہ نوجوان اپنے شعور کی بنا پر اس حقیقت کو ضرور سمجھ لے گا۔ یہ یقین ایک دائمی مسکراہٹ بن کر ان کے چہرے پر نقش ہوگیا تھا اور یہ مسکراہٹ ہر وقت :
فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃْ
(رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا)
کا اعلان کرتی رہتی تھی، حتی کہ موت کا جھٹکا ( جو درحقیقت ان کے لیے دائمی زندگی کا سندیسہ تھا) بھی ان کی یہ مسکراہٹ نہ چھین سکا بلکہ اسے دوام بخش گیا۔
افضل گورو (ایم بی بی ایس) نے اپنے ایام حراست میں کشمیری قوم کے نام اپنا پیغام "آئینہ" نامی کتاب کی صورت میں تحریر کیا۔یہ کتاب ان کی زندگی میں سرینگر سے شائع ہوئی اور شہادت کے بعد لاہور مکتبہ عرفان نے اسے شائع کیا۔اس کتاب میں انہوں نے اپنی قوم کو کیا پیغام اور سبق دیا یہ اگلی تحریروں میں پیش کیا جائے گا تاکہ پاکستانی نوجوان کو آگاہی ہو کہ کشمیر کا تعلیم یافتہ طبقہ اب کس انداز میں سوچ رہا ہے

Comments

Click here to post a comment