ہوم << سگنل فری :عادل عزیز

سگنل فری :عادل عزیز

عادل عزیز
ہم اپنے گھر کے آنگن میں، صحن میں حسبِ تو فیق اگر چمنستان بنائیں، گھر کی زیب و زینت کے لیئے با غیچہ سے آراستہ کریں اس میں مختلف انواع کے پھول پودے اور درخت لگائیں ، پھر یوں ہو کہ اس میں چرند پرند چھوڑ دیں، جیسے بھیڑ ،بکریاں ،بھینسیں، گائیں ،گدھے،مرغیاں، بتخیں سو چیں کیا ہو گا، گلستان کا پھر ٓللہ حافظ، یا یوں سمجھئے بندر کے ہاتھ بندوق یا دیا سلائی آ جائے تو جنگل میں آگ نا گزیر ہے، چوکھر گھاس کھائے گلاب کا پھول اس کے لیئے یکجاء ہے۔ جانوروں کو سدھارا جاتا ہے، بہترین کرتب کے لیئے تر بیت دی جاتی ہے علاوہ ازیں مختلف کاموں کے لیئے بھی سدھا را جاتا ہے۔ جیسے سراغ رسانی کے کتوں کا سدھارا جانا، گھوڑوں کا رقص اور فنِ حرب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ایسے ہی بندر کا تماشہ اور بہت سے کام بین ایسے ہی پیغام رسانی کے لیئے پرندے ڈولفن وغیرہ کا سدھا را جانا بڑی عام سی بات ہے ، ہاں توتا میاں تو فر فر کئچھ بھی سکھا دو بولے گا۔ یہی اصول انسانی معاشرے میں بھی کار فرماء ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں تو خیر عام پریکٹس ہے کہ ھر نئی ایجاد ہر نئے معمالے میں، اگاہی مہم چلائی جاتی ہے، ورکشاپس اور سمینار منعقد کروائے جاتے ہیں علاوہ ازیں اگر ہم کوئی نئی چیز، مشین الآجات پر چیز کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک کتابچہ ضرور ملتا ہے کہ اسے کیسے استعمال کرنا ہے۔مگر ہمارے یہاں اس روئے کا بڑا فقدان ہے ہمارے یہاں اسے توہین کے زمرے میں سمجھا جاتا ہے۔شہری آبادی کے حوالے سے یہ تونہیں کہا جاسکتا کہ خواندہ نہیں نسبتاَ َ دہی علاقوںکے،ایک اندازے کے مطابق لاہور شہر کی شہرہ خواندگی ۰۷ فیصد سے زائد ہے ۔ لاہور شہر میں سڑکوںکی کشادگی،انڈر پاس، فلائی اوور یہاں تک کہ بڑی بڑی سڑکوں کو سگنل فری بنا دیا گیا ہے اور بنایا جا رہا ہے۔مزید یہ کہ میٹرو رواں دواں ہے، اورنج ٹرین منصوبہ زور و شور سے اپنی تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے۔
مندرجہ بالا ذرائع آمد ورفت کی سہو لیات کے باوجود ٹریفک کی بدحالی جوں کی توں ہے۔یعنی پھنسی تو پھنسی اس کے بعد تو ایک سر کس شروع ہو جاتی ہے، پھنسنے کی وجہ بھی شعبدہ بازی ہی ہوتی ہے۔ اس کی تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ہم سبھی ہر روز اس صورتِ حال سے دو چار ہوتے ہیں کہ سر کس کیسے لگتا ہے۔ آ تے جاتے زلالت دفتر دیر سے ، ٹریفک جیم، روڈ ایکسیڈنٹ وغیرہ وغیرہ، ایسا کیوں ہے؟ یہ تمام سہولیات تو وقت کی بچت کیلئیے،محفوظ سفر کیلئے، اور بغیر رکاوٹ روانی کے لیئے، تیزی کیلئے ہیں۔ مگر ان سہولیات سے استفادہ نہ ہونے کے برا بر ہے۔ ان سے بہرہ ور ہونے کیلئے سٹی ٹریفک وارڈن، گریجوایٹ ٹریفک پولیس مزید ٹریفک پولیس ریڈیو ،ان سے بھی کچھ نہ بن پڑی یہ تو صرف چلان پہ چلان کاٹے چلے جاتے ہیں اللہ جانے ان کے درمیان چلان کاٹنے کا کوئی مقابلہ چل رہا ہے، ریڈیو تو دیگر ریڈیو کی ترح گانے پہ گانے بولنے والے اپنا تعارف کرواتے تھکتے نہیںجیسے انہوں نے کوئی معرکہ مار لیا ہو اللہ پناہ۔نہیں بتائیں گے تو صرف یہ نہیں بتائیں گے کہ کہاں کہاں ٹریفک کا لوڈ ہے کہا ں کہاںپھنسی ہوئی ہے کون سا متبادل راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
تعمیرات کی کشادگی اور سہولیات کے علاوہ اس بات کی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی کہ ہر روز نئی گاڑیاں کتنی روڈ برو ہو رہی ہیں اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کیا جائے مزید یہ کہ گاڑیاں بنانے والی کپنیاں جو روز بروز نئی نئی فروخت کی پالیسیاں مرتب کر کے اپنے خریداروں کی توجہ حاصل تو کر رہی ہیں بنکوں میں اور ایجنٹوں کی دکانوں پر رش لگا ہے خریداروں کا موٹر کار موٹر کا ر کا ٹھاٹھیں مارتا جلوس ،کیا اس حوالے سے بھی کوئی حکومتی ایجنڈا ہے کہ نہیں اس عمل کو کیسے درست سمت دی جا سکے ، عوام کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سواری سے متمتع ہو سکیں مگر حکومت کو اس حوالے اصول و ضوابط وضع کرنے چاہئیں، ہو نگے بھی مگر عمل درآمدنہیں، آنے والے نئے تقاضوں سے نبرد آزماء ہونے کے قابل نہیں۔
خیر یہ تو ایک ضمنی بات چل نکلی تھی ہو نا یہ چائہیے کہ سب سے پہلے عوام کو سڑک پر آنے کے لیئے آگاہ کیا جائے ان کی تربیت کی جائے کون سی گاڑی کس لین میں چلانی ہے سگنل فری سڑک کیسے استعمال کرنی ہے، ٹریفک قوانین کے حوالے ورکشاپس، سمیناراور اگاہی مہم چلائی جانی چاہئے پھر غلطی کر نے والے کو کڑی سے کڑی سزا دینی چاہئے صرف چلان سے کام نہی چلے گا۔ہو تا یوں ہے کہ سڑک کے بیچو بیچ سست رو وہیکل جا رہے ہوںگے جیسے چھکڑے والا، تانگے والا، سائیکل والا ٹریکٹر ٹرالی، سڑکی آرائشی پھول پودوں اور گھاس کو پانی دینے والے ٹینکر اور تو اور کوڑا اٹھانے والے صبح دفتری اوقات میںمصروفِ عمل پائے جائیں گے۔
سست رو گاڑیوں کا بھی حق ہے کہ وہ سڑک استعمال کریں مگر ان کیلیئے کون سا ٹریک ہے یا انھیں کیسے چلنا ہے یہ ان کی تربیت کرنی ہو گی بتا نا ہو گا علاوہ ازیں ان کے لیئے علحدہ سڑکیں بنانا پڑیں گی بڑی سڑک کے ساتھ ساتھ جیسے سروس لین ہوتی ہے،مہذب شہریوں کو بھی مہذب ہونا پڑے گا اصول و ضوابط پر عمل کر نا پڑے گا، سڑک پر چلنے کا اجڈ پن ایک طرف بعض سڑکوں کے اطراف جو مکین ہیں وہ کچھ یوں گھر کی صفائی یا گاڑی کی دھلائی فر ما رہے ہوںگے جیسے وہ ہی صرف علاقہ کے مکین ہیں باقی فوت ہو گئے ہیں شائد، سارا پانی سڑک پر ہر گزرنے والا تکلیف کی زد میں ہوتا ہے، خصو صاََ وہ افراد جو موٹرسایئکل ،سایئکل اور پیدل چلنے والے ،گاڑی والا تو ہر صورت میں محفوظ مگر چھینٹے ہم غریبوں کے لیئے یعنی ہم کپڑے بھی صاف ستھرے نہیں رکھ سکتے بہر تور یہ ہمارا اجتماعی رویہ ہے جسے درست کرنے کی اشد ضرورت ہے سوال یہ کہ کیا انفراا سٹر کچر ہونا پہلے ضروری ہے کہ یا مہذب شہری ہونا۔ اگر انفرا سٹرکچر پہلے ہے تو پھر ہمارے لیئے گھاس اورپھول برابرہی ہیں، گلستان کا کیا حال ہو گا جو ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔

Comments

Click here to post a comment