ہوم << انصاف کی دو سنہری داستانیں اور ہمارا نظامِ انصاف - غلام نبی مدنی

انصاف کی دو سنہری داستانیں اور ہمارا نظامِ انصاف - غلام نبی مدنی

غلام نبی مدنی کہانی پانچ سال پہلے شروع ہوئی، جب پولیس نے شراب سمگلنگ کے الزام میں ایک امریکی اور یونانی شہری سمیت سعودی شہری کو حراست میں لیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بحری راستے سے ایک کنٹینر کے ذریعے 3350 شراب کی بوتلیں سعودی عرب سمگل کرنے کی کوشش کی۔ محکمہ پولیس نے کیس عدالت میں دائر کیا اور یوں عدالت نے تینوں مجرموں کو جیل بھیج دیا۔ سعودی اخبار ”عکاظ“ کے مطابق سعودی شہری نے ہمت نہیں ہاری۔ چنانچہ اس نے پولیس کے خلاف سٹینڈ لیا اور عدالت میں اپنی بریت کے لیے کیس دائر کردیا۔ عدالت نے کیس کی از سر نو تفتیش کا حکم دیا۔ کیس کی جانچ پڑتال کرنے والی عدالتی کمیٹی نے پولیس کی طرف سے بیان کیے گئے شواہد کو غلط اور جھوٹا قرار دے دیا، یوں لگ بھگ ایک سال بعد سعودی شہری ناحق جیل میں قید رہنے کے بعد رہا ہوگیا۔ سعودی شہری نے ناحق سزا دیے جانے پر پولیس کے خلاف دوبارہ کیس دائر کیا، جس میں مطالبہ کیا کہ چوں کہ پولیس کے الزام کی وجہ سے اس کی شہرت داغدار ہوئی، اس کا کاروباری نقصان ہوا، خاندان کی بدنامی ہوئی، لہذا پولیس اس کا معاوضہ ادا کرے۔عدالت نے سعودی شہری کے اس مطالبے پر ماہرین کی ایک کمیٹی بنادی کہ وہ ناحق سزا کے عوض سعودی شہری کے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگائے۔ چنانچہ کمیٹی نے ایک سال جیل میں رہنے کے عوض یومیہ 1500 ریال خسارے کا تخمینہ لگایا، جو تقریبا 547500 سعودی ریال بنا۔ سعودی شہری کے مطابق جیل سے رہا ہونے کے بعد شہرت داغدار ہونے کے باعث تین سال تک وہ بےروزگار رہا، چنانچہ کمیٹی نے بیروزگار رہنے کی وجہ سے یومیہ 400 ریال خسارے کا تخمینہ لگایا جو تقریبا 438000 سعودی ریال بنا۔ یوں کل ملا کر 985500 سعودی ریال معاوضہ بنا۔ عدالت نے محکمہ پولیس کو یہ رقم سعودی شہری کو ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ ناحق مجرموں کے بارے احتیاط کرے۔
یہ ایک سچی کہانی ہے جس میں سعودی عدالت نے حال ہی میں پولیس کی کوتاہی کی وجہ سے ناحق ملزم کو قید کرنے کی وجہ سے محکمہ پولیس کو 9 لاکھ پچاسی ہزار پانچ سو سعودی ریال، یعنی دو کروڑ 69 لاکھ چار ہزا ر ایک سو بیالیس روپے پاکستانی ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
اسے سے ملتی جلتی ایک کہانی امریکی شہری روڈیل سینڈرز کی ہے، جسے قتل کے جرم میں 20 سال قید رکھا گیا، بعدازاں 22 جولائی 2014ء کو عدالت نے روڈیل کیس کا جائزہ لے کر گواہوں کی جھوٹی گواہی کا اعتراف کیا اور روڈیل کو بری کردیا۔ 28 ستمبر 2016ء کو اسی عدالت نے جھوٹےگواہوں کے تعاون سے ملزم روڈیل کو بیس سال ناحق قید رکھنے کے جرم میں پولیس کے خلاف ایک تاریخی فیصلہ سنایا، جس میں محکمہ پولیس کو روڈیل سینڈرز کو 20 سال ناحق قید رکھنے کے عوض 15 ملین ڈالر یعنی ڈیڑھ ارب پاکستانی روپوں کا جرمانہ کیا۔
انصاف کی ان دوکہانیوں کے بعد ہمارے عدالتی اور پولیس سسٹم پر نظر دوڑائیے، جہاں مظہر حسین ایسے ملزم کو ناحق 17سال جیل میں قید رکھاجاتاہے اور اس کے مرنے کے دو سال بعد اس کی برات کا فیصلہ سنایاجاتاہے۔ یہ ہمارا محکمہ پولیس ہی ہے جو لوگوں کو جھوٹے کیسوں میں جیل بھیج دیتا ہے، جو کسی بھی شریف آدمی کوسزا دلوانے اور مجرم کو بچانے کے لیے جھوٹی ایف آئی آر اور جھوٹے گواہ تک تیار کروا لیتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو مارنا بھی محکمہ پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اس کا اظہار پولیس کے افسروں نے گارڈین اخبار کی رپورٹ میں بھی کیا۔ لیکن افسوس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت پر کوئی قانون حرکت میں آتا ہے، نہ کوئی عدالت سوموٹو ایکشن لیتی ہے۔ حالیہ چند دنوں میں کراچی میں کئی لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیا گیا، جن میں ایک عالم دین مولانا یوسف قدوسی بھی ہیں جن کو 8 اپریل 2016 کو اغوا کیا گیا، بعد ازاں جعلی پولیس مقابلے میں شہیدکردیا گیا۔ کراچی کی مذہبی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن کے ادارے بھی پاکستان میں اس طرح کے ماروائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ بین الاقومی خبررسال ادارے روئٹرزکی 2015ء کی رپورٹ اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق صرف کراچی میں ایک پولیس افسر راؤ انور نے 60 کے قریب لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے راؤ انور کے خلاف عدالت میں پیٹشن بھی دائر کی۔ 26 ستمبر 2016 کےگارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں 2108 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔اسی طرح ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 143 لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔حیرت اس بات پر ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں کوئی پولیس اہلکار زخمی ہوتا ہے ،نہ ہلاک ہوتاہے۔ ہمارے عدالتی سسٹم کی بےحسی اور کمزوری دیکھیے کہ یہ 2001ء سے لاپتہ افراد کو اب تک بازیاب نہیں کرواسکا،جن میں سے کچھ کو امریکہ کے حوالے کیا گیا اور کچھ کو خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ عدالتی سسٹم کی کمزوری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ 2013ء میں فوج اورخفیہ ایجنسیوں کی طرف سے 35 لاپتہ کیے جانے والے افراد کے خلاف بھرپور عدالتی مہم جوئی کے باوجود ہمارا عدالتی سسٹم ان کو رہا نہ کروا سکا۔
ہمارے نظام انصاف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی اورناانصافی کی یہ چند ایک مثالیں ہیں۔ورنہ اگر مجموعی طورپر پاکستانی معاشرے سے نظامِ انصاف اور محکمہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والےاداروں کے بارے رائے لی جائے تو شاید ہی کوئی شخص ان کی حمایت پر تیار ہو۔یہی وجہ ہے ہمارے ہاں محکمہ پولیس کوعام طور پر تضحیک کا نشانہ بنایاجاتاہے، عدالتوں اور وکلاء سےاعتماد کا رشتہ ٹوٹتاجارہا ہے۔جھوٹے گواہوں کی بہتات، محکمہ پولیس اور وکلاء کی رشوت اور خیانت کے ڈر سے مظلوم لوگ ظلم کے خلاف عدالت جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔جھوٹے گواہ اس قدر عام ہوگئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جھوٹے گواہوں کو خدا کے عذاب سے ڈرناچاہیے،جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے۔ بھلااس طرح کی وعظ و نصیحت سے جھوٹے گواہ باز آسکتے ہیں؟ حیرت اس بات پر ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193 کے مطابق جھوٹی گواہی دینے والے کو سات سال قیدسے لے کر عمر قید تک کی سزادی جاسکتی ہے۔ لیکن 40 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ایک وکیل کا کہنا تھا کہ میں نے 40 سال سے کبھی کسی جھوٹے گواہ کو سزا ہوتی نہیں دیکھی۔ جب انصاف کا یہ حال ہوگا تو ملک میں بدامنی، کرپشن، لوٹ مار ایسے مسائل حل ہوں گے، نہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ایسے واقعات رکیں گے۔ اگر ہم ملک کو واقعی پرامن ملک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سعودی اور امریکی عدالتوں کی طرح اپنی عدالتوں کا آزاد اور مضبوط کرنا ہوگا، جو نہ صرف بغیر کسی دباؤ کے آزاد تحقیقات کرسکیں، بلکہ پولیس، فوج، وزیراعظم اور صدر سمیت کسی بھی شخص کو باآسانی عدالت طلب کرکے ان کے خلاف کیس سن سکیں۔ اس کے ساتھ ہمیں جھوٹے گواہوں کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے عمر قید سزا کو عملی طور پر جاری کرنے کے ساتھ کم ازکم دو دو کروڑ تک مالی سزا بھی دینی ہوگی تب جاکر ہمارا نظام ِانصاف آزاد اور مضبوط ہوگا اور مظلوموں کو انصاف ملنے لگےگا۔

Comments

Click here to post a comment