ہوم << یوم اقبال اور علامہ اقبال کا معتوب ملا - محمد فیصل شہزاد

یوم اقبال اور علامہ اقبال کا معتوب ملا - محمد فیصل شہزاد

1992ء کا سال تھا، میں نویں کا طالب علم تھا… جب ایک دن ہمارے محلے دار ایک انکل جو گورنمنٹ اسکول میں اردو کے ٹیچر تھے، کی ایک مولوی صاحب سے کچھ تکرار ہو گئی... ٹیچر انکل کافی جلالی سے تھے جبکہ مولوی صاحب بچوں کو پڑھانے محلے میں آتے تھے اور حسب روایت کافی مسکین اور سادے سے تھے، (یہ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ علم کے شائق اور بڑے باذوق انسان تھے) بہرحال اور تو مجھے زیادہ کچھ یاد نہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ ٹیچر انکل نے اس چند منٹ کی تکرار میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کے دو اشعار اپنے منہ سے نکالے اور دھڑا دھڑ مولوی صاحب کے منہ پر کھینچ مارے، گویا دو طمانچے تھے جو رسید کر دیے!
یہ اشعار ہماری اردو کی کتاب میں بھی تھے، اس لیے مجھے یاد تھے۔ میں جو بچوں کے سے تجسس اور دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، ان اشعار کو مولوی صاحب پر چسپاں دیکھ کر حیران رہ گیا... مولوی صاحب کے علاوہ سب حاضرین نستعلیق لہجے میں اشعار سن کر مرعوب سے ہو گئے تھے…
”اچھا ... تو اس طرح کے ہوتے ہیں وہ بے عمل ملا…“
چپکے سے کسی نے سرگوشی کی اور ذہن میں اپنے اردو ٹیچر زاہد سر کی اس شعر کی تشریح گھومنے لگی، جو وہ بڑے انوکھے انداز میں فرمایا کرتے تھے۔
یہ تو ابتدا بلوغ کا زمانہ تھا... اس کے بعد جیسےجیسے کچھ مطالعے کا شوق پیدا ہوا، دماغ کی گرہیں کھلنی شروع ہوئی۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ اور مرزا غالب کی شاعری کو تو نصاب کی وجہ سے بھی پڑھا اور شوق سے پڑھا... علامہ محترم کی شاعری میں روایتی ملا یا صوفی کا ذکر آتا تو عموماً طنزیہ اسلوب میں ہی ہوتا... پھر اس کے بعد اگلے مصرعے میں وہ اپنے ہیرو یعنی مرد مجاہد کا شاندارانداز میں ذکر فرماتے، یوں جیت ہمیشہ مرد میدان کی ہوتی اور چاروں شانے چت بے چارے روایتی ملا صاحب ہوتے!
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملاّ کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
٭
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
٭
آہ اِس راز سےواقف ہے نہ ملاّ نہ فقیہ
وحدت افکار کی ب ے وحدت کردار ہے خام
٭
میں بھی ان اشعار اور ان سے زیادہ ان کی ”جذبات انگیز تشریح“ کے زیر اثر ہمیشہ مسجد، مکتب کے ملا کا موازنہ صحرا میں اذان دیتے مرد مجاہد سے کرتا رہا، مگر آہستہ آہستہ میرے خیالات کی رو بدلنے لگی... مجھے لگنے لگا کہ اس مسکین ملا پر اتنا عتاب اس پر ظلم ہے... مسجد، مکتب میں دین کی خدمت کرنے والا ملا ہو یا مرد حریت، ان میں مغائرت نہیں بلکہ دراصل دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں... یہ تو ملا کی دانائی ہے کہ جب جس وقت جس چیز کی ضرورت سمجھی، کسی کے برا بھلا سمجھنے یا کہنے کی پروا کیے بغیر اس کام میں جت گیا...
اس نے جہاں ایک طرف ننھے بچوں کو قاعدہ پڑھایا وہاں شیخ الحدیث بن کر حدیث کے طلبا تک پوری دیانت داری سے حدیث بھی پہنچائی... ایک طرف کلام اللہ شریف پر زندگیاں کھپا دیں، تو دوسری طرف اسلام پر عقلی اور منطقی حملے روکنے کے لیے علم الکلام کو کمال تک پہنچا دیا... ایک طرف دعوت و تبلیغ کے لیے اپنا تن من دھن دوسروں پر صلے کی پروا کیے بغیر وار دیے اور لاکھوں کروڑوں غیر مسلموں کو مسلمان بنایا تو دوسری طرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے میدان میں اتر کر تلوار کے جوہر بھی دکھائے... غرض مسلم معاشرے کی ہر دینی ضرورت پوری کرنے کے لیے رجال کار پیدا کیے... اخلاص کی انتہا دیکھیے کہ کسی خاص میدان میں ساری زندگی محنت کرتے کرتے جب اپنی مومنانہ فراست سے یہ سمجھا کہ اب اس میدان میں نہیں بلکہ فلاں میدان میں جدوجہد منشائے قدرت ہے تو کسی کی پروا کیے بغیر فوراً محنت کا میدان بدل لیا... ایک حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی مثال لے لیجیے... تحریک ریشمی رومال کی بظاہر ناکامی اور مالٹا میں قیدو بند کے دوران آپ نے جب محسوس کر لیا کہ اب محنت کا میدان تبدیل کرنے کا وقت ہے تو کسی کی ملامت کی پروا کیے بغیر فورا پرامن جدوجہد کا راستہ اپنا لیا۔
بہرحال اس میں کیا شک ہے کہ حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ کی باکمال شاعری واقعی انسان پر سحرطاری کر دیتی ہے... یقیناً آپ شاعری اور فلسفے کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے... ایک عہد ساز شاعر جن کے دل میں امت مسلمہ کا درد موجزن تھا اور ان کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں تھا... مگریہ بات اپنی جگہ ہے کہ علامہ اقبال کے معتوب ملا کے ساتھ بہرحال ظلم ہوا ہے!
میں یہ بات کبھی بھی کہہ نہیں پاتا... مگر دو تین سال پہلے ماضی قریب کے ایک اور بڑے مفکر اور عالم محترم جناب ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمہ اللہ کے حوالے سے بالکل یہی بات پڑھی تو حیران رہ گیا... کیوں کہ میرے لیے یہ بات باعث مسرت بھی تھی اور تعجب انگیز بھی کہ یہ بات کہنے والے کوئی روایتی ملا نہ تھے بلکہ یہ پہلو اس داعی اسلام اور مفکر اسلام ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے اجاگر کیا، جو مغرب میں رہائش پذیر تھے اور مغربی لباس میں ملبوس مگر وہاں اسلام کی شمع روشن کرنے والے ایک روشن چراغ تھے جن کی شاندار خدمات کا اعتراف جدیدیت پسندبھی کرتے ہیں…
ڈاکٹر مرحوم نے محترم علامہ اقبال کے ”معتوب ملا“ کی بابت کیا خوب کہا کہ:
”فرنگیوں کو اگر اقبال سے دلچسپی ہے تو وہ میری دانست میں اس بنا پر ہے کہ اقبال کے ”ملا اور زاہد ریا کار“ کے پردے میں فرنگیوں کو مسلمانوں کے فقہاء اور صوفیوں کا مضحکہ کرنے کا ایسا موقع ملتا ہے کہ کسی مسلمان کو گرفت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیا اقبال مرحوم نماز، روزے کی پابندی اور منہیات سے اجتناب میں ملاؤں اور زاہدوں کے مقابل بہتر نمونہ پیش کرتے رہے ہیں؟ اچھا ہوتا کہ وہ صرف مادیت اور مغربیت پر طنز پر اکتفا کرتے۔ میرے مشاہدے میں تو سارے ”اقبال پرست“ عام طور پر دین دار لوگوں کا مضحکہ اڑاتے رہتے ہیں!“ (حوالہ: ماہر القادری (ایڈیٹر فاران) کے نام ایک خط بحوالہ نگارشات جلد دوم پبلشر بیکن بکس لاہور)
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وقت کے بڑے علمائے کرام کی صحبت اور اپنے عشق رسول ﷺ کی برکت سے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اپنے بہت سارے فلسفیانہ نظریات پر نظرثانی بھی فرمائی اور رجوع بھی کیا۔ جیسا کہ حضرت مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ ہوئے قضیے سے واضح ہے مگر یہ اعترافات اور رجوع دبا دیے گئے اور یار لوگوں نے صرف ان چیزوں کو ایکسپوز کیا جنہیں وہ اپنے ہدفی مقاصد میں استعمال کر سکتے تھے ورنہ وہی اقبال آخر وقت روایتی ملا کے اعتراف میں یہ بھی تو کہہ گئے ہیں:
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو اس کےکوہ و دمن سےنکال دو

Comments

Click here to post a comment