ہوم << ترکی بغاوت، ایک اور پہلو - ہمایوں مجاہد تارڑ

ترکی بغاوت، ایک اور پہلو - ہمایوں مجاہد تارڑ

اطلاعات کے مطابق یہ مختصر سی فوجی بغاوت ناکام ہو گئی ہے۔ تاہم، راقم الحروف کو اس بات سے اتفاق نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی عوامی اور جمہوری طاقت کھڑی ہے، بغاوت کی ناکامی کو جس کی فتح قرار دیا جائے جیسا کہ پرویز رشید صاحب جیو چینل پر چہک رہے تھے۔ ناچیز کی رائے میں آرمی چیف سمیت ہائی کمان کی مکمّل سپورٹ کیساتھ بغاوت ہوتی تو دیکھتے یہ کیسے ناکام ہوتی۔ ایک سنگل بلٹ تک چلنے کی نوبت نہ آتی اور سارا اقتدارخاموشی سےمنتقل ہو جاتا۔ آج اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائنز کچھ اور ہی بھاشن اگل رہی ہوتیں۔طیب اور ان کے ساتھی اِس سمے اپنی خواب گاہوں کی بجائےکسی عقوبت خانے میں پڑے دوپہر کا کھانا ملنے کا انتظار کررہے ہوتے۔ چند سو فوجیوں کی طرف سے ناقص منصوبہ بندی اور تھوڑے بہت ”سازوسامان“ کے ہمراہ اس طرز کے venture کا ناکام ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔اسے آپ طیب اوردگان پارٹی کی خوش قسمتی کہیے کہ مالک ِ حیات نے – جو قہّار اور جبّار بھی ہے، – ان کی گردنوں پر ہاتھ رکھ، وارننگ دیتے ہوئے فی الوقت چھوڑ دیا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ”جاؤ، ایک چانس دیتا ہوں۔ سنبھل جاؤ، ہوش میں آجاؤ۔ وگرنہ تم کیا چیز ہو، تمہاری اوقات کیا ہے۔تم سے کئی گنا طاقتور لوگوں کو ہم پلوں میں خاک چٹوایا کرتے ہیں۔“
چند ہزار لوگوں کی یہ ”عوامی قوّت“ بھی کبھی سامنے نہ آتی اگر طیّب اردگان کو سکائپ پر عوام سے رابطہ کرنے کا موقع نہ ملتا جس کے ذریعے انہیں اصل صورتحال سے آگاہی نصیب ہوئی۔ نیز نجی چینلز کو بھی کنٹرول میں نہ لیا جاسکا جو مسلسل اپ ڈیٹس دیتے رہے۔
اگرچہ اس میں کلام نہیں کہ طیّب اردگان ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ترکی کو موجودہ ترقی یافتہ ترکی بنایا، اسے سر سے پاؤں تک بدل کے رکھ دیا لیکن جیسا کہ بلال الرشید نے بھی اپنے فیس بک سٹیٹس میں لکھا کہ یہی صاحب ”گذشتہ کچھ برسوں سے ایسے بدلے کہ جناب نے 61 ارب لاگت سے ایک ہزار کمروں پر مشتمل اپنا محل تعمیر کیا۔ اپنے ان صاحبزدگان کی سرپرستی کی جنہوں نے لاکھوں ڈالرز کی کرپشن کی۔ حکومت کے ناقدین اور اپنے سیاسی مخالفین پر اردگان کاانتقامی جاہ وجلال کچھ ایسا برسا کہ انہیں ملک سےفرار ہونے میں ہی عافیت نظر آئی۔ڈاکٹر شعیب سڈل نے، جنہوں نے ترک پولیس کی تربیت کی، تصدیق کی ہے کہ کرپشن کی تحقیقات کرنیوالے افسروں کو معطّل یا برطرف کردیا گیا۔“
بی بی سی انگلش ویب سائٹ پر آج صبح ابھرنے والی شہ سرخی نے طیب اوردگان کو سنگدل/بے رحم حکمران قرار دیا ہے۔ اس خبر میں نیچے دی گئی تفصیل میں بی بی سی نے حکمراں پارٹی کے صحافتی طبقے پرروا تاریخی ظلم کی دہائی دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ سے ترکی کا صحافتی طبقہ ہو یا بیرون ممالک سے آئے میڈیا کے لوگ، دونوں کو برابر ہراساں کیا جارہا ہے۔ ترکی کے سب سے بڑے میڈیا گروپ یعنی زمان گروپ پر تو ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیئے گئے۔ اس گروپ کی گذشتہ آزادانہ طور پر جاری کردہ پریس میں کہا گیا تھا کہ:
”ترکی صحافت نے اپنے کیریئر کے سیاہ ترین دن دیکھے ہیں۔“
اب اِس زمان گروپ کے اخبارات اور ویب سائٹس کو مکمل حکومتی کنٹرول میں رکھا جا رہا اور اس کے صفحات پر حکومت کو بھرپور طور پر سپورٹ کرنے والے، جانبدارانہ آرٹیکلز نمودار ہورہے ہیں۔ یہ انتہا ہے خود پسندی پر مبنی جابرانہ رویے اور طرز عمل کی۔زمان گروپ آف نیوز پیپرز کا، جو پوری طرح زیر عتاب ہے، قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے طیب اوردگان اور اس کے بیٹوں کی مالی بدعنوانی کو نہ صرف طشت از بام کیا، بلکہ جب حکومت کی طرف سے دیئے لالچ اوربعد ازاں ہراساں کرنے کو دھمکی آمیز پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا کہ یہ سارا مواد اپنی ویب سائٹوں اور اخبارات سے ہٹا دو تو اس گروپ نے بِکنے اور دبنے سے صاف انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ:
“This is not your money!”
بی بی سی نے اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ طیب کا یہ جابرانہ طرزِ عمل یہیں ترکی کی سرحدوں تک محدود نہیں۔ اس کے باڈی گارڈز نے امریکہ جیسے ملک میں بھی رپورٹرز کو دھمکایا۔ جرمنی کا ایک طنز نگار صحافی اپنے گھر میں زیرِ تفتیش ہے۔
اکسٹھ سالہ طیب اوردگان اپنی انصاف پارٹی کے قیام کے صرف ایک سال بعدسنہ 2002 میں اقتدار میں آئے تھے۔آپ نے گیارہ برس بطور وزیرِ اعظم کام کیا جس میں ترکی کی شکل صورت بدل کر رکھ دی۔تب آپ وہ پہلے شخص ہیں جو سنہ 2014 میں براہ راست ترکی کے صدر منتخب کر لیے گئے۔
پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے! خود کو ناگزیر سمجھ لینے، ناقابلِ مواخذہ خیال کرلینے والا خنّاس تن بدن میں سرایت کر گیا، جو اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو برداشت نہیں کرتا اور محاسبہ کرتی ہر آواز کو دبا دینا، اور آواز نکالنے والوں کو یا تو خرید لینا یا منظر سے ہٹا دینا مانگتا ہے۔ لیکن حضرت یہ مت بھولیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ آج کی اس جزوی بغاوت کو اپنے لیے وارننگ سمجھیں اور 'آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں' کے مصداق اپنے رویوں کی اصلاح کر لیں۔
ترکوں کا عروج، پیغمبرؐ کی پیشگوئی کے مطابق، آپ کی ذات اقدس کا محتاج نہیں۔ اللہ کی لافانی طاقتیں پلوں میں کسی دوسرے شخص ، کسی دوسری قوّت کو یہ اختیار منتقل کرسکنے پر قادر ہیں۔آپ سے گذارش ہے کہ اپنے پرانے کردار پر واپس آجائیں۔ یہاں کسی کو دوام نہیں۔ اگر ہے تو بس ایک اجلے کردار کی۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کےآنسو پوچھنے، فلسطینی کاز کی حمایت کرنے، مسلم اُمہ کو درپیش ہر ایشو پر سچی بات کا برملا اظہار کرنے والے، ترکی کو اسلامی دنیا میں ترقی اور مضبوطی کا استعارہ بنا دینے والے طیب اردگان کے دامن پر کچھ ایسے چھینٹے لگ چکے ہیں جو اس کی درخشاں شخصیت کے حسن کو گہنائے دیتے ہیں۔ ہم سب آپ کو ویسا ہی ذی وقار دیکھنا چاہتے ہیں جیسا امیج آپ نے اس سے پیشتر دنیا کے دلوں اور دماغوں راسخ کیا تھا۔ یاد رکھیں، اس نوع کی کمزوریوں کو بہانہ بناکر طاق میں لگا دشمن کسی بھی وقت وار کر سکتا اور اس ہنستے بستے ترکی کو عراق میں بدل سکتا ہے۔آپ عالم ِ اسلام کی امّید ہو۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں!
ہارون الرشید صاحب کے ایک پرانے کالم کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے ایک حدیثِ رسولؐ تقل کی تھی کہ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا:
”دمشق میں یہودیوں کیساتھ آخری معرکہ برپا کرنے کے لیے ترک اتریں گے اور ہند کے مسلمان۔“
پیغمبرؐ نے یہ بات تب کہی جب ایک بھی ترک مسلمان نہ تھا، نہ ہند میں ہی اسلام نام کی کوئی شے متعارف ہوئی تھی۔
پچھلے دنوں نے پی ٹی وی پر اسرار احمد کسانہ کو انٹرویو دیتے ہوئے پروفیسر احمد رفیق صاحب نے بھی اس امر کا پُر جوش لب و لہجے میں اظہار کیا ۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ پاکستان اور اسلامی دنیا کے حالات کو کیسا دیکھتے ہیں تو آپ کا کہنا تھا کہ "میں پاکستانی اور ترک قوم کو مستقبل قریب میں ابھرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔"
تو گویا ترکوں کا عروج مقسوم ہے، مقدر ہے۔ لیکن یہ عروج کسی کا محتاج نہیں۔ اللہ کی لافانی طاقتیں پلوں میں کسی دوسرے شخص ، کسی دوسری قوّت کو یہ اختیار منتقل کر سکنے پر قادر ہیں۔
آخر میں ایک مرتبہ پھر بلال الرشید کے فیس بک سٹیٹس کا حوالہ دوں گا:
” قدرت کی طرف سے طیب اردگان کو ایک بڑا شاک لگا ہے۔حالات بہت خراب ہیں۔ترکی نے چند ماہ قبل روسی طیارہ مار گرایا تھا۔ ایک طرف داعش ہے، تو دوسری طرف امریکہ، روس اور اسرائیل سمیت وہ ممالک جو مشرق وسطٰی میں آخری طاققتور مسلمان حکمران کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے میں طیب اردگان کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ دولت اوردائمی عزت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ان کے پاس مہلت موجود ہے، لیکن یہ مہلت لا محدود نہیں۔“
اب آتے ہیں اس پہلو کی طرف کہ ہمیں اس سے کیا سبق سیکھنا چاہیے۔ چونکہ ترکی کے علاوہ پاکستان ہے جو اس وقت عالمِ اسلام کے لیے امّیدکا استعارہ ہے۔ اس ضمن میں آپ سے دو عدد بڑے دلچسپ اور حکیمانہ قسم کے کومنٹس شیئر کرنا چاہوں گا۔
ایک صحافی دوست مجاہد حسین کا کومنٹ یوں ہے، جس میں پاکستان میں حکمراں پارٹی کے لیے کچھ پیامِ عقل و شعور ہے:
”ترکی میں جس طرح عوام نے ٹینکوں کے سامنے مزاحمت کی ہے، اس پر ان کی جس قدر تحسین کی جائے کم ہے ۔ تاہم،مجھے خدشہ ہے کہ ہمارے حکمران اس واقعے سے حوصلہ پاکر فوج کے ساتھ کوئی پنگا نہ لے بیٹھیں۔ نواز شریف اینڈ کو کے لیے میرا مفت مشورہ ہے کہ ایسا سوچنا بھی نہیں۔ پہلے ترکی کے حکمرانوں کی طرز پر کارکردگی کے ذریعے اپنی جگہ بنالو، پھرعوام سے اس طرح کے ردعمل کی امید کرنا۔ اگر خدا نخواستہ، ایک بار پھر خدانخواستہ، یہاں فوج آئی تو لوگ ٹینکوں کے آگے ہار اور مٹھائی لیے کھڑے ہوں گے۔ لوگ جمہوریت سے نہیں اچھے حکمرانوں سے محبت کرتے ہیں اور آپ کا اس فہرست میں آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔“
اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی تفہیم، ہمارے اپنے حکمراںطبقے کے لیے پیغام یوں ہے:
”آج ہی پاکستان کی سول ملٹری قیادت کو فوراً ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر چند فیصلے کرنا ہوں گے. اس وقت عالمی سطح پر غیر معمولی تیزی سے صورت حال بدل رہی ہے. اس کا ادراک کرنا ہو گا. یہ وقت سیاست نہیں تدبر کا ہے . پاکستان نہ مارشل لاء کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی تساہل پسند گورننس کا۔یہ وقت پاکستان کو مسلم دنیا کی سب سے بالغ نظر، مستحکم اور مدبر ریاست کے طور پر سامنے لا سکتا ہے، اور غلط فیصلے ہمیں بھی مصر اور ترکی کی راہ پر لے جائیں گے. یہ پاکستان کے لیے موقع بھی ہو سکتا ہے اور آزمائش بھی. ہمیں خود کو اسے موقع میں ڈھالنے کے قابل ثابت کرنا ہے۔“
وما علینا الا لبلاغ۔

Comments

Click here to post a comment