ہوم << نسبی شرافت اور انبیائے کرام کا نسب - پروفیسر مفتی منیب الرحمن

نسبی شرافت اور انبیائے کرام کا نسب - پروفیسر مفتی منیب الرحمن

مفتی منیب الرحمن 22 اکتوبر کو ’’اَخلاقی اَقدار کا زوال‘‘ کے عنوان سے ہمارا کالم شائع ہوا، اُس پر جناب نعمان شہیر نے ای میل کے ذریعے یہ اِشکال وارد کیا ہے:
آپ نے کالم میں روم کے بادشاہ اور حضرت ابوسفیان کے درمیان ایک تاریخی مکالمے کا ذکر کیا ہے، اس میں ہے: ’’انبیائے کرام علیہم السلام اپنے عہد کے لوگوں میں عالی نسب رہے ہیں‘‘، مجھے اس پر تشویش ہے، اس کی وضاحت فرمائیں۔ ہم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، لہٰذا نسبی برتری کا کیا معنی؟ جب سب سے اہم چیز تقویٰ ہے، تو پھر نسب کی کیا اہمیت؟، کوئی انسان اپنے والدین کی کسی کمزوری کا ذمہ دار نہیں ہے۔ العیاذ باللہ ! جدید دور میں اسے نسل پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ نظریہ قرآن سے متصادم ہے۔ حضرت عبداللہ اور حضرت ابوطالب معمولی تاجر اور اپنے قبیلے کے سردار تھے، وہ عالی نسب کیسے ہوگئے؟ وہ کوئی اسکالر، فلاسفر، سائنس دان یا انسان دوست نہیں تھے۔ اس کا مطلب تویہ ہے کہ کوئی شخص کوئی عظیم کارنامہ انجام دے دے، تو اُس کے آباء و اَجداد کی شان بڑی ہوجائے گی اور وہ عالی نسب قرار پائے گا، اس سے قطع نظر کہ وہ کتنے معمولی لوگ تھے۔ اسی طرح اگر کوئی برا کام کرتا ہے، تو اس کی وجہ سے اس کے آباء واَجداد کم تر نسب والے قرارپائیں گے، خواہ اس نے نوبیل انعام حاصل کیا ہو۔ امید ہے آپ میری اس الجھن کوحل کریں گے۔‘‘
قارئین سے گزارش ہے کہ اِس سوال پر مشتعل نہ ہوں، ہمیں حُسنِ ظن سے کام لینا چاہیے، ہوسکتا ہے اُن کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا ہو، پس اس اشکال کو رفع کرنا ہماری دینی ذمے داری ہے، یہ فریقِ مخالف کو قائل کرنے کا دور ہے، کسی پر ہم اپنی رائے جبراً مسلّط نہیں کرسکتے، ہوسکتا ہے کہ ہماری ِاس مخلصانہ کاوش سے بہت سے ذہنوں کے بند دریچے کھل جائیں۔
آپ کا یہ کہنا بَجا ہے کہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ، (الاعراف:189)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نے تم سے جاہلیّت کا غرور و تکبرنکال لیا ہے، بس مومن پارسا ہوتا ہے اور فاجر محروم، سب لوگ آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، (ترمذی:3955)‘‘ یقینا قیامت کے دن فیصلے ایمان واعمال کی بنیاد پر ہوں گے، محض نسبی برتری سببِ نجات نہیں بنے گی، اِسی لیے مفسرینِ کے نزدیک آل اور اہل کا ایک معنی پیروکار ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ (نوح نے اپنے رب کو پکارا: عرض کی: اے میرے رب! بےشک میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور بےشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے، (اللہ نے)فرمایا: اے نوح! وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے ، بےشک اُس کے کرتوت برے ہیں، سو آپ مجھ سے اُس چیز کا سوال نہ کریں، جس کا آپ کو علم نہیں ہے، (ہود:45-46)‘‘۔
ایک ہی بیج سے فصل کاشت کی جاتی ہے، بعض پھل لذیذ ہوتے ہیں اور بعض بد ذائقہ۔ اِسی طرح انسانی نسل میں شریف و رذیل، نیک و بد، ذہین و غبی، الغرض ہر طرح کے افراد ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی ماں باپ کی اولاد میں رنگت، صورت، سعادت و شقاوت، ذہانت و غَباوت اور شَجاعت و بزدلی کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: وجودِ آدم کی اصل مٹی ہے اور مٹی کی رنگتیں اور خاصیتیں مختلف ہوتی ہیں اور یہ سب خاصیات نسلِ آدم میں منتقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح قامت و جسامت اور صورت و جمال کے اعتبار سے بھی بنی آدم میں تفاوُت ہے۔ لیکن یہ تمام چیزیں تکوینی ہیں، اللہ تعالیٰ کی حکمت پر مبنی ہیں، اس میں انسان کی اپنی محنت یا خواہش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے قیامت میں جزا و سزا اور نجات و خُسران کا مدار اِن تکوینی امور پر نہیں ہوگا، بلکہ تشریعی امور پر ہوگا، جس میں انسان کو خیر و شر کی نشاندہی کر کے اپنی صوابدید سے اپنے لیے راہِ عمل متعیّن کرنے کا اختیار دیا ہے اور اِسی پر آخرت میں جزا و سزا کا مدار ہوگا۔
اِسی طرح نَسبی کمال و شرافت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا تکوینی امر اور اُس کی عطا ہے، اگرچہ جزا و سزا کا مدار نسب پر نہیں ہوگا، مگر اِس کی اہمیت بہرحال مسلَّم ہے۔ جس طرح ہم حسین و ذہین انسان کی تعریف کرتے ہیں، اِسی طرح سے عَالی حسب و نَسب کی تعریف کرنا امرِ واقع ہے اور یہ خلافِ عقل و عدل نہیں ہے۔ انبیائے کرام کے بارے میں فرمایا: ’’اور بےشک وہ ہمارے چُنیدہ (اور) پسندیدہ بندے ہیں، (ص:47)‘‘۔ ہر شخص جانتا ہے کہ بعض چیزیں ناپسندیدہ ہونے کے باوجود معاشرے میں رائج ہوتی ہیں اور اُن میں نسب کی نَجابت اورخَسَاسَت دونوں شامل ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنتِ جلیلہ ہے کہ اُس نے اپنے انبیائے کرام کو بشری خصوصیات کے اعتبار سے اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا تاکہ کوئی کسی بھی حوالے سے اُن پر طعن نہ کرسکے اور اُن کے مقام و مرتبے کو معاشرے میں کم تر نہ سمجھے۔ سو اعلیٰ بشری خصوصیات میں جہاں پاک بازی و پاک دامنی، عِفّت وحیا، شَجاعت و سخاوت، صِدق و صَفا، دیانت و امانت، علم و ذکاوَت اور عدالت شامل ہیں، وہیں حُسنِ صورت اور اعلیٰ نَسب بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اظہارِ تشکر کے طور پر اپنے نسب کی فضیلت کو بیان فرمایا:
(1): ’’میرا سلسلۂ نسب ہر دور میں بنی آدم کے بہترین قبیلے اور خاندان میں رہا، یہاں تک کہ میں اپنے دور تک پہنچا، (بخاری:566)‘‘۔
(2): ’’میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں گا، (مسلم:1782)‘‘۔
(3):’’اللہ نے اولادِ ابراہیم میں سے اسماعیل کو، اولادِ اسماعیل میں کِنانہ کو، کِنَانہ میں سے قریش کو، قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھے چُنا، (مسلم:1782)‘‘۔یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنے آپ کو افضل البشر اور اپنے نسب کو افضل الانساب بتایا اور آپ تو ہیں ہی افضلُ الخَلق۔
رسول اللہ ﷺ کی نسبی شرافت ہی تھی کہ آپ کوگزند پہنچانے سے پہلے شدید عداوت کے باوجود کفارِ مکہ کو ہزار بار سوچنا پڑتا تھا۔ اِسی لیے جب کفارِ مکہ کی پارلیمنٹ ’’دارُ النَّدوۃ‘‘میں العیاذ باللہ! آپ کو شہید کرنے کے ابلیسی مشورے پر اتفاقِ رائے ہوا، تو ابوجہل نے کہا: تمام قبائلِ قریش کے نمائندہ بہادر جوان مسلّح ہوکر کاشانۂ نبوت کا محاصرہ کریں اور صبح سویرے جب آپ گھر سے نکلیں، تو یک بارگی سب آپ پر پِل پڑیں۔ اس طرح بنو ہاشم سب قبائل سے قصاص کے لیے جنگ نہیں کر پائیں گے اور دِیَت پر راضی ہوجائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ :’’تدبیر کُنَد بندہ ، تقدیر زِنَد خَندہ‘ ، بندوں کی کوئی بھی ناپاک تدبیر اللہ کی تقدیر پر غالب نہیں آسکتی۔ الغرض نسبی تفاخُر اگر دوسروں کو حقیر و کم تر جاننے کے لیے ہو، تو یہ شریعت کی نظر میں معیوب بات ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے ہو تو شکرِ نعمت اچھی بات ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنے حسن و جمال پر اظہارِ مسرّت کرے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں جو اسرائیلی روایات ہیں کہ العیاذ باللہ ! اُن کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی کہ بدن پہ بدبودار پھُنسیاں نکل آئی تھیں اور لوگوں کو اُن سے گھِن آتی تھی اور کوئی اُن کے قریب نہیں جاتا تھا، یہ سب باطل ہے، مقامِ نبوت کے شایانِ شان نہیں ہے، ایسی روایات کو یَکسر رَد کردینا چاہیے۔ البتہ بیماری کا لاحق ہونا بشری عوارض میں سے ہے اور یہ کسی بھی دور اور کسی بھی معاشرے میں معیوب بات نہیں رہی۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی کے احوال میں لکھا ہے:
1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران مختلف مکاتب فکر کے علماء کراچی میں اکٹھے ہوئے۔ ایک مجلس میں مولانا ظفر احمد انصاری، مفتی محمد شفیع، مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی جمع تھے۔ گفتگو کے دوران علامہ کاظمی صاحب نے مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے کہا: آپ نے اپنی کتاب’’ الکلام‘‘ میں مرزا غلام احمد قادیانی کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے: نبی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا حسب نسب اپنے زمانے کے تمام اَحساب و اَنساب سے افضل ہو، حالانکہ یہ بات بےدلیل ہے۔ اس پر مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے صحیح بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا: ’’ انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کے بہترین نسب میں مبعوث کیے جاتے ہیں‘‘۔ علامہ کاظمی نے حدیث کا ترجمہ بیان کیا: ’’ نبی جس قوم کی طرف مبعوث ہو، اُس کا نسب اُس قوم میں افضل ہوتا ہے‘‘۔ آپ نے لکھا ہے: ’’نبی کا نسب اپنے زمانے میں سب سے افضل ہوتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا: ’’ اگر میں نے یہ لکھ دیا ہے تواس میں خرابی کیا لازم آئی؟‘‘۔ علامہ کاظمی نے ترمذی شریف کی مذکورہ بالا حدیث کا حوالہ دیا اور کہا کہ انبیائے بنی اسرائیل اپنی قوم میں اعلیٰ نسب کے حامل تھے لیکن علی الاطلاق اپنے زمانے میں افضل النسب نہیں تھے، کیونکہ اُسی زمانے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سید المرسلین ﷺ کے اجداد موجود تھے اور آپ ﷺ نے اپنے نسب کو علی الاطلاق پورے عالَم انسانیت میں ’’افضل الانساب‘‘ قرار دیا ہے۔ پس ہر نبی اپنی قوم میں بہترین نسب کا حامل رہا ہے، لیکن پوری اولادِ آدم میں ہر دور میں افضل و اعلیٰ نسب صرف امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا رہا ہے۔ اب اگر نبی کے لیے ضروری ہو کہ اُس کا نسب اپنے زمانہ کے تمام اَنساب سے افضل ہو، تو لازم آئے گا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء، انبیاء نہ رہیں، کیونکہ اُن کا نسب اپنے زمانے میں نسب اسماعیل سے افضل نہ تھا اور انبیاء بنی اسرائیل کی نبوت کے انکار سے بڑھ کر اور کون سی خرابی ہوگی۔ جب علامہ کاظمی نے یہ نَقض وارد کیا تو مولانا محمد ادریس کاندھلوی اس وقت تو خاموش رہے لیکن اگلے ایڈیشن میں انہوں نے اس کو تبدیل کر لیا۔
آپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ اولاد کو آباء و اجداد کے کسی برے فعل کی سزا نہیں ملے گی، البتہ قرآن و حدیث میں ایسے شواہد ہیں کہ ماں باپ کی برکات اولاد پر بعض اوقات جاری ہوتی ہیں۔ نوبیل پرائز کوئی شرعی اعزاز نہیں ہے کہ اُس پر آخرت میں جزا و سزا کا مدار ہو۔ نسل پرستی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو رنگ ونسل کی بنیاد پر غلام بنایا جائے یا حقیر سمجھا جائے یا امتیاز برتا جائے، اسلام اس کی نفی کرتا ہے۔ اس دور میں بھی کوئی شخص کارنامہ انجام دے تو دنیاوی اعتبار سے یہ ماں باپ کے لیے یقینا باعثِ افتخار ہوتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment