ہوم << ذاکر نائیک، دہشت گرد یا مبلغ اسلام؟ - اسامہ عبدالحمید

ذاکر نائیک، دہشت گرد یا مبلغ اسلام؟ - اسامہ عبدالحمید

گزشتہ پچیس سال میں عالمی سطح پر اسلام کی پہچان بننے والی شخصیات میں سے نمایاں ترین نام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ہے۔ دنیا بھر کا سفر کرکے اپنے حیرت انگیز حافظے کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے لاکھوں لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا، اسلام اور قرآن مجید پہ ہونے والے مختلف اعتراضات کا انتہائی مدلل انداز میں جواب دیا۔ اسلام کے مقابلے میں دیگر مذاہب میں در آنے والی خامیوں کی نشاندہی کی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کو اسلام میں لانے کا موثر ذریعہ ثابت ہوئے۔ موجودہ دور میں جبکہ اسلام سے منسلک ہر شخصیت اور ہر ادارے کو متنازع بناکر اس کا دائرہ کار محدود کرنے کی کوششیں اپنے عروج پہ ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی ایک مرتبہ پھر الزامات کی زد میں ہیں اور ان الزامات کو لے کر انٹرنیٹ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان کی کردار کشی جاری ہے۔ تازہ الزامات کے حوالے سے بات کرنے سے قبل ڈاکٹر صاحب کے ماضی پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اکتوبر 1965ء میں بھارتی شہر ممبئی میں جنم لینے والے ذاکر عبدالکریم نائیک بنیادی طور پر میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ بھارت ہی کی مختلف یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے میڈیکل پریکٹس شروع کی۔ 1987ء میں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور مبلغ اسلام شیخ احمد دیدات سے ہوئی۔ نوجوان ذاکر نائیک شیخ احمد دیدات سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے بھی اسی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ 1991ء میں انھوں نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامک انٹرنیشنل سکول اور ”یونائیٹڈاسلامک ایڈ“ نامی این جی او بھی قائم کی، جس کا بنیادی مقصد غریب مسلمان نوجوانوں کو وظائف دے کر دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے قابل بنانا تھا۔ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی نگرانی میں ہی بعد ازاں ”پیس ٹی وی چینل“ کا آغاز بھی کیا گیا جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے علاوہ معروف پاکستانی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اورخلیل الرحمٰن چشتی کے دروس اور لیکچرز نشر کرتا ہے۔
ان اقدامات کے ساتھ ذاکر نائیک نے لیکچرز اور مباحثوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان لیکچرز میں زیادہ تر اسلام اور جدید سائنس،اسلام اور عیسائیت،اسلام اور الحاد اور اسلام اور ہندو مت جیسے موضوعات پہ بات کی جاتی ہے۔ ذاکر نائیک کے بقول ان کے پیش نظر بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی موجودہ نوجوان نسل جو مذہب کے حوالے سے مغربی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر دیگر مذاہب کی طرح اسلام کو بھی ایک فرسودہ مذہب سمجھنے لگ گئی ہے، کے ذہنوں کو اپیل کیا جائے اور اس حوالے سے ان کے ذہنوں میں موجود سوالات کا جواب دیا جائے۔ انھوں نے روایتی مذہبی حلیہ اختیار کرنے کی بجائے پینٹ کوٹ اور ٹائی پہننے کو ترجیح دی اور انگریزی کو اپنا ذریعہ ابلاغ بنایا۔ چنانچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم تیزی سے ان کی جانب متوجہ ہوئے اور ان کے پروگرامات میں شرکاء کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جو خوبی انھیں دیگر اہل علم سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا حیرت انگیز حافظہ ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ بائبل اور ہندومذہب کی مقدس کتب کی عبارات انھیں حوالوں سمیت اس حد تک یاد ہیں کہ وہ دوران گفتگو بغیر کسی معاون کے،ان عبارات کا باب نمبر اور صفحہ نمبر تک بتا دیتے ہیں۔ وہ اسلام کے حوالے سے شرکاء کے سوالات کے اتنے اطمینان بخش جواب دیتے ہیں کہ ان کے ایک ایک پروگرام میں بیسیوں افرادکلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اب تک بلامبالغہ ہزاروں افراد کو مسلمان کرچکے ہیں۔2000 میں شکاگو میں ایک عیسائی مناظر سے ان کے مناظرےکے بعد کئی ہزار افراد نے ان کے ہاتھ پہ اسلام قبول کیا۔
2006 میں ذاکر نائیک کی ملاقات شیخ احمد دیدات سے ہوئی تو شیخ احمد دیدات ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ اسی مجلس میں شیخ دیدات نے انھیں "دیدات پلس" کے خطاب سے نوازا۔ ان کی اہلیہ فرحت نائیک اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ویمن سیکشن کی انچارج ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی شخصیت بعض حوالوں سے تنقید کی زد میں رہتی ہے مثلاً واقعہ کربلا کے تناظر میں ان کا ایک خاص موقف ہے جسے برصغیر کے مذہبی ماحول میں قبول کرنا خاصا مشکل ہے۔ تاہم اسلام کے ابلاغ کے حوالے سے خدمات ان کی متنازعات پہ غالب ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی ایک ایسا سلگتا موضوع ہے کہ اس بارے میں مین سٹریم سے ہٹ کر کوئی موقف رکھنا دریا کے بہاؤ کے الٹ بہنے کے مترادف ہے۔ عالمی میڈیا ٹوہ میں رہتا ہے کہ مسلم سکالرز کی کوئی دکھتی رگ ہاتھ میں آئے جس کو بنیاد بناکر ان پہ کیچڑ اچھالا جاسکے۔ بالخصوص اسامہ بن لادن کی شخصیت اور اس کے کردار پہ آپ کی وہی بات قبول کی جاسکتی ہے جو امریکہ اور غیر مسلم طاقتوں کے موقف سے ہم آہنگ ہو۔ چند سال قبل ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اسامہ بن لادن کے بارے میں ان کا موقف دریافت کیا گیا تو انھوں نے اسامہ کو دہشت گرد ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اسامہ بن لادن سے اس کی زندگی میں کبھی ملے ہی نہیں اور نہ ان کے پاس اس پہ لگائے گئے الزامات کا کوئی ثبوت ہے تو وہ اسے دہشت گرد کیسے مان سکتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ نائن الیون میں اسامہ کے کردار سے انکار کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ نائن الیون صرف ایک اندرونی ڈرامہ تھا جو جارج بش اور اس کے حواریوں نے مسلمان ممالک پہ حملے کے لیے رچایا تھا۔ اس میں بیرونی عناصر کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
ایک اور انٹرویو میں ذاکر نائیک سے سوال کیا گیا کہ آیا قرآن میں مسلمانوں کو دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ انھوں نے اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا کہ جس طرح ایک ڈاکو کے لیے پولیس والے کی دہشت ہوتی ہے اور وہ اس سے مرعوب ہوتا ہے اس طرح ایک مسلمان کی دہشت اتنی ہونی چاہیے کہ سماج مخالف عناصر اس سے خوف زدہ رہیں۔ان معنوں میں انھوں نے ہر مسلمان کو دہشت گرد قرار دیا۔ تاہم انھوں نے اسی گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ اسلام معصوم افراد کے بہیمانہ قتل کی کسی طور اجازت نہیں دیتا اوراسی وجہ سے وہ خود بھی اس کے مخالف ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں جگہ دی گئی ۔ ایسے ہی بیانات کی بنیاد پہ کینیڈا اور برطانیہ میں ذاکر نائیک کا داخلہ ممنوع قرار پایا اوربھارت نے بھی 2012 میں پیس ٹی وی کی نشریات کو انتہائی قابل اعتراض قرار دے کر ان پہ ملک بھر میں پابندی عائد کر دی۔
حالیہ دنوں میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں آئے جب رمضان المبارک میں وہ عمرے کے لیے سعودی عرب میں موجود تھے۔ اسی دوران بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک کیفے پہ حملے میں کئی غیر ملکی ہلاک ہوگئے۔ چند گرفتاریوں اور تفتیش کے بعد بنگالی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ڈھاکہ حملے میں ملوث دہشت گرد ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیروکار تھے اور وہ ان کے اس بیان سے متاثر تھے کہ مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے پیس ٹی وی چینل کی نشریات پہ فوری پابندی عائد کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے سفارش کی کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش کرے۔ چونکہ ان دنوں ڈھاکہ اور نئی دہلی میں ویسے ہی گاڑھی چھنتی ہے لہٰذا بھارتی وزارت داخلہ نے فوری طور پہ ایک کمیٹی قائم کرکے اس قضیے کی تحقیقات اس کے ذمے لگائیں۔اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سیکرٹری اطلاعات نے اعلان کیا کہ جو کیبل آپریٹرز ابوطبی سے آن ایئر ہونے والی پیس ٹی وی کی نشریات بھارت میں چلائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اسی دوران ممبئی میں واقع اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس کا محاصرہ کرلیا گیا جو کئی گھنٹے جاری رہا۔ تاہم اس کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ ڈھاکہ کیفے حملے میں ذاکر نائیک کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے۔ وزرات داخلہ اب اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا فاؤنڈیشن اور پیس ٹی وی کو واقعی بیرونی ممالک بالخصوص سعودی عرب سے امداد ملتی ہے۔
ذاکر نائیک نے مکۃ المکرمہ سےجاری ایک ویڈیو بیان میں ان الزامات پر افسوس کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ انھیں اور ان کے ادارے کو منصوبہ بندی کے تحت پھنسا کر اس کا کردار محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں اور انھوں نے کبھی معصوم شہریوں کے قتل حوصلہ افزائی نہیں کی۔
طرفہ تماشا یہ ہے ایک جانب عالمی میڈیا نے ذاکر نائیک کی پریس کانفرنس کی کوریج کرنے سے معذرت کرکے ان کا موقف دنیا تک پہنچانے سے انکار کیا ہے تو دوسری جانب چند نادان مسلمان فرقہ وارانہ منافرت کو بنیاد بنا کر ذاکر نائیک کے خلاف عالمی پروپیگنڈے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو ممبئی کی ایک بڑی جامع مسجد کے علماء نے نماز جمعہ کے بعد ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ا س مظاہرے کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک کی قد آدم تصاویر پہ گوبر اور جوتے اچھال کر ان سے نفرت کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح بھارت کی ایک تنظیم حسینی ٹائیگرز نے ذاکر نائیک کے سر کی قیمت پندرہ لاکھ روپے مقرر کر دی ہے۔ان واقعات کی آڑ میں فرقہ پرستوں کو ذاکر نائیک کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع تو مل گیا ہے تاہم انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ
؎چراغ سبھی کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

Comments

Click here to post a comment