ہوم << خدا کی ہستی اور انسان - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

خدا کی ہستی اور انسان - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ساڑھے چھ ہزار سال کے اس سفر میں جو انسان نے اس کرہ ارض پر طے کیا ہے کوئی ایک لمحہ، دن، ماہ یا سال ایسا نہیں گزرا جس میں خدا کا تصور، اس کی حقیقت جاننے، اسے قبول کرنے یا پھر جھٹلا دینے کا سوال انسان کو در پیش نہ رہا ہو۔ خدا کی موجودگی، اس کی ذات، صفات اور ہستی کے حوالے سے ان گنت زاویوں سے اس مسئلہ کو کھنگالا گیا اور اس پر بحثیں آج تاریخ کا حصہ ہیں۔
بنیادی سوال بہرحال یہ رہا کہ آیا خدا کوئی حقیقت ہے یا پھر محض ایک واہمہ، انسانی نفسیات کی ایک ایسی گرہ جو اپنے مصائب اور آلام کو کسی ماورائے عقل بر تر ہستی کے سپرد کر کے اپنے خلجان سے نجات چاہتی ہے۔ اس گروہ کے پیروکاروں کا خیال رہا ہے کہ چونکہ انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں اور علم کے با وصف اپنی مشکلات پر کما حقہ قابو نہیں پا سکا اس لیے بندگلی سے نکلنے کے لئے اسے ایک ایسے عقبی دروازے کی ضرورت تھی جو اسے مایوسی سے نکال کر از سر نو جدوجہد کے لیے تیار کر سکے۔ چنانچہ اس نے خدا کا ایک تصور ایجاد کر لیا۔ اس بات کو تقویت پہنچانے کے لئے یہ بھی کہا گیا کہ جیسے جیسے سائنس اور فنون کی ترقی ہوتی چلی گئی خدا کا تصور اپنی اہمیت کھوتا چلا گیا۔ کیونکہ اب زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے دعا سے زیادہ دوا کا اثر غالب آ چکا ہے۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ خدا کی ’’عدم ضرورت ‘‘ کے اس دور میں مایوس لوگوں کی شرح انسانی تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ ہے۔
خدا سے متعلق اتنی جستجو اور ردو کد کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے یعنی خدا کی ہستی کا نظروں کی گرفت سے ماورا ہونا۔ آج تک خدا کو کسی انسان نے نہیں دیکھا۔ خدا کے ماننے والوں اور اس کے پیغمبروں تک کو یہ موقع میسر نہیں ہوا۔ خدا سے رابطے کی قریب ترین سہولت خدا سے براہ راست گفتگو کا تجربہ ہے جو حضرت موسیٰ کو حاصل ہوا اور خدا کی طرف سے اس بات کی تائید ان صحیفوں میں وارد ہوئی جنہیں الٰہامی کہا گیا یعنی تورات ، انجیل اور قرآن۔ خدا کا دیدار حضرت موسیٰ کو بھی نہیں ہوا اور وہ تجلی اولیٰ کی تاب بھی نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے۔
خدا کے حوالے سے بصری تجربے کی عدم موجودگی نے ان لوگوں کو بہت منہ زور بنا دیا جو خدا کو محض نفسیات کا ایک مسئلہ گردانتے تھے۔ انھوں نے اس بظاہر خامی کو اپنے فکر کو آگے بڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا اور ہمیشہ خدا پرستوں کے سامنے ایسے سوال رکھے جن کا جواب بصری تجربے کا متقاضی تھا۔ مثلاً یہ کہ خدا تعالیٰ دکھنے میں کیسے ہیں، ان کے ظاہری خدوخال کیا ہیں۔ آج تک کسی ایک شخص نے بھی خدا کا مشاہدہ کیا؟ وغیرہ۔ اس طرح خدا کے عدم ظہور کو عدم وجود کی دلیل بنایاگیا۔
خدا سے متعلق انسان کی جستجو تو ایک باب ہے ہی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ خدا کی بھی تو ضرورت ہے کہ انسان اسے پہچانے اور اس کی ہدایت پر عمل کرے۔ تو خدا اس ضمن میں کیا طریقہ تجویز کرتا ہے۔ قرآن میں سورۃ البقرہ میں آتا ہے ’’لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ‘‘ خدا کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ مشقت میں نہیں ڈالتا۔ خدا کی جانب سے انسان کے لئے اس معاملے میں بھی مندرجہ بالا آیت کا اصول کار فرما ہے۔ انسان کے تمام قوی میں درجہ اولیٰ عقل کو حاصل ہے اور انسان کے علم، ایجاد اور دریافت کا ماخذ و منبہ بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی پہچان کے لئے عقل ہی کو ذریعہ بنانے کو کہا ہے۔ یہ بات اس مروجہ خیال کے بالکل مخالف ہے کہ خدا کو عقل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اصل میں تو خدا کے ہونے کو عقل سے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ علم اور تجربہ عقل کو مہمیز دیتے ہیں۔ جس قدر یہ دونوں بڑھتے ہیں عقل اتنا ہی زیرک ہوتی چلی جاتی ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں دو باتیں بہت صراحت اور اصرار کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔
۱۔خدا ایک ایسا Intellect ہے جو سوچنے ، ڈیزائن کرنے اور منصوبہ سازی کی لا محدود صلاحیت رکھتا ہے یعنی۔۔۔ ھو بکل شئی علیم۔
۲۔ اس کے پاس لا تعداد وسائل بے شمار استعداد اور ان گنت طریقے ہیں جن سے وہ مندرجہ بالا کو عملی صورت دینے کی قدرت رکھتا ہے یعنی۔۔۔ علی کل شئی قدیر۔
انسان سے خدا کی توقع یہ ہے کہ وہ اپنے پھیلی دنیا، کائنات اور مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرے، ان پر غور کرے اور اندازہ لگائے کہ نظام قدرت کیسے چلتا ہے۔ اگر ان تمام چیزوں میں ربط ہے اور ہر جگہ ایک منظم پراسیس کار فرما نظر آتا ہے اور اس کا خالق کوئی انسان نہیں تو پھر اسے جس ذہانت نے تخلیق کیا اور جاری رکھے ہوئے ہے اس کو پہچاننا اور اس کا اعتراف کرنا تو ایک اخلاقی تقاضہ بھی ہے۔ خاص کر جبکہ صورت حال یہ ہے کہ انسان خود اپنی تخلیق کے بارے میں کتنا حساس ہوتا ہے او راس حوالے سے پذیرائی کی کس قدر توقع رکھتا ہے۔
خدا کو نہ ماننے کے لیے ضروری ہے کہ عقل انصاف کی راہ سے بھٹک چکی ہو۔ ورنہ چیزوں کے Concept سے لے کر ان کے انصرام اور تسلسل تک ہر مرحلہ آپ کو حیران کر دے گا۔ انسان کے علم کا کل اثاثہ یہ ہے کہ وہ موجود کو دریافت کر کے اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ جس نے ان تمام کو عدم سے وجود بخشا اس کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ سچ ہے آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل اندھے ہو جاتے ہیں۔
انسانی علم کی عمارت تین بنیادی ستونوں پر کھڑی ہے۔ فلسفہ، تاریخ اور سائنس۔ فلسفہ نے صدیوں تک تنہاہی انسانی فکر کے ارفع ترین اظہارئیے کے طور پر انسانی شعور کی نمائندگی، آبیاری اور تربیت کا کام انجام دیا۔جہاں اس نے زندگی کے دوسرے معاملات میں انسان کی کسی قدر رہنمائی کی وہاں خدا کے ضمن میںمحض کنفیوزن ہی پیدا کیا۔مثلا۔۔۔ منطق کے نام پر فلسفہ نے بصری بنیاد پر کیے گئے سوالوں میں ایک اور کا اضافہ کر دیا۔ خدا اگر تمام چیزوں کا خالق ہے تو پھر خدا کا خالق کون ہے۔ یہ سوال ایک بہت دلچسپ صورت حال کو جنم دیتا ہے۔ بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ تجسس سے زیادہ جھنجھلاہٹ کا عکاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کا منطق کی بنیادی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ منطق یہ کہتی ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو اس کے مطابق سے ہی تشبیہ دی جا سکتی ہے یا تقابل کیا جا سکتا ہے،غیر مطابق سے نہیں ۔دیکھئے بالفرض خدا ہے اور وہ ہی ہر چیز کا خالق ہے تو پھر یہ بھی طے ہو گیا کہ ہم اسی خدا کے تخلیق کردہ Paradigm میں رہ رہے ہیں۔ اس Paradigm کو علت اور معلول کی بنائے منطقی پر قائم کیا گیا ہے اور خدا چونکہ عقل کل بھی ہے اور اس کی طاقت ہر چیز پر حاوی ہے تو یہ اس کا خصوصی اختیار ہے جو وہ بروئے کار لایا۔ اب ہم جو کہ خود اس کی مرضی کی حالت اور ماحول میں رہ رہے ہیں اور اس سے سوا کسی متبادل تک ہماری رسائی بھی نہیں وہ خدا کو اپنے Paradigm پر کیسے منطق کر سکتے ہیں جبکہ خدا کبھی بھی اس کا حصہ نہیں رہا۔ یعنی وہ علت و معلول کے اس ضابطے سے بالکل ماورا ہے۔ جو کہ اس کو ہونا چاہیے تاکہ وہ واقعی میں با قدرت ہو جیسا کہ اس کا تعارف کرایا جاتا ہے اور در حقیقت یہ خدا ہونے کی شرط اول ہے۔
19ویں صدی میں سائنس کی حیران کن ترقی سامنے آئی اور ہر سو سائیئنٹفک میتھڈ کی دھوم مچ گئی۔ اب معاملات کی انفرادی حرکیات کے بجائے مربوط افعال (Processes) کے حوالے سے دیکھا جانے لگا۔ یہاں بھی خدا کے تصور کو تختہ مشق بنایا گیا۔ پہلے تو فلسفے سے مستعار لی گئی فکر کے تحت خدا کا انکار ہی کر دیا گیا۔ پھر اس میں بھی ایک اپچ کا اضافہ کر دیا گیا اور سائنٹفک میتھڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے خدا کا متبادل بھی تجویز کر دیا گیا تا کہ بانس اور بانسری کا قصہ ہی تمام ہو جائے۔ یوں نظریہ ارتقاء یاTheory of Evolution ہمارے سامنے آ گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ فلسفے کی طرح یہاں بھی بنیادی تصورات سے برعکس اصول اپناتے ہوئے شخصیت کو Process سے تبدیل کر دیا گیا۔ آج مغرب کا چین سے سب سے بڑا تنازع ہی اس بات پر ہے۔ Process اور شخصیت دو مربوط اور اٹوٹ سچائیاں ہیں ان کو نہ جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی شخصیت کی کاوش کا اعتراف کیے بغیر Process کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے ۔ قانون کی زبان میں اسے Intellectual Property Rights کا نام دیا گیا ہے۔ تاہم خدا کے معاملے میں یہ اصول لاگو تصور نہیں ہوتا بلکہ شخصیت کو منہا کرنے کے بعد بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ Processکا وجود میں آنا اور جاری رہنا ممکن ہے۔
یہاں یہ بات دہرائے جانے کے لائق ہے کہ خدا خود علت اور معلول کے قاعدے کا پابند نہیں لیکن اس کی تخلیق کردہ ہر چیز اسی قاعدے کے تحت وجود میں آئی اور اسی کلیے کی مرہون ہے۔
سائنسی طریقے میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وجود کو پراسیس سے بدل دیا جائے اور ایسی کسی بھی کوشش کو تنقید اور تضحیک کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن نظریہ ارتقاء کے بارے میں بظاہر خیرہ کن دلائل پر اس قدر اصرار کیا گیا کہ اس نظریہ کو نہ ماننے والوں کو جاہل، دقیانوسی اور شعور دشمن تک گردانا گیا۔ خود ہمارے مذہبی رہنما بھی اس رو سے محفوظ نہ رہ سکے اور خود کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ثابت کرنے کے لئے نظریہ ارتقاء کو ایک حقیقت کے طور پر ماننا شروع کر دیا۔ گو وہ یہ احتیاط بہرحال روا رکھتے رہے کہ Evolution کو خدا کی طرف منسوب کر دیا۔ اگر حسن ظن سے کام لیا جائے (اور بعض علماء کا استدلال بھی یہی رہا )تو انھوں نے Evolution کو تدریج کے معنوں میں سمجھا۔ تاہم یہ حسن ظن بھی تادیر قائم نہیں رہتا کیونکہ وہ آج کے انسان کو لاکھوں سال پر مشتمل ارتقائی سفر کا حاصل مانتے ہیں جس میں انسان کی ہیئت میں کئی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور بالآخر وہ موجودہ شکل میں ڈھل گیا۔ یہ بات خدا کے اس بنیادی مقدمے سے بالکل متضاد ہے جو وہ اپنی صلاحیت کے بارے میں قائم کرتا ہے کہ وہـ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ یعنی Creation at Will خدا نے آدم کو آدم ہی بنایا اور ایسے ہی پیدا کیا۔ اسے کئی لاکھ سال پر مشتمل ابتدائی اشکال سے نہیں گزارا۔ قرآن اس واقعے کو ایسے ہی بیان کرتا ہے۔ Creation at will کے بغیر خدا کا خدا ہونا ایک خیال تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔
یوں بھی Theory of Evolutionایک Linear Process ہے جبکہ Creation کا Pattern Linear نہیں ہے بلکہ یہ افقی اور متوازی ہے۔ یہ خود کار یت کی بجائے منصوبہ مبنی بر ذہانت کا پتہ دیتی ہے۔ Unicellularسے لے کر Multiple Oran System سے مزین تمام جاندار اپنی زندگی اور Survival کو بخوبی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
الٰہامی کتب (تورات، انجیل اور قرآن) کے ماننے والے بخوبی جانتے ہیں ساخت کے لحاظ سے سب سے لطیف مخلوق فرشتے ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تخلیق فرمایا اس کے بعد جنوں کو اور سب سے عمومی ساخت کا حامل یعنی انسان آخر میں تخلیق ہوا۔ یعنی یہ ارتقائے معکوس کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اگر ہم عالم بالا سے اتر کر اس دنیا کی بات کریں تو ایک ادنیٰ کیڑا۔ شہد کی مکھی Intelligent Design کا ایک شاہکار ہے اسکی ساخت، لائف سائیکل Locomotion سب دوسرے حشرات کی طرح ہے۔ لیکن وہ اپنے بود و باش میں نا قابل یقین حد تک ترقی یافتہ ہے۔ کبھی کسی گندی جگہ گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی گندی چیز بطور خوراک استعمال کرتا ہے۔ عمدہ پھل اور پھول اس کی غذا میں ان سے وہ ایک انتہائی لذیزاور پر تاثیر مشروب تیار کرتا ہے۔ دوسرے حشرات سے یہ فرق نہ فطرت کے کسی چیلنج کا نتیجہ ہے اور نہ ہی Learned Behavior کا شاخسانہ ۔ انسان کی دلچسپ مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ لاکھوں سال پر محیط ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد انسان کی حالت یہ ہے کہ وہ انتہائی پست اور سست جسمانی قوی کا مالک ہے۔ اور تو یہ ہے کہ ان قوی کے ساتھ وہ بیماری، موسم اور دوسرے چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے یکسرقاصر ہے۔ اگر اس کے پاس عقل نہ ہو تو وہ کرہ ارض پر سب سے بڑھ کر Endangered Species ہو۔ نظریہ ارتقاء کے مطابق تو اس میں اتنی طاقت تو ہونی چاہیے تھی کہ وہ نیچرل سلیکشنNatural Selection کی بنیاد پر اپنے باقی رہنے کو جواز فراہم کر سکتا۔ یہ کیسی سلیکٹو ترقی ہے جو حیات کے سب سے بہترین نمونے کو جسمانی لحاظ سے اسقدر لا چار کر دیتی ہے۔
نظریہ ارتقاء نے تخلیق کی داستان کو زیر زبر کر دیا اور تخلیق کو ایک خلیے سے شروع کر کے تمام موجودات تک پھیلایا۔ جبکہ Intelligent Design یعنی حقیقت تخلیق یہ ہے کہ خلیہ تخلیق کی اکائی ضرور ہے ابتداء نہیں۔ تخلیق کی ابتداء ایک خالق سے ہوتی ہے جو پہلے جاندار کو بناتا ہے پھر اس سے اس کی نسل جاری کرتا ہے۔ اس لیے جو چیز ہمیں جس حالت میں آج نظر آتی ہے وہ در حقیقت ایسے ہی تخلیق کی گئی تھی۔ اسے کسی خود کارپراسیس نے لاکھوں سال کی محنت کے بعد موجودہ حالت کو نہیں پہنچایا یہ فرق نظریہ ارتقاء اور Intelligent Design میں برہان قاطع ہے۔
ہمارے جو دوست نظریہ ارتقاء کے پرچارک ہیں اور بغیر کسی تامل کے تمام کائنات کی پیدائش کو ایک حادثہ قرار دیتے ہیں ان سے اگر آپ صرف یہ کہہ دیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی تھی تو فوراً پکار اٹھیں گے ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
تو کوئی ہے جو سوچے، سمجھے!

Comments

Click here to post a comment