ہوم << آ بیل مجھے مار - ڈاکٹر غیث المعرفۃ

آ بیل مجھے مار - ڈاکٹر غیث المعرفۃ

یوں تو مسلمان ممالک میں کم فہم اور کم عقل قیادتیں کثرت میں پائی جاتی ہیں، حالات کی نبض سے بیگانہ، منصوبہ سازی سے عاری اور دوررس فیصلہ کرنے سے نا آشنا۔لیکن خوش قسمتی سے ہمیں اس قبیل کی ترقی یاب نسل سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ہے، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کی کتابوں سے سبق حاصل کرتے ہیں، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہمعصر امتحانات سے عبرت پکڑتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی تجربات سے سیکھتے اور سمجھتے ہیں، لیکن یہاں تو معاملہ اس سے بھی چار قدم آگے کا ہے ہمارا واسطہ ان لوگوں سے پڑا ہے جن کو سمجھانے اور کچھ سکھانے کو ان کی اپنی آزمائشیں بھی ناکافی ثابت ہوئی ہیں، معلوم نہیں اس انتہاء کو کیا نام دیتے ہیں ہمیشہ کی طرح بلکہ اب تو حسب عادت اور حسب معمول کہا جانا چاہیے کہ آ بیل مجھے مار
فوج کے سیاسی کردار بارے کوئی بحث نہیں کیونکہ طاقت کی میزان میں اس کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا ہے اس کے پیچھے بہت سی حقیقی وجوہات موجود رہی ہیں ایک طاقت ور کثیر فوج ہماری ضرورت ہی نہیں مجبوری بھی رہی ہے اور اس کی تشکیل میں قومی تائید اور حوصلے کی اپنی اہمیت ہوا کرتی ہے جسے حاصل کرنے لیے فوج نے روایتی حدوں سے بڑھ کر کام کیا ہے نتیجتاً عوام کا فوج سے تعلق ایک جانثار ادارے کے احترام سے بڑھ کر رومانس کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس کا اظہار اس طرح سے بھی ہوتا ہے کہ ان کی آمد کے لیے بے تاب رہنے والوں کی، ہمیشہ ایک معقول تعداد ہمارے سماج کا حصہ رہی ہے موجود فوجی قیادت نے کئی مواقع کی موجودگی کے باوجود سویلین اداروں کو کام کرنے کی آزادی دی ہے اور ایسی آوازوں پر کان نہیں دھرا جو انہیں اپنی طاقت کے استعمال پر اکساتے رہے ہیں اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں تھا کہ طاقت کے ترازو میں وہ کمزور ہو چکی ہے، دہشتگردی کے خلاف جامع آپریشن اور کامیابیوں نے اسے نہ صرف علاقائی بلکہ خطے میں مزید طاقتور اور مقبول بنا دیا ہے سویلین اداروں کو کام کرنے کا موقع دینا شاید اس وجہ سے ہے کہ فوج کے اندر پیشہ وارانہ ادراک مضبوط ہو رہا ہے، اس نے سیکیورٹی معاملات کو سنجیدگی اور یکسوئی سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب بجلی آف کر کے مارشل لاء آن کرنا آسان کام تھا، ذرائع ابلاغ کی ترقی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے غیر متوقع نتائج اور ردعمل کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے جسے پھیلنے سے روکنا قدرے مشکل ہو سکتا ہے۔ کم فہم نسل نے اسے فوجی کمزوری سمجھا اور سویلین بالادستی کا اعلان کر دیا سرل المیدا کی اسٹوری سے یہی پیغامِ عام دینے کی کوشش کی گئی اگرچہ یہ معاملہ فوجی زیردستی سے کچھ زیادہ تھا جس پر اگلی سطروں میں بات کرتے ہیں لیکن طاقتور ادارے سے چھیڑ کھانی کی گئی کہ آ بیل مجھے مار
تجزیہ نگاروں، دانشوروں اور محققین کے لیے مصر، ترکی اور پاکستان کے سول ملٹری تعلقات ایک خاص کشش رکھتے ہیں کیونکہ عدمِ توازن کی وجہ سے تناؤ کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ مصر میں فوج طاقت کے نشے میں دھت ہو کر جمہوری نظام کو سمیٹ چکی ہے، پاکستان میں فوجی بالادستی عیاں ہے البتہ ترکی نے 15 جولائی 2016ء کو ایک نئے ترکی کی بنیاد رکھ دی جس میں فوجی طاقت کو اس کی آیئنی حدوں میں دھکیل دیا گیا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہو گیا؟ یہ محض ایک رات کا قصہ نہیں جسے ایک اخباری اسٹوری میں نقل کرنے کی کوشش کی گئی، سولین بالادستی ثابت کرنے کے لیے ایک اردگان کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ایسا اردگان جو حالات کی نبض محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، دور رس منصوبہ بندی اور فیصلے کی ہمت اور استقامت رکھتا ہو- سچ تو یہ ہے کہ ایک بت کی ہیبت ختم کرنے کے لیے دوسرا بت کھڑا پڑتا ہے جو پہلے سے زیادہ پُرشکوہ اور عظیم ہو- پھراصل طاقتوری یہ ہےکہ کسی کو احساسِ کمزوری دلائے بغیر پیدا کر لی جائے ظاہر ہے یہ بونے دماغوں سے ممکن نہیں اس کے لیے پرفارمنس کے فقط دعوے ہی نہیں عملی کاریگری دکھانا پڑتی ہے اور اسے اس سطح تک پیش کرنا پڑتا ہے کہ عوام و خواص کو احساس ہو جائے کہ اردگان موجودہ نظام میں سب سے زیادہ حتیٰ کہ سیکولر فوج سے بھی زیادہ اس قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کے لیے اہم ہے ترکی میں فوجی طاقت کو زیر کئے بغیر سویلین بالادستی قائم ہو چکی ہے، یہ عمل 3 نومبر 2002ء سے شروع ہوا اور 14 جولائی 2016ء کی شب ایک ٹیسٹ کیس کے بعد اس کا تعین کر لیا گیا لیکن یہاں فقط ایک لمحاتی جرات میں نہ صرف اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس کا نقارہ بھی بڑے اہتمام سے بجانے کی سعی ہوئی شیر کی کھال میں چھپے کم عقل گیڈروں نے اپنی پرانی روش نہ بدلی آ بیل مجھے مار- اور پھر ہوا وہی جو تہی دامنوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، وزیراعظم ہاؤس کو ایک نہیں دو بار تردید جاری کرنا پڑی، اندرون خانہ معافیوں اور تلافیوں کی باتیں اب یہاں تک آ پہنچی ہیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات سے استعفیٰ دلوانا پڑا، لیکن ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ قربانی کافی رہے گی یا کوئی اور کفارہ (کفارے) ادا کرنا پڑے گا
ہمارے جمہوریت پسندی کے جذبات، مسلسل جمہوری نظام کی خواہشیں اور فوجی اداروں کو آئینی حدوں میں رکھنے کی جدوجہد، قابل احترام سہی مگر موجود حالات میں کسی یوٹوپیا سے کم نہیں۔ اسے حاصل کرنے لیے جہاں اس فطری طریقہ کار کے اسباب موجود نہیں جو ترکی میں برتے گئے وہیں پاکستان میں جمہوریت کے وکیل وہ ہیں جو اپنے لفظوں سے موروثیت کی پرورش کرتے ہیں، یہاں جمہوریت کےمحافظ وہ ہیں جنہوں نے اپنی پارٹیوں میں جمہوریت کی قتل گاہیں بنا رکھی ہیں اور اگر چند جماعتیں جمہوری قدروں کو سہارنے کی کوشش کرتی بھی ہیں تو بہت جلد اپنی ساری محنت کو فوجی قدموں میں ڈھیر کر دیتی ہیں۔یہاں جمہوریت کی بقاء اور سویلین بالادستی سے قبل اس کے تمام تر ضروری لوازمات پورے کرنے کے بجائے آ بیل مجھے مار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس معاملے کے اثرات فقط یہیں تک نہیں کہ دو اداروں میں تناؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے بلکہ اس کا ایک اور بھیانک پہلو بھی ہے
تحریک آزادی کشمیر اپنی تاریخ کے ایک منفرد موڑ پر پہنچ چکی تھی، اس مسئلہ کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے دیکھا جا رہا تھا، خود بھارت میں کشمیر پر غیر روایتی آوازیں اٹھنا شروع ہوئی تھیں اس کی پہلی وجہ تو یہی تھی کہ بھارتی ظلم و تشدد کو دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، سماجی رابطوں سے وہ پوری دنیا میں پہنچ رہا تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ آزادی کشمیر کی تحریک کو پہلی بار انڈیپنڈنٹ ہوم موومنٹ کے طور پر محسوس کیا گیا، بھارت کے پاس کوئی سنجیدہ شوائد موجود نہیں تھے کہ اس تحریک کی عملی پشت پناہی میں پاکستان کی موجودگی ثابت کر سکتا، اسی لیے فوری طور پر بھارت کو اڑی حملے جیسی کاروائی سجانا پڑی اس کے باوجود پاکستان اس قابل تھا کہ اپنی پوزیشن واضع کر سکتا اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم مودی اقوام متحدہ میں اقوام عالم کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں سرل المیدا کے اسٹوری چھپنے کے بعد کشمیر ٹیمپو صفر پر چلا گیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستانی تشخص کو خطرناک حد تک دھچکا پہنچا، اس سے قبل پاکستان تمام تر بھارتی اور عالمی الزامات کو ٹیکل کرنے کی پوزیشن میں تھا، اس اسٹوری سے ان تمام الزامات پر مہرِ تصدیق ثبت ہو چکی ہے اور مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے
نان اسٹیٹ ایکٹرز کا دشمنوں کےخلاف استعمال کرنا، ایک کا دہشتگرد، دوسرے کےلیے فریڈم فائٹر ہونا کوئی نئی چیز نہیں، امریکہ خود افغان مجاہدین کو روس کے خلاف استعمال کرتا رہا، اور آج کل کرد دہشتگرد تنظیموں کو داعش اور ترکی کے خلاف مدد فراہم کر رہا ہے، خود بھارت بلوچستان میں بلوچ باغیوں کو فریڈم فائٹر قرار دے کر ہر قسم کی مدد فراہم کرتا ہے ایسے میں پاکستان کا ایک متنازعہ علاقہ میں وہاں کی جنگ آزادی کو ہر طرح سے مدد فراہم کرنا اچنپے کی بات نہیں لیکن بطور جرم حکومتی سطح پر اسے قبول کرنا عالمی سطح پر پاکستان کا پیچھا کرتا رہے گااور پاکستان کے عالمی تعلقات پر منفی اثرات ڈالے گا

Comments

Click here to post a comment