”میرا بس چلے تو آیندہ پانچ سال کے لیے لڑکیوں پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی پابندی لگوادوں۔‘‘ پروفیسر صاحب نے غصے اور جھنجھلاہٹ سے کہا۔
’’آپ بالکل صحیح فرمارہے ہیں۔ میں بھی آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
میں نے حیرت سے دونوں شخصیات کو دیکھا اور وجہ جاننا چاہی تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے کرب سے کہا۔ ’’اس لیے کہ لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں ڈگری پہ ڈگری لیے جاتی ہیں اور جب ان کے معیار کے مطابق رشتہ نہیں ملتا تو قسمت کو کوستی ہیں۔ اعتراض مجھے اس لیے بھی ہے کہ شادی کو ڈگری سے کیوں مشروط کردیا گیا ہے؟ لڑکی اگر ماسٹر ڈگری ہولڈر ہے تو لڑکے کا بھی برابر کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوتا ہے، نتیجہ یہ کہ بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘
اور آپ کیا کہتے ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا۔
’’میں بھی ڈاکٹر صاحب کا ہم خیال ہوں۔ میری بیگم کی تعلیم شادی کے وقت صرف انٹر تھی اور میں اس وقت گریڈ 17 کا لیکچرر۔ میری والدہ نے بہت سوچ سمجھ کر یہ رشتہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی لڑاکا، جھگڑالو اور بدتمیز گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کے مقابلے میں آسیہ اس لیے اچھی لگی کہ اس نے ایک مہذب ماحول میں پرورش پائی تھی۔ بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں اور آسیہ واقعی بہت سمجھ دار اور دھیمے مزاج کی مالک تھی۔ اس نے میری والدہ، والد اور دونوں بہنوں سے اس طرح تعلقات رکھے کہ اس کی شرافت اور محبت کی بنا پر فوراً ہی اس کی دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی شادیاں ہوگئیں۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ برسوں سے بہت پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں نے کبھی اس بات کو ایشو نہیں بنایا کہ لڑکی بھی انھی کے برابر پڑھی لکھی ہو۔ خدا جانے یہ خناس کیوں لڑکیوں اور ان کے والدین کے دماغ میں سما گیا ہے کہ بہرصورت داماد نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ ملازمت کا حامل بھی ہو۔ اور اپنا ذاتی مکان بھی ہو، نوکری سرکاری ہو اور اکلوتا ہو تو کیا کہنے۔ شادی کے بعد علیحدہ گھر میں رہنا بھی ضروری ہے۔ یہی آج کل لڑکی والوں کی ڈیمانڈ ہے۔ اور اسی لیے کنواریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ طلاق کی شرح میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ بھی ہو رہا ہے۔‘‘
اچانک ڈاکٹر صاحب نے بیچ میں لقمہ دیا۔ دونوں پریشان تھے اور صحیح تھے۔
”دراصل اس ملک میں سب کچھ بغیر کسی پلاننگ کے ہوتا ہے۔ خاص طور سے تعلیمی میدان میں یہ وبا حد سے زیادہ ہے۔ ایک زمانے میں لوگ اپنی ذاتی دلچسپی اور صلاحیت کی بنا پر کسی شعبے کا انتخاب کرتے تھے۔ پھر اچانک خدا جانے کیوں سائنس کی تعلیم کی طرف مائل ہوگئے۔ وہ بھی طب کے شعبے کی طرف۔ ہر لڑکا اور ہر وہ لڑکی جس نے انٹر سائنس کرلیا۔ وہ صرف ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ میں نے جن کالجوں میں بھی پڑھایا، وہاں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی تعداد پری میڈیکل میں بہت زیادہ تھی۔ پھر ہوا یوں کہ بغیر کسی تحقیقی رجحان کے مالی منفعت کے لحاظ سے ڈاکٹری کا پیشہ طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی بھی اولین ترجیح رہی۔ لیکن اس بھیڑ چال کا نتیجہ یہ ہوا کہ M.B.B.S ڈاکٹروں کی ایک کھیپ تیار تو ہوگئی۔ مگر ان کے لیے سرکاری ملازمتیں نہیں تھیں۔ پھر یہ ریوڑ ڈاکٹروں کی زبوں حالی اور بے روزگاری دیکھ کر انجینئرنگ کے شعبے کی طرف مڑ گیا۔ اب پری میڈیکل کا ایک سیکشن اور پری انجینئرنگ کے چار چار سیکشن کالجوں میں بنانے پڑے۔ لیکن یہاں بھی وہی طلب اور رسد کے توازن کے بگاڑ کی بنا پر سارے کا سارا ریلہ کامرس کی تعلیم کی طرف مڑ گیا۔ اور پھر MBAاور کمپیوٹر سائنس کی طرف طلبا و طالبات نے دوڑ لگادی۔ نتیجہ سامنے ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی عالمی معیار پہ پوری نہیں اترتی۔ اور بھلا اترے بھی کیوں؟ یہ مال بنانے کی فیکٹریاں ہیں، جہاں نقل، سفارش اور جعلی ڈگریوں کا گٹھ جوڑ ہے اور خوب ہے۔“
لیکن جس خرابی کی طرف ہمارے محترم ڈاکٹر صاحب اور پروفیسر صاحب نے توجہ دلائی تھی وہ آج کا اہم مسئلہ ہے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلے کی بنیاد صرف میرٹ ہوتی ہے۔ عموماً لڑکیاں نمبر زیادہ ہونے کی وجہ سے داخلہ حاصل کرلیتی ہیں۔ اس طرح تناسب بگڑ جاتا ہے۔ 80 فیصد لڑکیاں محض وقت گزاری کے لیے تعلیمی استعداد بڑھاتی رہتی ہیں، جبکہ لڑکوں کو یہ نقصان ہوتا ہے کہ انھیں یا تو تعلیم چھوڑنی پڑتی ہے، یا پھر خاندان کی کفالت اور باپ بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے نوکری کرنی پڑتی ہے۔ لڑکیاں ماسٹرز کرکے رشتوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ لیکن بوجوہ ان کے من پسند رشتے جب نہیں ملتے تو پھر فرسٹریشن جنم لیتا ہے۔
ذرا گہرائی میں جاکر کھلی آنکھوں سے دیکھیے تو ہوش اڑا دینے والے واقعات جنم لیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی دونوں صاحبزادیاں ڈبل ایم اے ہیں۔ رشتے آتے تھے، مگر لڑکیوں کی ترجیح وہی تھی، آفیسر گریڈ، اعلیٰ تعلیم اور اپنا مکان، نتیجہ؟ دونوں کی شادی کی عمریں نکل گئیں تو وہ والدین سے بغاوت کر بیٹھیں۔ تفصیلات بتانا ممکن نہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ بے چارے پروفیسر صاحب لڑکیوں کی تعلیم ہی سے برگشتہ ہوگئے۔ اور ہمارے ڈاکٹر صاحب جن کے لیے ’’مسیحا‘‘ کا لفظ زیادہ بھلا لگتا ہے، وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ صرف ایک بہن شادی شدہ باقی کنواری۔ تینوں بہنیں کسی رشتے کو خاطر میں نہ لاتی تھیں، ایک وکیل، ایک جج، ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر۔ والدین بھائی بھاوج اور بڑی بہن کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود تینوں اپنے سے کم تعلیم یافتہ شخص سے شادی پہ راضی نہ ہوئیں۔ پھر عمریں ڈھلنے لگیں اور ایسے رشتے آنے لگے جن کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا تھا، یا وہ ذمے داریوں کی بھرمار کی وجہ سے وقت پہ شادی نہ کرسکے تھے۔
ایسے میں کراچی کے ایک کالج کی پرنسپل کی مثال دینا چاہوں گی۔ وہ بھی آئیڈیل اور معیار کے چکر میں ریٹائرمنٹ تک جاپہنچیں۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انھوں نے عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے صاحب جائیداد شخص کا رشتہ بخوشی قبول کرلیا جن کی بیوی کا ایک سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ دونوں بیٹے اور دونوں بیٹیاں سب شادی شدہ تھے۔ تب بہوؤں، بیٹوں اور بیٹیوں نے باہم مشورے سے سابق پرنسپل سے والد کا نکاح کروادیا۔ کالج کا اسٹاف حیران تھا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے تو خاتون کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں اور اب یہ کہ نانا دادا بن جانے والے صاحب سے برضا و رغبت شادی کے لیے تیار ہوگئیں۔ یہ کیونکر ہوا؟ تب انھوں نے دل گرفتہ لہجے میں اپنی ان چند قریبی ساتھیوں کو بتایا (جو خود بھی غیر شادی شدہ تھیں) کہ وہ بھی لیکچرر بننے کے بعد بہت اونچی ہواؤں میں اڑ رہی تھیں، کسی رشتے میں ماں باپ نقص نکال دیتے، کسی کو وہ خود ریجیکٹ کردیتیں، آہستہ آہستہ ان کی مانگ میں چاندی اگنے لگی۔ اور دونوں چھوٹی بہنوں کے رشتے آنے لگے، ان کا حشر سامنے تھا، بہنیں بھی ناخوش رہنے لگیں اور انھیں اپنے راستے کا پتھر سمجھنے لگیں۔ پھر گھر والوں نے ان کی پرواہ کیے بغیر دونوں بیٹیوں کی شادیاں انٹر اور بی اے کے بعد ہی کردیں۔ یہ اپنے گریڈ میں مست۔ پھر والدین کا بھی انتقال ہوگیا، بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں، وہ اپنی فیملی میں مست ہوگئے۔
تب انھیں احساس ہوا کہ شادیاں انسانوں سے ہوتی ہیں، ڈگریوں اور عہدوں سے نہیں۔ قصور وار ان کی والدہ زیادہ تھیں جنھوں نے بیٹی کے دماغ میں بٹھادیا تھا کہ روئے زمین پر کوئی اس کے قابل نہیں۔ اب تنہائی کے جنگل میں اکیلے پن نے انھیں اپنی غلطی کا احساس دلایا۔ تب انھوں نے یہ رشتہ برضا و رغبت قبول کیا۔ کسی ساتھی نے یہ بھی کہا کہ اس عمر میں شادی تو کرلو گی، لیکن اولاد کہاں سے لاؤگی؟ تب کسی دوسری پروفیسر نے کہا کہ بڑھاپے میں اصل ساتھی میاں بیوی ہی ہوتے ہیں۔ بچے ہیں بھی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سب اپنے اپنے گھونسلے بنا لیتے ہیں۔ آنگن ان کی چہکار کے لیے ترستا ہے۔ آج کئی سال ہوگئے ہیں اس شادی کو۔ سابقہ پرنسپل اپنے سوتیلے بیٹے کی فیملی کے ساتھ اوپر کی منزل میں رہائش پذیر ہیں۔ عید بقر عید پر سارے بچے انھی کے گھر جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی دستر خوان لگتا ہے۔ خاتون نے رشتے توڑنے اور شوہر کے خاندان سے نفرت کے بجائے محبتوں کی کیاری لگا کر پھول اگائے۔
(بشکریہ ایکسپریس)
سماجی زندگی کے بہت اہم اور حساس پہلو پر متوجہ کیا گیا ہے۔میرا احساس ہے کہ زیر نظر مسئلہ دوسرے نہیں تو ہر تیسرے مڈل کلاس گھرانہ کا ہے۔
تاھم اس پہلو پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا سماجی،تعلیمی اور ابلاغی سطح پر لڑکوں کی بھی تربیت،ذہن سازی کیجا سکتی ہے کہ وہ بھی معاشی طور پر بہتر ہونے کی صورت میں"حور پری" سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔بہرحال تجزیہ نگار ہمارے شکریے کی لائق ہیں کہ انہوں نے جاں بلب معاشرتی نبض پر ہاتھ رکھا ہے ورنہ آنکھیں چندھیا دینے والے مارننگ شوز اور قوم کو نفسیاتی مریض بنانے والے کرنٹ افییرز پروگرامز کے لئے یہ اور اس نوعیت کے سماجی چیلنجز نان ایشوز ہیں۔ ھماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ علما اور دینی جماعتیں بھی اس وژن سے بے بہرہ یا کم از کم لاتعلق ضرور ہیں ورنہ اگر گلی محلے کی مساجد کے خطیب اور علما اس نوعیت کے مسائل کو اپنی گفتگووں کا موضوع بنائیں تو صورتحال کو پہلے مرحلے پر مخاطب اور بعد ازاں بہتری کے اقدامات کی طرف پیشقدمی کی جاسکتی ہے
وقاص بھائی آپ سے اتفاق ہے، دینی حلقوں کو یہ ایشو زیادہ موثر انداز سے اٹھانے اور لوگوں کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بلاگ میں آج کا سلگتا ہوا مسئلہ اٹھایا گیا ہے، میں نے یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تو ہمارے اساتذہ بھی اسی درد کا اظہار کرتے رہتے، 8 طالبات میں سے 5 کنواری تھیں، پاکستانی اساتذہ تو حیا کے باعث کھل کر اظہار نہ کرتے مگر مصری اور سوڈانی کھل کر کہتے کہ جو مناسب رشتہ آئے اسے قبول کر لیں، یا یہ کہ پہلے گھر بسائیں پھر مزید تعلیم کا سوچیں، یا آپ کی بڑی بڑی ڈگریاں آنے والوں کو خوف زدہ کر دیں گی، جنہوں نے انکی نصیحت کو قبول کیا وہ آج گھر بسائے ہوئے ہیں، دنیوی معیارات چھوڑ کر قبول کیا تو خوش باش ہیں، جو آئیڈیل کی تلاش میں ہیں، آج بھی جمع تفریق کر رہی ہیں۔
خاوند گھر کا سربراہ ہوتا ہے جیسے ہر سکول کالج ادارے کا ایک سربراہ ضرور ہوتا ہے اب اگر سربراہ سے ادب و احترام والا تعلق رکھا جائے تو عزت ومحبت ہی جواب میں ملتی ہے اور اگر اپنے تبحر علمی اور کامل العقل کی خام خیالی میں اسی سے
رسہ کشی شروع کر دی جائے تو نا صرف گھر کا پاکیزہ ماحول میدان جنگ بن جاتا ہے بلکہ نوبت طلاق و جدائی تک پہنچ جاتی ہے
میرے خیال میں وہ علمی ڈگریاں جو عورت کو اپنے حقوق کے حصول کی جنگ کے لئے خاوند کے سامنے کھڑا کر دیں ان سے بہتر وہ کم پڑھی لکھی بیوی ہے جو سلیقہ و ہنر مندی سے خاوند اور سب خاندان کا دل جیت لیتی ہے۔ عبدالغفورآفریدی رائیونڈی
یہ لڑکیوں کا نہیں بلکہ آج کل کے والدین کا بھی نخرہ ہے اسی لیے انھیں بیٹیاں بٹھائے رکھنا کوئی عیب نہیں لگتا