سوال نمبر 5.
اپنی بڑی بہن کے بارے میں مضمون لکھیں خاص طور پر یہ چیزیں ضرور بتائیں
1. بہن کی عمر کتنی ہے؟ Age
2. جسمانی سائز کیا ہے؟ Physique
3. قد کتنا ہے؟ Height
4. دیکھنے میں کیسی ہے؟ Looks
5. رویہ کیسا ہے؟ Attitude
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے لیے عمر کی کوئی معیاد نہیں. دسویں جماعت کا شاگرد پچاس سال کا بھی ہو سکتا ہے، 25 یا 15 کا بھی. شاید ان کی ذہنی بلوغت کا امتحان مقصود تھا جو ایسا شاندار سوالنامہ ترتیب دیا گیا اور رہنما نکات ہمراہ کیے گئے کہ کوئی معاشرتی حدود و قیود کا مارا مناسب جواب دینا چاہے تو اس کی راہ مسدود کی جا سکے.
بس ایک اہم نکتہ بھول گئے کہ جس کی کوئی بڑی بہن نہیں، کیا وہ اپنی چھوٹی بہن کا سراپا بیان کر دے، اور جس کی کوئی بہن ہی نہیں، وہ کیا کرے؟ لازمی سوال کے جواب میں بھابی، ماں، کزن، محلےدار یا دوست کی بہن کا سراپا بیان کر سکتا ہے؟ اور کیا وہ سوال لکھنے والے پیپر سیٹر کی بہن کو اپنی منہ بولی ”بڑی بہن“ مان کر اس کا سراپا تفصیلا بیان کر سکتا ہے.
ہر سوال کے دو جواب ممکن ہوتے ہیں، درست یا غلط. اسی طرح ہر رویے کے دو رخ ہوتے ہیں، اچھا رخ یا برا رخ. مجھے اپنی ناسمجھی کا اعتراف ہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہ کر سکنے کو اس کی وجہ گردانتی ہوں کہ میں اس سوال نمبر 5 کے اچھے رخ کو سمجھنے سے قاصر ہوں. اس کے صحیح اور غلط ہر دو جواب کو غلط ہی مانتی ہوں.
مسئلہ سوال کی حرمت کا ہے اور میں اس سوال کو اس کے جواب سمیت ”حلال“ نہیں سمجھتی.
ہو سکتا ہے یہ پرچہ بائیولوجی کا ہو جس میں خاتون کے سراپے کا بیان کیا جانا ضروری ہو، یا یہ سوال آرٹس کی ڈرائنگ کلاس کا ہو جس میں مستقبل کے مصور یا مجسمہ ساز کی آبزرویشن اور تخیل کی رسائی کا جائزہ لینا مقصود ہو. ہو سکتا ہے کہ یہ سوال محض اپنے شاگردوں کو ”ضبط اشتعال“ کی تربیت دینے کے لیے لکھا گیا ہو.
اور یہ بھی ممکن ہے کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ممتحن اپنی یونیورسٹی کو روشن خیال ظاہر کرنا چاہتے ہوں. اس پوائنٹ پر میں آپ سے متفق ہوں. آپ نے ”روشن خیالی“ (جسے ہمارے معاشرے میں غیرت کے متضاد کے لیے مستعمل دو لفظی ترکیب سے یاد کیا جاتا ہے) کی دوڑ میں اہل مغرب کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا. ایسا سوال تو گوری اقوام بھی اپنے پرچوں میں شامل نہیں کر سکتیں.
اگر یہ کوئی نجی سروے ہوتا تو ہم اس متعلقہ ادارے کو مسلم معاشرے کی بنیاد کے خلاف کام کرنے والی استعماری قوتوں کا نمائندہ مانتے، لیکن ہماری قومی یونیورسٹی کے سرکاری طور پر منظور شدہ پرچے میں ایسے سوال کا پوچھے جانے اور اس پر ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا اس سوال کو عام روٹین کی بات قرار دینے کی کوشش کرنے کو کس خانے میں فٹ کیا جائے؟
سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ کسی کو استاد کی سیٹ دینے سے پہلے اس کا نفسیاتی معائنہ ضرور کیا جائے کہ یہ استاد شاگردوں کو ”کیا“ پڑھانے کے لیے ادارے میں آیا ہے.
.. nip the evil in the bud. ..
حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC اس معاملے کا نوٹس لے اور تمام تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تعلیمی یا تخریبی مواد کا ازسرِنو جائزہ لے.
ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا اعتراف
https://youtu.be/QxYFbeTxqZs
تبصرہ لکھیے