ہوم << رشتوں کا کینوس - زینی سحر

رشتوں کا کینوس - زینی سحر

قران پاک میں سورت النسا کی پہلی ایات میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے، اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پہ ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ پاک تم پر نگہبان ہے.
اس ایات کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے کے رشتے ناطے توڑنے سے بچو لیکن ہم اس کے برعکس کرتے ہیں، ہم شاید رشتے بناتے ہی اس لیے ہیں کہ انہیں توڑ سکیں، ذرا سی کوئی بات ہوئی اور ہم آپے سے باہر ہو گئے، وہ جو رشتوں کے درمیان محبت، عزت، برداشت تھی، وہ اب ناپید نظر آتی ہے، ایک دوسرے کی بات کو سمجھنا، اس کو عزت دینا، اس کے کہے کی لاج رکھنا غیر ضروری تصور کیا جانے لگا ہے. ہم نے جو کہہ دیا وہی حرف آخر ہے اور وہی بہترین بات ہے، مانو ورنہ تمارا راستہ وہ ہمارا راستہ یہ.
دو لوگوں کے درمیان رشتے کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ آپس میں اختلاف ہونے کے باوجود وہ نہ صرف ساتھ ہوں بلکہ ساتھ کو انجوئے بھی کرتے رہیں. کہتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں دوستیاں اور دشمنیاں نسلوں تک چلتی تھی. میں خود اس بات کی گواہ ہوں، میری دادی کی جو اماں تھی، وہ مقبوضہ کشمیر کے کسی گاؤں سے بیاہ کر آئی تھیں، ان کے ساتھ ان کی ایک سہیلی بھی کسی اور گاؤں میں کسی اور برداری میں بیاہ کر آئیں لیکن جب تک زندہ رہی دوستی رہی، اس جہاں سے جانے کے بعد ان کی اولاد میں اور ان سے تیسری چوتھی نسل تک، بچپن میں جب ان کے بیٹے ہمیں بھتیجے بھتجیاں کہتے تو ہمیں بڑی حیرت ہوتی کہ یہ تو دوسری ذات برداری کے ہیں، ہمارے رشتے دار کیسے ہوئے؟ پھر بڑوں نے بتایا کہ یہ رشتے ایک صدی سے ایسے چلے آ رہے ہیں. لیکن اب میں اپنی نسل میں رشتوں کے اس خالص پن کو ختم ہوتا ہوا دیکھتی ہوں ، شاید تب کے لوگوں کے پاس آپشنز کم تھیں، آج ہمارے پاس پوری دنیا کے لوگوں سے جڑنے کی آپشنز ہیں، ہمارا کینوس بڑا ہوتا جا رہا ہے اور جوں جوں ہمارا کینوس بڑا ہوتا جا رہا ہے، ہمارے رنگ بکھرتے جا رہے ہیں.
المیہ یہ ہے کہ ہمیں ان رنگوں کے بکھرنے کا احساس تک نہیں بلکہ جن رنگوں کے بکھرنے پر ہمیں احساس ندامت ہونا چاہیے، ہمیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پہ نظرثانی کرنی چاہیے، ان کے بکھرنے پر ہم بڑے فخر سے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ تو نہیں تو اورسہی اورنہیں تو اور سہی.
کچھ رشتے قدرت ہمیں تحفے کے طور پہ ہمیں ہماری پیدائش کے ساتھ دیتی ہے جو خون کے رشتے کہلاتے ہیں، ان سے محبت ہمارے جینز میں شامل ہوتی ہے لیکن کچھ رشتے اور تعلق ہم اس دنیا میں انے کے بعد بناتے ہیں جو محبت خلوص اور ہمارے ظرف پہ بنتے اور قائم رہتے ہیں.
اعلی ظرفی کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو رشتے یا تعلق ہم اپنی پسند سے بناتے ہیں، جب وہ لوگ ہمارے ساتھ نا بھی ہوں تب بھی ہمشہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کریں اور یہ دعا کریں کے جہاں اور جس کے ساتھ رہیں خوش رہیں. لیکن ہم کرتے کیا ہیں؟ پہلے تو قطع تعلقی کرتے ہیں، پھر ان لوگ کی خامیاں دوسروں کے سامنے گنواتے ہیں، اور ایسا کرتے ہوئے یہ تک نہیں سوچتے کہ کل تک یہ شخص ہمارے ساتھ ہمارا ہی حصہ تھا، ہماری پسند سے ہماری زندگی میں شامل ہوا تھا. ضرورت اس امر کی ہے جب بھی کوئی تعلق ہم سے چھوٹے ہمیں اپنے اندر جھانکنا چاہیے اور اپنی خامیوں کو دور کرنا چاہیے کیونکہ بڑے کینوس کی اصل خوبصورتی ہی یہ ہے کہ ہر رنگ اپنی اصل کے ساتھ اپنی جگہ پہ قائم ہوں.

Comments

Click here to post a comment