ہوم << تپش کی دقت - رضوان اسد خان

تپش کی دقت - رضوان اسد خان

رضوان اسد خان تانیہ اپنی بیٹی کے ماس سے عاری، دھان پان سے بازو پر بال پین سے بنے نیلے دائرے کے عین درمیان، خون کے ننھے سے سرخ قطرے کا نشانہ لیے نجانے کب سے نگاہیں جمائے بیٹھی تھی. لیکن بغور دیکھنے والا کوئی بھی شخص بتا سکتا تھا کہ یہ نظریں اس ”تختہ مشق“ سے آر پار ہوتی دور کہیں خلاؤں کی وسعتوں تک کو ماپ رہی ہیں.
”تختہ مشق“؟
اور نہیں تو کیا. جا بجا ڈرِپوں، ٹیکوں اور خون کے نمونوں کے لیے سوئیوں سے چھلنی، نیلوں نیل یہ بازو؛
اور پھر اس پہ بنا نشانہ بازوں کے تیروں کے ”ہدف“ جیسا یہ نشان، ابھی پھر ایک سرنج کا نشانہ بن کر اب اس کی نشانی کا کام کر رہا تھا.
لیب والے نے پین سے دائرہ لگا کر اپنے ”ستم“ کی تاریخ بھی ساتھ ہی ”رقم“ کر دی تھی: 10-9-2016, 9am
”بی بی، اس کو 3 دن تک مٹنے نہیں دینا. اس ٹیکے کا اثر ٹھیک 72 گھنٹے بعد مجھے چیک کروانا ہے. ٹھیک ہے؟“
اس نے خاموشی سے سر ہلا دیا تھا.
اور پھر دوبارہ سے اس نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے، سوچوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا:
دو سال قبل سب کچھ کتنا پرسکون تھا ناں جب تانیہ نے شرماتے لجاتے، اپنے شوہر دانش کو ”خوشخبری“ سنائی تھی. دانش نے تو خوشی سے چلا کر اسے بے اختیار گود میں اٹھا لیا تھا اور دو چار چکر بھی دے ڈالے.
”ہم اس کا نام دانیہ رکھیں گے. دانش اور تانیہ کی بیٹی دانیہ.“ وہ تو نام بھی سوچ چکا تھا.
”اور اگر لڑکا ہوا تو؟“ اس نے شرارت سے پوچھا.
”نہیں. مجھے پتہ ہے کہ لڑکی ہی ہوگی. تمہیں کیا پتہ میں نے بیٹی کے لیے کتنی کے دعائیں کی ہیں.“
اور وہ اس کی معصومیت پر مسکرا کر رہ گئی تھی.
اور پھر ایک دن دانیہ چیختی چلاتی اس دنیا میں کیا آئی، دانش اور تانیہ کی تو دنیا ہی بدل گئی.
”دیکھا، میں نہ کہتا تھا.“ اور تانیہ پھر سے مسکرا دی.
یوں ان کی کائنات کا محور دانیہ میں مرکوز ہوگیا. اسے چھینک بھی آتی تو دونوں رات بھر جاگتے رہتے. اس کی ہر نئی ادا کو کیمرے میں محفوظ کرتے. وہ پہلی بار کب مسکرائی، گردن کب اٹھائی، کروٹ کب لی، بیٹھنا کب شروع کیا اور کب اس نے چلنا شروع کر کے آزادی کا پہلا اظہار کیا، انہیں ہر چیز یاد تھی.
جب دانیہ 6 ماہ کی ہوئی تو تانیہ نے پھر سے سکول جوائن کر لیا اور درس و تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا. دانیہ کے لیے انہوں نے ایک آیا کا بندوبست کر لیا جو سارا دن سکول میں ہی بنے ڈے کئیر سنٹر میں دانیہ کی دیکھ بھال کرتی. وہاں دوسری ملازماؤں اور بچوں کے ساتھ دانیہ بھی بہلی رہتی اور وقتاً فوقتاً تانیہ بھی اسے آ کر دودھ پلا جاتی. وہ جانتی تھی کہ بچے کے ساتھ ماں کی محبت اپنے خون سے بنا دودھ پلائے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی.
دیکھتے ہی دیکھتے دانیہ کی پہلی سالگرہ بھی آ گئی جسے بڑی دھوم دھام سے منایا گیا. پروں والے سفید فراک میں وہ بالکل تتلی لگ رہی تھی اور تتلی ہی کی مانند ادھر سے ادھر سب کی نگاہوں کا مرکز بنی گویا ہوا میں اڑتی پھر رہی تھی.
لیکن پھر یوں لگا کہ اس ہنستے بستے کنبے کو کسی کی نظر کھا گئی ہو. دانش اگلے ہی روز دفتر سے واپس آ رہا تھا کہ ایک ٹرک والے کی غفلت کا شکار ہو گیا اور اپنے ساتھ ساتھ تانیہ اور دانیہ کو بھی اللہ کے سپرد کر گیا.
پھر تو تانیہ کو لگا کہ دانش گویا تسبیح کا دھاگہ تھا جو ٹوٹ گیا، جس کے بعد مصائب یکے بعد دیگرے اس طرح نازل ہونا شروع ہوگئے، جس طرح تسبیح کے دانے پے در پے گر رہے ہوں. ابھی سوگ کے تین دن پورے ہوئے ہی تھے کہ دانیہ کو بخار نے آ لیا. شدید کھانسی اور سانس میں دقت اتنی کہ لگتا تھا کہ بس ابھی گئی اپنے باپ کے پیچھے.
تانیہ نے سب کچھ بھول کر اسے اٹھایا اور ہسپتال کی جانب بھاگی. ایمرجنسی میں آکسیجن اور بھاپ سے حالت قدرے سنبھلی تو تانیہ کی جان میں جان آئی اور وہ دانیہ کو گلے سے لگا کر رونے لگی. روتے ہوئے پاگلوں کی طرح دانیہ سے پوچھنے لگی کہ کیا تو بھی مجھے اکیلا چھوڑ جائے گی؟ تو بھی چلی گئی تو میں زندہ رہ کر کیا کروں گی.
دانیہ کو پورا ہفتہ ہسپتال میں داخل رکھنے کے بعد چھٹی ملی. تانیہ کو لگتا تھا کہ گویا وہ دوبارہ پیدا ہوئی ہے اور اتنی دردیں سہنے کے بعد اسے یہ انعام ملا ہے جسے وہ گود میں لیے گھر جا رہی ہے.
لیکن بات یہاں ختم ہو جاتی تو تب ناں.
تب سے اب تک چھ ماہ کے دوران دانیہ کو یہ چوتھی بار نمونیہ ہوا تھا اور یہ چوتھا اور سب سے مہنگا ہسپتال تھا جہاں وہ اس وقت موجود تھی. بچی سوکھ کر کانٹا بن چکی تھی، بھوک بالکل نہ لگتی تھی اور بخار تھا کہ اترنے کا نام نہ لیتا تھا.
اس بار شہر کے معروف چائلڈ سپیشلسٹ پروفیسر قاضی اسے دیکھ رہے تھے. وہ جیسے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے، تانیہ چونک کر خیالوں کے دیس سے واپس آئی، سیدھی ہو کر اس نے سر پر چادر درست کی اور سارے جہان کی امید کو اپنی ان دو آنکھوں میں بھر کر، جو رو رو کر چنی سی ہو چکی تھیں، قاضی صاحب کے متفکر چہرے کو تکنے لگی.
”السلام علیکم مس تانیہ. کیسی ہیں آپ؟“
قاضی صاحب کی رعب دار مگر شفقت بھری آواز گونجی.
”ڈاکٹر صاحب، دانیہ کی رپورٹس آ گئیں؟ کیا آیا ہے ان میں؟ کہیں کوئی خطرناک بیماری تو نہیں؟ یہ ٹھیک کیوں نہیں ہو رہی؟“ اپنی تو اسے کیا فکر ہونا تھی، دانیہ کے بارے میں اس نے سارے سوال ایک ہی سانس میں داغ دیے.
”دیکھیں مس تانیہ میں آپ کے کرب کا اندازہ کر سکتا ہوں لیکن چونکہ یہ میری آپ سے پہلی ملاقات ہے اور پہلے میرے جونئیر ساتھی آپ کی بچی کو دیکھ رہے تھے، لہٰذا کچھ بھی کہنے سے قبل میں آپ سے چند سوالات کرنا چاہوں گا.“
”جی ضرور، ڈاکٹر صاحب. کیوں نہیں.“
”آپ کی بچی کی اس وقت کتنے ماہ کی ہے؟“
”سترہ ماہ، تین ہفتے اور چار دن.“ تانیہ کو تو اس کی زندگی کا گویا ایک ایک دن یاد تھا.
”کیا آپ نے اسے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروایا تھا؟“
”جی سر. مقررہ تاریخوں سے ایک دن بھی آگے یا پیچھے نہیں ہوا.“
”لیکن اس کے بازو پر پیدائشی ٹیکے کا نشان نہیں ہے. کیا اس ٹیکے کے بعد یہاں پھوڑا بنا تھا؟“
”نہیں سر. اور ہم تو بڑے خوش تھے کہ ہماری بچی اس بدصورت دھبے سے بچ گئی.“
”اوہو! اس بدصورت دھبے کا بننا ہی تو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ٹیکا درست طریقے سے لگا ہے اور اثر کر رہا ہے. بہرحال، یہ بتائیں کہ کیا آپ کے خاندان میں کسی کو پرانی کھانسی تو نہیں، جس کے ساتھ بلغم بھی آتا ہو اور بخار اور تھکن بھی رہتی ہو؟“
”نہیں ڈاکٹر صاحب، ہماری فیملی میں تو دور دور تک ایسی کوئی بیمار نہیں.“
پھر کچھ سوچ کر تانیہ بولی، ”ہاں البتہ اس کی میڈ کو میں نے اکثر کھانستے دیکھا ہے اور وہ ہے بھی بہت کمزور سی. میں نے اکثر اسے منہ ڈھانپ کر کھانسنے کو کہا ہے، پر وہ احتیاط نہیں کرتی. مجھے لگتا ہے اسے شہر آ کر الرجی ہوگئی ہے.“
”ہمم. ہم اسے بھی دیکھنا چاہیں گے اور اس کے ٹیسٹ بھی ضروری ہیں.“ پروفیسر قاضی نے بات جاری رکھی، ”کیا دانیہ کو کبھی خسرہ یا کالی کھانسی کا مسئلہ ہوا؟“
”ہائے اللہ. نہیں سر. ایک سال سے پہلے تو اسے کبھی نزلہ زکام بھی نہیں ہوا. آپ تو اتنی خوفناک بیماریوں کے نام لیکر مجھے ڈرا رہے ہیں.“
”میں معذرت چاہتا ہوں، پر یہ ایک نا پسندیدہ مجبوری تھی. تو بات یہ ہے مس تانیہ، کہ آپ کی بچی کا کیس کافی پیچیدہ تھا. مسلسل بخار اور وزن میں کمی کے علاوہ اس کے جگر اور تلی کا سائز بھی پیٹ کے معائنے کے دوران کافی بڑھا ہوا پایا گیا. اب ہمارے سامنے کئی ایک بیماریاں تھیں جن کی اس میں موجودگی ممکن تھی اور ان میں سب سے تشویشناک کینسر کا امکان تھا.“
ایک آہ کے ساتھ تانیہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ قاضی صاحب نے اشارے سے اسے روکتے ہوئے بات جاری رکھی، ”.... لیکن خوش قسمتی سے تمام ٹیسٹوں میں ہمیں دور دور تک اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا.“
تانیہ کی سرد آہ اطمینان کے سانس میں بدل گئی.
”دیکھیں مس تانیہ ہماری تشخیص اور اس کے چھاتی کے ایکسرے کے مطابق دانیہ کو پھیپھڑوں کی ٹی بی ہے جو کہ باقی جسم، خصوصاً جگر، تلی اور ان سے منسلک غدود تک پھیل گئی ہے. لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ لاعلاج نہیں. ہم نے ٹریٹمنٹ شروع کر دیا ہے اور ان شاءاللہ دو ہفتے کے اندر آپ کو دانیہ میں واضح بہتری نظر آئے گی.“
”لیکن سر ہماری اتنی احتیاط کے باوجود اسے یہ موذی مرض کیسے لگ گیا؟“
”ستم ظریفی یہ ہے مس تانیہ، کہ 'اتنی احتیاط' کے باوجود آپ کی احتیاط مکمل نہیں تھی. پہلی بات یہ کہ جب ٹی بی سے حفاظتی ٹیکے کا نشان نہیں بنا تھا، تو آپ کو کسی چائلڈ سپیشلسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے تھا.
پھر جب آپ نے اس کے لیے آیا کا بندوبست کیا تو اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ وہ مکمل طور پر صحتمند ہو. ہمارے اندازے کے مطابق دانیہ تک ٹی بی کے جراثیم اسی کے ذریعے پہنچے ہیں.“
”اوہ...!!! تو سر یہ جو آج اسے ٹیکہ لگا ہے، کیا یہ بھی کوئی ٹیسٹ ہے؟“
”جی یہ بھی تپ دق کا ٹیسٹ ہے. اگر یہ پازیٹو آیا تو ہماری تشخیص کی مزید تصدیق ہو جائے گی.“
”ڈاکٹر صاحب کیا دانیہ سے یہ بیماری دوسرے بچوں یا بڑوں کو لگ سکتی ہے؟“
”نہیں. اللہ نے یہاں بھی بچوں کو معصوم ہی رکھا ہے. ان کی کھانسی میں اتنی طاقت ہی نہیں ہوتی کہ یہ ٹی بی کے جراثیم ہوا میں منتقل کر سکیں، جو کہ دوسروں تک سانس کے ذریعے پہنچ کر بیماری پیدا کرتے ہیں.“
”ڈاکٹر صاحب اتنا خطرناک مرض اس ننھی سے جان کے لیے زیادتی نہیں.“
”دیکھیں! اللہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ آپ تو شکر ادا کریں کہ جراثیم اس کے دماغ تک نہیں پہنچے، ورنہ تو ساری عمر کی معذوری کا خطرہ تھا.“
”واقعی سر! میں اللہ سے توبہ کرتی ہوں. یہ بتائیں کہ اس کا علاج کتنا عرصہ چلے گا؟“
”کم از کم ایک سال، بلا ناغہ، اس کی علامات تو ایک ماہ کے اندر غائب ہو جاتی ہیں پر جراثیم مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے. لوگ سمجھتے ہیں کہ مریض اب ٹھیک ہے اور دوا بند کر دیتے ہیں. لیکن آپ ایسا ہرگز نہ کیجیے گا کیونکہ اس صورت میں یہ دوا پھر اثر نہیں کرے گی اور بیماری نہایت خطرناک اور جان لیوا شکل اختیار کر سکتی ہے.“
”نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب، میں اس کے علاج میں ایک دن کی بھی کوتاہی نہیں کروں گی اور اسے باقاعدگی سے آپکو چیک بھی کرواؤں گی.“ تانیہ نے بچی کے چہرے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا.
.........
ٹھیک 30 سال بعد ٹی وی پر ایک رپورٹ چل رہی تھی اور اینکر پرسن بتا رہا تھا،
”ٹی بی کی پرانی ویکسین اس کے شدید حملے سے تو بچاتی تھی پر پھیپھڑوں کی ٹی بی سے اس کی حفاظت بہت کم تھی. اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اُس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے ہر تیسرے شخص میں اس موذی مرض کے جراثیم پائے جاتے تھے. اسی لیے ہمارے ملک کی ٹیم نے ایک نئی ویکسین پر کام شروع کیا اور اللہ کے فضل سے ہماری تیار کردہ ویکسین نے ٹی بی سے حفاظت میں 97 فیصد تک کے حیرت انگیز نتائج دیے ہیں اور تمام عالمی اداروں نے اسے معیاری قرار دیا ہے. یہ پاکستان کے لیے یقیناً ایک اعزاز ہے.
اس کے لیے ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ٹیم لیڈر، ڈاکٹر دانیہ کو.“

Comments

Click here to post a comment