ہوم << نوٹوں سے ایک مکالمہ - محمد انس فلاحی سنبھلی

نوٹوں سے ایک مکالمہ - محمد انس فلاحی سنبھلی

معلوم نہیں، انہیں میرا پتا کس نے دیا، وہ میرے گھر چلے آئے، اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگے. مجھے لگا کہ کوئی سخت پریشانی میں ہے، اس لیے سارے کام چھوڑ کر دروازے کی طرف لپکا.
دروازہ کھولا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دو مرجھائے ہوئے چہرے میرے منتظر ہیں. بغیر کسی توقف کے میں نے انہیں اندر چلنے کے لیے کہا. اندر آتے ہی دونوں صوفے پر چڑھ بیٹھے، مانو میلوں پیدل چل کر آئے ہوں.
چائے ناشتے سے فراغت کے بعد میں نے ان سے آنے کا سبب اور مکمل تعارف جاننے کی خواہش ظاہر کی.
ان کے نام سن کر میں حیران رہ گیا، بڑے کا نام ہزار ے اور چھوٹے کا نام پانچسواں تھا. جائے پیدائش ریزو بنک اور عارضی پتہ عوامی تجوریاں بتایا. مختصر تعارف کے بعد میں نے آنے کا سبب بیان کرنے کے لیے کہا.
میرا یہ کہنا تھا کہ وہ زار و قطار رونے لگے. بڑا بھائی ہزارے مسلسل روئے ہی چلا جا رہا تھا. میں نے تسلّی دینے کی ناکام کوشش کی. جبکہ چھوٹا اب رو دھو کے فارغ ہوچکا تھا. مجھے یہ بعد میں معلوم ہوا کہ چھوٹا اتنی جلدی چپ کیسے ہوا؟ میں سمجھا شاید وہ تحمل مزاج ہے یا کوئی اور ہی مسئلہ ہے!
اس لیے میں نے اس سے ہی کہا کہ بھائی! کچھ تو بولیے، آخر مسئلہ کیا ہے اور یہ آپ کے بڑے بھائی ہزارے اتنا رو کیوں رہے ہیں؟
چھوٹا بیان کرنے لگا:
”فراز بھائی! دراصل حکومت نے ہمیں ڈی ویلیو قرار دے دیا ہے. ہمیں عوام کی، ساہوکار کی اور بنیوں کی تجویورں سے بے دخل کرنے کا اعلان کردیا ہے.“
میرے کان کے پردے سے جیسے ہی یہ الفاظ ٹکرائے، میں بے ساختہ چیخ اٹھا، اور گھبراہٹ میں ایک ہی سانس میں کئی ایک سوال کر ڈالے.
یہ اعلان کب اور کیسے ہوا؟ اور تم کب تک یہاں رہوگے؟
بڑے بھائی ہزارے نے اپنے رونے کا کوٹا پورا کر لیا تھا.
اس لیے اس دفعہ وہ بولا، اور پھر بولتا ہی چلا گیا، اس کی آواز اور لہجہ میرے اوپر گراں گزرا. اس پر میں نے اسے ٹوکنا مناسب سمجھا.
میرا ٹوکنا تھا کہ وہ پھر رونے لگا اور روتے ہوئے کہنے لگا:
’’قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم‘‘
بھائی فراز! آپ کو پتا ہے، اس وقت ہماری کیا کیفیت ہے؟ اور آپ ہو کہ ہمیں ٹوک رہے ہو اور روک رہے ہو؟
میں نے کہا کہ میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں تھا.
اصل بات یہ ہے کہ گھر میں اور بھی لوگ ہیں، ایسے اچھا نہیں لگتا.
دیکھو بھائی فراز! ابھی جو ہماری کیفیت اور حالت ہے، کچھ دنوں میں تمھاری بھی یہی ہونے والی ہے.
میں نے کہا، بھائی ہزارے! بد دعا تو نہ دیں.
خیر اس نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ منگل کے روز ہی مودی جی نے ہماری ملکیت اور حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، اور 30 دسمبر ڈیڈ لائن مقرر کی ہے.
اور کیا کہا ہے حکومت نے آپ کے بارے میں؟
چھوٹے نے بولنے کی کوشش کی تو ہزارے نے اسے کہنی مار کر چپ رہنے کو کہا.
ہزارے نے پھر بولنا شروع کیا.
میری جگہ اب دو ہزارے کو مشینوں کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے، وہی اب میری جگہ لے گا.
اور اس چھوٹے’’پانچسواں‘‘ کا دوسرا جڑواں بھائی بنایا گیا ہے. اس لیے یہ بہت زیادہ غمگین بھی نہیں ہے. تمہیں بھی اس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوگیا ہوگا.
میں نے کہا اچھا یہ بتائیں کہ آپ کی نسل کے اربوں لوگ انیل امبانی کے یہاں رہتے تھے، ان کا کیا بنا؟
بھائی! انہیں تو پہلے ہی نکال دیا تھا. اب ان کی جگہ جیو کی سِم کے ذریعے نمبر ایک والے لائےجائیں گے.
میں نے اس بات پر زوردار قہقہ لگایا. میرا قہقہ لگانا ہزارے کو برا لگا.
اس نے فوراً ہی مجھ پر سوال داغ دیا، تم ہنسے کیوں؟
میں نے کہا: بھائی ہزارے! ہنسی مجھے تمھاری نمبر ایک والی بات پر آگئی تھی کہ کیا وہ نمبر دو کے تھے.
ہزارے نے کہا: اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے، یہ حقیقت ہے.
ہزارے سے میں نے ایک سوال اور کرنا چاہا کہ بھائی یہ بتائیں کہ اب آپ کی تدفین کب اور کہاں ہوگی؟
میرا یہ سوال کرنا ہی تھا کہ ہزارے نے پھر رونا شروع کر دیا. ذرا سنبھلا تو پھر بولنا شروع ہوگیا.
بھائی فراز! کیا بتائیں ابھی تو مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہماری درگت بنتی رہے گی. کبھی جھولوں میں تو کبھی جیبوں اور کبھی اٹیچیوں میں لے لے کر لوگ بنکوں میں گھومتے پھریں گے.
بنک والے بھی ہمیں گن گن نیم مردہ تو کرکے ہی چھوڑیں گے!
اچھا! بھائی ہزارے آپ کی تدفین کا کچھ بندوبست کیا گیا ہے.
ہاں! ابھی تک تو یہی کہہ رہے ہیں کہ بنک میں دفن کریں گے.
بھائی فراز! میرا تو یہ سوچ سوچ کر دل بیٹھ جاتا ہے کہ اگر لوگوں نے مجھے وہاں وقت پر نہ پہنچایا اور رونے دھونے میں لگے رہے تو بعد میں خود بھی روئیں گے. اور ہمارا جو حال ہوگا، وہ تو تم نے فیس بک پر دیکھ ہی لیا ہوگا.
گفتگو لمبی ہو چکی تھی، ہزارے بھی بول بول کر تھک چکا تھا، اس کا چھوٹا بھائی پانچسواں بھی بوریت محسوس کررہا تھا. اور مجھے بھی اپنے ادھورے کاموں کی فکر ستائے جا رہی تھی. ہزارے نے رخصت چاہی تو میں انہیں دروازے تک چھوڑنے گیا. چلتے چلتے ہزارے کی زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.
’’قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم‘‘