ہوم << کیا ہم ”مائنس نوازشریف“ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

کیا ہم ”مائنس نوازشریف“ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

ایک دوست نے فیس بک ان باکس میں یہ سوال پوچھا ہے، ان کا اصرار ہے کہ اس کا جواب ضرور دیا جائے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا جواب سادہ ہاں یا نہیں میں دینا ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک پورا بلاگ لکھنا پڑے گا اور اب یہی فیصلہ کیا ہے۔
پہلے دو تین باتیں سمجھ لیں، جواس واقعے کے بعد بھی آپ لوگوں کے کام آئے گی۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اس قسم کے بڑے اور انتہائی حساس قسم کے فیصلوں کے بارے میں کسی کے پاس خبر نہیں ہوتی۔ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔ آپ خود تصور کریں کہ اگر کوئی بڑی محلاتی یا درباری سازش ہو یا پھر فوجی انقلاب آنا ہو تو کیا ان کی اطلاعات یوں عام کر دی جاتی ہیں کہ اخبارنویس ٹی وی چینلز پر بیٹھے ٹاک شوز میں انکشافات کر رہے ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا، کبھی نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تو کبھی کوئی فوجی انقلاب کامیاب نہ ہو، ہر سازش کو بروقت ناکام بنایا جاتا رہے۔
دوسری بات یہ کہ ریٹائرڈ فوجی افسر کبھی حقیقی معنوں میں باخبر نہیں ہوتے۔ فوج کا اصول ہے کہ جو شخص وہاں سے ریٹائر ہوا، اس پر اندر کی خبروں کے دروازے بند ہوگئے۔ اب ان کے وہ شاگرد فوجی افسر جو اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گئے، وہ بھی اپنے سابق افسران کی عزت تو کریں گے، انہیں پروٹوکول کے ساتھ چائے پلائیں گے، کوئی اور مدد درکار ہو تو ضرور کریں گے، مگر یہ نہیں کہ اندر کی خبریں انہیں دی جائیں۔ یہ صرف پاکستانی فوج ہی نہیں، دنیا بھر کی عسکری افواج کا بنیادی اصول ہے۔
اس لیے نیوز ٹاک شوز میں بیٹھے ریٹائرڈ فوجی افسران جو کچھ بھی کہہ رہے ہوں، اس پر فوری یقین نہیں کرنا چاہیے۔اس کا تجزیہ کریں، غور کریں اور پھر فیصلہ کریں۔ ان ریٹائر افسران کا تمام تر دارومدار چھوٹی موٹی تقریبات میں شرکت کر کے ڈرائنگ روم گوسپ یعنی افواہیں سن کر ان کی بنیاد پر اپنے دعوے کرنے پر ہے۔ فوج میں یہ کام کرتے رہے، بنیادی چیزوں سے واقف ہوتے ہیں، ملٹری مائنڈ سیٹ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، کوئی بھانجا، بھتیجا فوج میں ہے تو گپ شپ کے دوران کوئی ایک آدھ فقرے سے کچھ اندازہ لگا لیا، بس، یہی ان کا مبلغ علم اور انکشافات ہیں۔
ریٹائرڈ افسران تو ایک طرف حاضر سروس فوجی افسران کے پاس بھی محدود علم ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی آرمی میں ”نیڈ ٹو نو“ کا اصول چلتا ہے یعنی جسے جتنی ضرورت ہے، صرف اتنا ہی بتایا جائے۔ حتیٰ کہ عین ممکن ہے کہ ٹو سٹار یا تھری سٹار سطح کا جرنیل بھی اہم ترین پلان سے بے خبر ہو۔ جب بھی کہیں فوجی بغاوت آئی، اس کا خبر آرمی چیف کے علاوہ چند ایک جرنیلوں کو ہوتی ہے، بعض کو اندازہ ہوتا ہے، کچھ شیئرنگ ہوتی ہے، مگر وقت کا علم نہیں ہوتا۔ یہ صرف وہی جرنیل جانتا ہے، جس نے منصوبے پر عمل کرنا ہو۔ اس لیے مارشل لا کے آنے ، نہ آنے کے بارے میں تیقن سے کوئی بات نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اس کے پاس یہ خبر ہے تو وہ جھوٹا ہے۔
ہاں! کچھ اشاریے ایسے ہوسکتے ہیں، جن سے باخبر لوگ، تجربہ کار صحافی یا اہم شخصیات اندازہ لگاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں مارشل لا سے پہلے کچھ حالات پیدا ہوتے ہیں، مارشل لا کے بعد کی صورتحال سنبھالنے کی کچھ نہ کچھ پلاننگ ہوتی ہے تو کچھ اس کے شیڈز بھی جھلک مارتے ہیں۔ بعض لوگوں سے خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، شریف الدین پیرزادہ جیسے قانونی جادوگر یاد آنے پڑتے ہیں، بین الاقوامی انڈیکیٹرز کو دیکھا جاتا ہے، معیشت، سٹاک ایکسچینج کو بغور دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔ پہلے امریکہ، سعودی عرب وغیرہ کے سفارت خانے بھی متحرک ہوا کرتے تھے، اب چین بھی ایک بڑا سٹیک ہولڈر ہے، وہاں بھی نظروں کا تبادلہ ہونا لازمی ہے۔
طے یہ پایا کہ ہمارے پاس خبر نہیں ہے اور ہم صرف کڑیاں جوڑ سکتے ہیں، ان کی بنیاد پر تجزیہ کر سکتے ہیں۔ یہاں پر ہم سے مراد اچھے خاصے جغادری صحافی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ اب اس میں بھی یہ یاد رہے کہ بسا اوقات مارشل لا کی تیاری ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ حکومت بدلنے کی تیاری پوری ہوتی ہے، مگر کوئی ایسا خارجی فیکٹر آ جاتا ہے، جس کی بناپر حکومت کو کچھ وقت مل جاتا ہے۔ یہ خارجی فیکٹرز بہت سے ہوسکتے ہیں۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ اگر اگست 2010ء میں سیلاب نہ آجاتا تو زرداری صاحب گئے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہالبروک نے زرداری صاحب کو تین چار ماہ کی مہلت دلوائی، مگر بعد میں خود ہالبروک ہی اچانک برین ہیمریج سے مر گیا، اور سب پلان چوپٹ ہوگیا۔ اس طرح کے کئی فیکٹرز ہو سکتے ہیں، ہوتے رہتے ہیں۔
اب نواز شریف مائنس والی بات لے لیں۔ اسے حوالے سے دو تھیوریز ہیں، دو الگ الگ کیمپ ہیں، جن کے پاس اپنی تھیوریز اور اپنے دلائل ہیں۔ دو سال پہلے بھی یہی پوزیشن تھی۔ ہمارے جاننے والوں میں لاہور کا کیمپ پورے زور و شور سے میاں صاحب کی رخصتی کی بات کر رہا تھا اور اندازہ یہی تھا کہ صرف تین دنوں میں کام ہوجائے گا۔ غالباً عمران خان بھی اس وقت یہی سمجھتے تھے۔ دوسری طرف اسلام آباد کے دوستوں کا خیال تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا اور میاں صاحب کہیں نہیں جا رہے۔ بعد میں اسلام آبادی کیمپ درست نکلا، مگر بات غلط لاہوریوں کی بھی نہیں تھی، تیاری پوری تھی، معاملات اسی طرف چلے، مگر شاید کپتان اتنے لوگ اکٹھے نہ کر سکا، دھرنا قبل از وقت تھا، صرف ایک سال حکومت کو ہوا تھا، میاں صاحب نے پوری پارلیمنٹ اکٹھی کر کے اپنے ساتھ لگا لی تھی اور پھر جاوید ہاشمی نے عین وقت پر خان کو بڑا دھچکا لگایا، سب سے بڑھ کر یہ چیف نے تبدیلی کی حمایت نہ کی اور یوں کچھ نہ ہوا۔
اس بار ایک حلقے کا خیال ہے کہ میاں صاحب نے فوج کو بطور ادارہ اپنا مخالف بنا لیا ہے، ان کے ذہن میں فوج کے خلاف بغض اور ناپسندیدگی اس قدر زیادہ موجود ہے کہ ان کا کسی بھی چیف کے ساتھ معاملہ چلنا مشکل ہے۔ کچھ نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن پر مبینہ طور پر میاں صاحب کا مؤقف درست نہیں، وہ آگ سے کھیل رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا بڑا فیکٹر سیریل المیڈہ والا معاملہ ہے۔ اس خبر کی فراہمی بہت سنگین ایشو ہے اور پرویز رشید کی قربانی سے یہ معاملہ ٹلنے والا نہیں کہ اس جرم کے کھرے میاں صاحب کے اپنے گھر والوں تک جاتے ہیں۔ میاں صاحب پر دباؤ موجود ہے اور ان کے لیے فیصلہ کن لمحہ کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔ تیسرا مسئلہ عمران خان ہے۔ حکومت نے اسے بری طرح مس ہینڈل کیا ہے اور خاص طور سے خیبر پختونخوا کو جس طرح پورے ملک سے کاٹ دیا گیا، سڑکوں پر کنٹینر رکھ دیے گئے اور پنجاب پولیس کو عملاً خیبر پختوں خوا کی پولیس کے سامنے کھڑا کر دیا، یہ بہت خطرناک حرکت تھی۔ اگر یہ تصادم بڑھا تو خدانخواستہ بہت ہی پریشان کن صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ ایسی صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا کسی کے بھی لیے ممکن نہیں رہےگا۔ تاہم اس میں بہت سے اف اینڈ بٹ یعنی اگر مگر ہیں۔ ایک ضمنی بات کاکڑ فارمولا کی بھی کی جاتی ہے، یعنی نواز شریف بھی جائیں اور ان کے مخالف بھی، کسی کو کچھ نہ ملے اور پھر عام انتخابات کی طرف بات چلی جائے۔
دوسرا حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ میاں نواز شریف کو ہٹانا ممکن ہیں۔ ان کے خیال میں میاں صاحب طے کر چکے ہیں کہ وہ استعفی نہیں دیں گے۔ اس لیے ایم کیو ایم سٹائل کا مائنس ون ہونا تو ممکن نہیں۔ اپنی پارٹی پر میاں صاحب کی گرفت مضبوط ہے اور مائنس نواز مسلم لیگ وجود میں آنا بہت مشکل ہے۔ دوسرا اس حلقے کے خیال میں موجودہ عالمی اور خطے کے حالات کو دیکھتے ہوئے مارشل لا یا حکومت کی تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔ سی پیک پاکستان کے لیے بہت اہم ہے اور سی پیک کے لیے سویلین حکومت کا سامنے ہونا ضروری ہے، خاص کر میاں صاحب کو بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کے ساتھ مولوی فضل الرحمن کی حمایت حاصل ہے جو بصورت دیگر سی پیک پر مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اس حلقے کے خیال میں عمران خان بھی بھرپور عوامی احتجاج کرنے میں ناکام رہے ہیں، پنڈی، اسلام آباد میں وہ تیس چالیس ہزار لوگ باہر نکال لیتے، لاہور میں لوگ باہر نکل آتے، ملک بھر میں احتجاج ہوتا تو پھر شاید ایسا ہونا ممکن سکتا ہے۔ موجودہ صورت میں تو تحریک انصاف زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی اور چند سو لوگ گرفتار اور اس سے بھی کم باہر آئے ہیں۔ اتنا کمزور عوامی احتجاج غیر سویلین قوتوں کی مداخلت کی راہ نہیں کھولتا۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ فوج خود بھی ایسا نہیں چاہتی، آرمی چیف کا ایسا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی فوجی قیادت مجموعی طور پر ایسا سوچتی ہے ۔ فوج کئی محاذوں پر الجھی ہے اور سیاست میں الجھنا اس کی خواہش نہیں۔
یہ رہے دونوں کیمپس کے دلائل اور پوائنٹس۔ صورتحال واقعی دلچسپ ہے، مگر یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں ہر کوئی اپنی وش فل تھنکنگ کے تحت تجزیے کر رہا ہے۔ حکومت نے بڑے بلنڈرز کیے ہیں، مگر حکومت کا جانا اور سسٹم کا لپیٹا جانا بھی درست نہیں۔ ملکی حالات واقعی اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔حالات مگر سنوارنے پڑیں گے، ورنہ اگر کشیدگی بڑھتی گئی تب بھی یہ آگ ہر ہاتھ کو جلا دے گی۔ ایک بات اور یاد رکھیں کہ عدلیہ کا کردار بھی اس پورے معاملے میں بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے بہت اہم دن کل یعنی یکم نومبر کا ہے، جب عدالت میں یہ کیس شروع ہوگا۔ عدالت کا موڈ اور پہلے دن کی کارروائی خاصی حد تک دھند صاف کر دے گی ۔

Comments

Avatar photo

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment