ہوم << جنت کا ویزہ - بشارت حمید

جنت کا ویزہ - بشارت حمید

بشارت حمید زندگی کے تیزی سےگزرتے شب و روز میں کسی رات سونے کے لیے نرم و ملائم بستر پر لیٹ کر کبھی ہمیں یہ غور کرنے کا وقت ملا کہ میرا اس دنیا میں آنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا میں اپنی مرضی سے یہاں تک پہنچا ہوں اور کیا اپنی مرضی سے یہ دنیا چھوڑ کر جاؤں گا؟
کبھی وہ وقت تھا جب میں ایک چھوٹا بچہ تھا میری ہر ادا پر میرے والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ گزرنے والے ایک ایک لمحے اور آنے والی ایک ایک سانس نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کیا میں ہمیشہ یہیں رہوں گا؟ ہرگز نہیں۔ مجھے ایک مقررہ وقت پر اپنے رب کے حضور پیش ہونا پڑے گا اور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی۔
بحیثیت مسلمان ہم موت کے بعد اخروی زندگی اور اللہ کے حضور پیش ہونے کو مانتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس زندگی میں جو کچھ اچھا یا برا کر رہے ہیں اسکا جواب اس علیم و خبیر ہستی کے سامنے پیش ہو کر دینا پڑے گا جو ہر شے کو جاننے والی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ تو غلط نہیں ہوگا کہ ہم زبان سے تو مانتے ہیں مگر قلبی یقین ہمیں حاصل نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم چونکہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے اور والدین سے اسلام کے بارے سنا انکو نماز پڑھتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا تو کسی حد تک دین کی بنیادی معلومات حاصل ہو گئیں لیکن جب شعور کی عمر تک پہنچے تو سب کچھ فراموش کر دیا اور دنیاوی زندگی میں مست ہو کر شب و روز گزارنے لگے۔ دین کا علم حاصل کرنے کی نہ ضرورت محسوس کی اور نہ ہی اس کی طرف توجہ کی۔
برا مت منائیے گا اس بات کا کہ ہمارا ایمان اور یقین صرف کھوکھلے دعوے کی حد تک ہے ہمارے اندر وہ ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں جو ایمان سے خالی ہیں۔ ہم نے زبان سے کلمہ تو پڑھ لیا اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہو گئے دنیا میں مسلمان کے حقوق کے دعویدار تو بن گئے لیکن قلبی ایمان کی کیفیت نہ حاصل کر سکے۔
دنیا کے معاملات میں زبان سے کلمہ طیبہ ادا کرنے والا مسلمان مانا جائے گا اور اسے تمام وہ حقوق حاصل ہوں گے جو باقی مسلمانوں کے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔! قیامت کے دن کامیابی اسلام کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان قلبی کی وجہ سے ملے گی۔ اس لئے کہ آخرت میں کامیابی کے لئے ایمان شرط ہے۔
اگر ہم یورپ کے کسی ملک کا ویزہ حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لیے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں۔ کہیں انگلش سیکھ رہے ہوتے ہیں تو کہیں بنک سٹیٹمنٹ بنوانے میں لگے ہوتے ہیں۔ دعائیں بھی بہت کرتے ہیں اور ویزہ انٹرویو کی تیاری بھی بہت اچھی طرح کرتے ہیں کہ کہیں کسی بھی وجہ سے ویزہ مسترد نہ ہو جائے۔ پھر ایمبیسی جا کر علی الصبح لمبی لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر ہم غور کریں کہ جس کو ویزہ مل جاتا ہے اس کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا ہوتا۔ وہ ہر جاننے والے کو بھی اور انجان کو بھی دکھاتا پھرتا ہے کہ دیکھو یہ مجھے ویزہ مل گیا سب رشتے داروں اور دوست احباب کو فون کرکے بتاتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا۔ سب اسے کامیابی کی مبارکباد دیتے ہیں۔
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں یوم الحساب کا کچھ ایسا ہی نقشہ کھینچا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اسکے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ خوشی خوشی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے گا اور کہے گا کہ یہ دیکھو میرا رزلٹ۔ میں کامیاب ہو گیا اور مجھے اسی کامیابی کی امید تھی۔
اب آئیں دوسری طرف۔ جس کا ویزہ مسترد ہو جاتا ہے وہ کسی سے نظریں بھی نہیں ملاتا اور نہ ہی کسی کو بتانا پسند کرتا ہے بعینہ ایسا ہی کچھ منظر اس روز ہو گا کہ جس کا رزلٹ کارڈ اسکے بائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا تو وہ پچھتائے گا کہ اے کاش میں نے اس زندگی کے لئے بھی کچھ تیاری کی ہوتی۔ اے کاش میری موت میرا قصہ ہی تمام کر دیتی اور آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مگر اس روز اس کا یہ پچھتاوا کسی کام نہیں آئے گا۔
آئیے ہم اپنا اپنا محاسبہ کریں اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت فضول سرگرمیوں میں ضائع کرنے کی بجائے اس وقت کو دین کا علم سیکھنے میں صرف کریں اور اپنی ذات کی اصلاح کریں اس یقین کے ساتھ کہ ہم جنت کا ویزہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اللہ تعالٰی ہمیں کامیابی عطا فرمائے اور قیامت کی رسوائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment