ہوم << شہر کراچی میں بہائے جانے والے ناحق خون کا ذمہ دار کون؟ : رجب علی

شہر کراچی میں بہائے جانے والے ناحق خون کا ذمہ دار کون؟ : رجب علی

رجب علی
شہر قائد جس کی روشنیاں بحال کرنے کے دعوں میں حکومت اور کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ پیچھے نہیں رہنا چاہتا ہے،، ہر ادارہ اور حکومت عوام سے داد وصول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کہ ہم نے اس شہر کی روشنیاں بحال کیں، ورنا تو پہلے کے حالات اس قدر پر آشوب تھے کہ نہ پوچھیے، 2013میں قتل و غارت گری کی سالانہ یومیہ شرح 7.6 تک پہنچ گئی تھی اس طرح 2013کے دوران قتل و غارت کی 2700سے زائد وارتیں ہوئی تھی لیکن کوئی حکومتی نمائندہ یا قانون نافذ کرنے والاے ادارے کے سربراہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ شہر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے،، حکومتی اعلیٰ عہدیدار تمام زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر میں روز چند افراد کا قتل کوئی تشویشناک بات نہیں ہے ۔یہ وہی شہر تھا جہاں صبح سے رات تک اسپتالوں میں فائرنگ کے زخمی اور مقتولین کی لاشوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا،، اگست 2010 میں ایک ایک دن میں سو سو لاشیں بھی اس شہر میں اٹھائی گئی تھیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا کہنا تھا کہ حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کیسی کوششیں تھی جن سے روز بروز حالات خراب ہوتے جا رہے تھے لیکن جنہیں حالات پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات کرنے تھے وہ تمام حکام چین کی بانسری بجا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس وقت شہر میں شہریوں پر چھوٹے بڑے تمام ہتھیار استعمال کئے جا رہے تھے، اس وقت تو کسی نے حیرت کا اظہار نہیں کیا کہ بھائی اس شہر میں اینٹی ائر کرافٹ گن سمیت دیگر بھاری ہتھیار لسانی فساد کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں، لیکن عزیز آباد میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے چند قدم کے فاصلے پر مکان کے تہہ خانے سے بڑی تعداد میں جنگی اسلحہ سمیت بڑے اور چھوٹے ہتھیار برآمد ہونے پر سب حیرت زدہ نظر آرہے ہیں،کیوں؟؟؟؟
یہاں ایسا لگتا ہے جیسے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کالعدم پیپلز امن کمیٹی جسے ”لیاری گینگ وار“ کا نام دیا جاتا ہے سے علیحدہ دکھایا گیا اسی طرح اب ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کو بھی دو مختلف جماعتیں ظاہر کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے،، حکام کیوں حقائق بتانے سے گریزاں ہیں،، پچھلے دور میں شہر کی تمام سیاسی جماعتوں ، کالعدم تنظیموں اور مذہبی انتہا پسند جماعتوں نے مل کر اس شہر کا امن تباہ کیا تھا لیکن آج سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں ،، آج امن و امان کے قیام کے تمام دعوے دار اس وقت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر آپ نے یہ تسلیم کر لیا کہ پچھلے دور میں حالات اس قدر بگڑے ہوئے تھے تو ان تمام زمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے تھا جو ان حالات کے زمہ دار تھے ، ان زمہ داروں میں آج شہر کا دورہ کرتے ہوئے عوام میں گل مل جانے والوں سمیت سیاست دانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان بھی شامل ہیں، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔۔۔۔کیا روز قیامت ان زمہ داروں سے سول نہیں کیا جائے گا کہ اختیار ہونے کے باوجود تم نے کچھ نہیں کیا اور شہر کی سڑکوں ، گلی، محلوں میںبے گناہوں کا خون بہتا رہا، اگر تم بے اختیار تھے تو مثتفی کیوں نہیں ہوئے اور گھناﺅنا کھیل کیو ں دیکھتے رہے ؟؟؟
یہ بات تو طے ہے کہ اس شہر میں ایسے مہلک ہتھیار شہریوں پر استعمال کئے جاتے رہے ہیں جسکی روشنی میں ہمیں اس بات پر تحقیقات کرنی چاہیے کہ ناجانے شہر قائد میں عزیز آباد جیسے مزید کتنے تہہ خانے موجود ہیں، جہاں مہلک ہتھیار بڑی تعداد میں چھپائے گئے ہیں ۔۔ یہاں ایک بات پر حیرت ہے کہ گزشتہ برس نائن زیرو اور اطراف میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھرپور آپریشن کیا ،کئی پرانے خطرناک دہشت گرد بھی پکڑے گئے اور رہنماﺅں کو بھی گرفتار کیا گیا ،، لیکن کیا ان گرفتار ملزمان سے تفتیش بھی کی گئی تھی یا وہ صرف ڈرامہ تھا؟۔ اگر تفتیش کی گئی تھی تو کیا ان خطرناک دہشت گردوں کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ اتنا بڑا اسلحے کا ذخیرہ بغل میں چھپایا گیا ہے، یہ وہ سول ہیں جو عام آدمی کے زہن میں اٹھ رہے ہیں۔۔
یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ ملنے والے جنگی ہتھیار کی خرید اری کیا کوئی آسان کام ہے،، کیا یہ ہتھیار کسی اسلحہ ڈیلر سے خریدے جاسکتے ہیں،، کیا عام طور پر یہ ہتھیار اسلحہ فروخت کرنے والی دکانوں پر مل جاتے ہیں ۔تو ان تمام سوالوں کا جواب ہے نہیں۔ نہ ہی یہ ہتھیار کسی اسلحہ ڈیلر سے خریدے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ایسے ہتھیار اسلحہ کی کسی دکان پر موجود اور وہاں حاصل کئے جاسکتے ہیں، ملنے والے ہتھیاروں میں نیٹو ، امریکی ساختہ، بھارتی ساختہ، چائنہ ساختہ سمیت دیگر ہتھیاروں کے علاوہ سرکاری ہتھیار بھی موجود ہیں ،، سرکاری ہتھیاروں کے حوالے سے تو کہا جاسکتا ہے کہ چھینے گئے ہوں گے لیکن دیگر ہتھیار تو باقائدہ خرید کر دوسرے ممالک سے منگوائے گئے ہوں گے اور یہ ہتھیار زمینی، ہوائی یا پھر سمندری راستے سے ہی لائے گئے ہوں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا اسلحے کا ذخیرہ یہاں تک پہنچا کیسے تھا ۔ویسے تو گزشتہ برس نائن زیرو پر رینجرز کے آپریشن سے قبل تک یہ علاقہ ، شہر کے بعض علاقوں کی طرح علاقہ غیر سمجھا جاتا تھا ، نائن زیرو کے اطراف تمام گلیوں کو عوام کے لئے بند رکھا گیا تھا، صرف یہاں رہنے والے ہی ان گلیوں سے گزرنے کا حق رکھتے تھے ، تو ممکن ہے کہ ایسے وقت میں یہاں اسلحہ کی یہ کھیپ لائی گئی ہو گی،، اس حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک سے جب سوال کیا گیا کہ اسلحہ کی اتنی بڑی کھیپ یہاں کیسے پہنچ گئی تو وہ کہنے لگے کہ جیسے پورے شہر میں اسلحہ پہنچا ویسے ہی یہاں بھی پہنچا ہوگا ،، ڈی آئی جی نے جواب تو مختصر دیا لیکن یہاں ہماری تحقیقات کی تصدیق بھی کر دی گئی کہ اب اس حوالے سے تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایسے تہہ خانے مزید کہاں کہاں موجود ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Comments

Click here to post a comment