ہوم << عمران کا سیاسی کنٹری بیوشن اور خامیاں - محمد زاہد صدیق

عمران کا سیاسی کنٹری بیوشن اور خامیاں - محمد زاہد صدیق

زاہد مغل عمران خان کا سیاسی کنٹری بیوشن یہ تھا کہ اس نے ملک میں نوجوانوں کے اس طقبے کو ملک کے لیے متحرک کیا جو سیاست کو ایک گند قرار دے کر خود سے غیر متعلق سمجھتا تھا۔ اس قسم کی سوچ اس طبقے کے اندر ملک کی اوونرشپ سے دستبرداری کا رویہ پیدا کرتی ہے۔ اس اعتبار سے عمران خان کی یہ زبردست کامیابی تھی کہ اس نے ملک کے مستقبل کے معمار کے اندر ملک کی اونرشپ کا جذبہ پیدا کیا۔
عمران خان کا دوسرا سیاسی کنٹری بیوشن یہ تھا کہ اس نے ان شعبوں کی ترجیحات کی طرف بھرپورزور دیا جنہیں سوشل سویکٹر کہا جاتا ہے (یعنی تعلیم، صحت و پانی وغیرہ)۔ جمہوری نظم کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو وہی حقوق ملتے ہیں جو سیاسی عمل میں ”ان“ ہوں (یعنی جن کی بنیاد پر لوگ ووٹ دیتے ہیں) کیونکہ جمہوری نظریات کی رو سے سیاست ایک کیرئیر ہوتا ہے لہذا ایماندار سے ایماندار جمہوری سیاست دان بھی انہی حقوق (اشیاء و خدمات) کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے جن کا "ووٹ ایمپیکٹ" زیادہ ہو۔ اس ضمن میں عمران خان کا کنٹریبیوشن یہ تھا کہ اس نے عوام میں ان کا شعور بیدار کیا اور اسی شعور کے نیتجے میں یہ ترجیحات سیاسی عمل میں منعکس ہونا شروع ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہ اسی پریشر کا نتیجہ ہے کہ ن لیگ بھی آج 500 ہسپتال بنانے کا اعلان کر رہی ہے اور فیصل آباد میں پانی صاف کرنے کا اربوں روپے کا پلانٹ لگا رہی ہے۔
لیکن یہ سب کنٹریبیوشن اس کی شخصی کمزوریوں (انا پرستی، دوسروں کی رائے کو اہمیت نا دینا وغیرہ) اور طرز سیاست کی وجہ سے ماند پڑتا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی مسئلہ بے صبری ہے جس کی وجہ سے اس نے ہر طرح کے کرپٹ بندے کو اپنی پارٹی میں اعلی عہدوں پر فائز کیا۔ ضرورت اس امرکی بھی تھی کہ وہ ہم خیال اکیڈمک سرکلز کو ساتھ ملا کر اپنی پارٹی میں کوئی اعلی سطح کا علمی تھنک ٹینک بناتا جو اسے حکومتی پالیسیوں کے تجزیے کے علاوہ اپنی پارٹی اور صوبائی حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں تجاویز دیتا رہتا۔ بدقسمتی سے یہ رجحان پاکستان کی کسی بھی پارٹی میں نہیں اور عمران نے بھی اس شعبے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ عمران نے اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی کہ جو سیاسی ٹیم میں بنا رہا ہوں آیا اس میں کچھ ڈلیور کرنے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں (میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ عمران جو اہداف رکھتا ہے اس کی ٹیم میں وہ ڈلیور کرنے کی صلاحیت نہیں، خیر یہ الگ موضوع ہے)۔ اب تک ایسے کوئی اعداد و شمار (”اعداد و شمار“ کی بات کررہا ہوں، ”ذاتی تاثرات" کی نہیں) میسر نہیں جن کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ آیا کے پی میں ان شعبوں میں بھی کوئی واقعی بہتری آگئی ہے جس کا یہ ہر وقت ذکر کرتے رہتے ہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر 2013 میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جاتی تو پی ٹی آئی کی نااہلی کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین پانچ سال ہوتے، یہاں تک کہ زرداری دور کے پانچ سال سے بھی زیادہ اور کسی شعبے میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ باہر ملک سے انوسٹمنٹ لانا یہ عمران اور اسکے ساتھیوں کے بس کی بات ہی نہیں۔ ہاں عمران دنیا کا بہترین کینسر ھسپتال بنوا سکتا ہے کیونکہ یہ اسکی خاص صلاحیت ہے، اس میں اس کے لنکس بنے ہوئے ہیں۔ ہر کام کی صلاحیت اور تجربہ الگ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کے پی حکومت پچھلے تین سال میں کہیں سے ایک ڈھیلے کی بھی انوسٹمنٹ نہیں لاسکی۔ نالائق اور کرپٹ لوگوں کے ساتھ قوم کے نوجوانوں کی امیدوں کو وابستہ کردینا عمران کی ایک فاش غلطی تھی۔
عمران خان کا دوسرا سیاسی جرم ملک کے پڑھے لکھے طبقے کے سیاسی شعور اور زبان کو بھی تھڑے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی سطح پر لے آنا ہے۔ چنانچہ یہ عام مشاہدہ اور تاثر ہے کہ پی ٹی آئی کا ورکر اور حامی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی سب سے زیادہ بدزبان اور بدتمیز ہے، سیاسی شعور کا تو خیر اللہ ہی حافظ ہے۔
عمران خان کا اصل مسئلہ بے صبری ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس نے جمہوریت کے نظریات اور کسی بھی ملک میں اس کے ٹریسز کو نزدیک سے نہیں دیکھا۔ میں معاشیات میں پبلک چوائس کی تھیوریز کو جس قدر پڑھتا چلا جاتا ہوں مجھ میں اتنا ہی صبر پیدا ہوتا جاتا ہے کہ بھائی جمہوریت تو ایسی ہی ہوتی ہے، اس میں اسی طرح قدم بقدم تبدیلی و اصلاح ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی اور جمہوریت تو نام ہی کرپشن (سیلف انٹرسٹ کی بنیاد پر سیاسی اغراض و حقوق کے فروغ) کا ہے، اس میں اصلاح اداروں میں بتدریج اصلاح سے آتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ جمہوری پراسس کو لمبے عرصے کے لئے چلنے دیا جائے، تب ہی اس جمہوری مشین سے یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ شاید کچھ اچھا مال پیش کرسکے۔
عمران کی انفرادی خصوصیات اور اس کے مشیر اسے فوری ایکٹوازم کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اس فوری ایکٹوازم کے چکر میں یہ وہ تمام سیاسی وارداتیں کرتا ہے جس کی بنیاد پر دوسروں پر تنقید کرکے خود کو ان سے ممیز کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، اس سب میں اسے یہ دھیان بھی نہیں رہتا کہ یہ کن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں اس کا عوامی تاثر یہی ابھرا ہے کہ ”یہ بھی دیگر سیاست دانوں جیسا ہی ہے، یہاں تک کہ ماضی میں ٹیکس چوری کرنے اور اثاثے چھپانے جیسے معاملا ت میں بھی“۔

Comments

Click here to post a comment