ہوم << ہمارے معزز جج صاحبان اور حبِ جاہ کا فتنہ - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ہمارے معزز جج صاحبان اور حبِ جاہ کا فتنہ - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

محمد مشتاق ہمارے جج صاحبان بالعموم الگ تھلگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ ان کے عہدے کا بھی تقاضا ہے کہ ان کا لوگوں میں زیادہ گھل مل جانا مناسب نہیں ہوتا۔ کچھ ان کی ٹریننگ اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک عام سول جج بھی چند مہینے اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد خود کو بڑی توپ شے سمجھنے لگتا ہے۔ پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان تو بہت ہی اعلی مقام کے حامل ہوتے ہیں۔ ساری حکومتی مشینری ان کے سامنے جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر کوئی ”مائی لارڈ“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ عدالت میں، اور عدالت کے باہر بھی، ایک خاص قسم کی پروقار خاموشی ان کی زندگی کی خصوصیت بن جاتی ہے۔
پھر اچانک وہ ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ اچانک؟ حالانکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کس عمر میں ریٹائر ہونا ہے۔ ہاں! اچانک، کیوں کہ انھیں ریٹائرمنٹ کے دن تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ریٹائرمنٹ کہتے کسے ہیں؟ اور اگر انھیں واقعی اچانک ہی ریٹائر ہونا پڑے، جیسا کہ بعض اصول پرست جج صاحبان کسی آمر کی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرکے واقعی اچانک ہی ریٹائر ہوجاتے ہیں، تو زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوجاتا ہے۔
فوجی آمروں اور سیاسی بادشاہوں سے ہمارے جج صاحبان عموماً مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مسئلہ ”پیسہ“ نہیں ہوتا۔ انھیں سوئس اکاؤنٹس، یا لندن فلیٹس، میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ انھیں بس یہ درکار ہوتا ہے کہ جیسے کل انھیں مائی لارڈ کہا جاتا تھا، اب بھی انھیں مائی لارڈ نہ سہی تو کم از کم ”مائی باپ“ کہہ کر ہی پکارا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں کوئی بڑا عہدہ ملے، کوئی ایسا عہدہ سے جو بے شک ”فیصلے“ کا اختیار نہ رکھتا ہو لیکن کم از کم اس کا ایک دبدبہ ہو، ایک نام ہو۔
آسان الفاظ میں، ہمارے جج صاحبان بالعموم حبِ مال کے فتنے میں نہیں بلکہ حبِ جاہ کے فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ ساغر و مینا کا شوق بے شک نہ رکھتے ہوں، بلکہ یہ شوق ”افورڈ“ نہ کرسکتے ہوں ، لیکن چاہتے یہی ہیں کہ ساغر و مینا ان کی آنکھوں کے سامنے رہیں، خواہ ان کے ہاتھوں میں جنبش کی سکت بھی باقی نہ ہو۔
ہمارے شریفوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ جج صاحبان کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے انھوں نے بالعموم حب جاہ کے شکنجے میں گرفتار اور پارسائی کے زعم میں مبتلا جج صاحبان کو اسی طرح استعمال کیا ہے۔
ہاں! چند ایک جج صاحبان کے اندر کا ”عام آدمی“ جج بن جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ تو ان کے لیے ہمارے شریفوں کے بریف کیس حاضر رہتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment