ہوم << لڑکا رہتا کس علاقے میں ہے؟ شادیوں کے نئے معیار - مجیب الحق حقی

لڑکا رہتا کس علاقے میں ہے؟ شادیوں کے نئے معیار - مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی ایک تقریب میں برابر کی میز پر بیٹھی خاتون کی آواز میں حیرت اور مایوسی نے مجھے متوجّہ کیا۔
ـ ”بھئی ماشاء اللہ میرے بیٹے نے اب ایم بی اے بھی کرلیا ہے اورہم اعلیٰ نسب بھی ہیں۔ ذاتی گھر ہے اورگھر میں آسائش کی ہر ہر چیز موجود ہے پھر انکار کی وجہ کیا؟“
خاتون نے بڑی دل شکستگی سے غالباًرشتہ کرانے والی سے پوچھا تو وہ بولیں کہ:
”آپ کو کیا بتائوں، اب ان سب گُن کے علاوہ لڑکیاں اور ان کے گھر والے یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکا کس علاقے میں رہتا ہے۔ اولیّت اب علاقے کو دی جاتی ہے کہ لڑکی جاکر رہے گی کس علاقے میں؟ اگرعلاقہ اعلیٰ ہے تو نسب پر بھی سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔ آپ جس علاقے میں رہتی ہیں وہ معمولی جانا جاتا ہے، اس لیے لڑکی والوں نے معذرت کرلی کہ ہماری بچّی کو اور ہم کو خفّت ہوگی، بیٹی اپنی سہیلیوں کے سامنے شرمندہ ہوگی۔ ان کو ڈیفنس کا لڑکا چاہیے!“
تب وہ خاتون اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔
میں نے سوچا کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہماری اقدار کیسے بدل رہی ہیں۔ پہلے لڑکے کی تعلیم اور خاندانی شرافت دیکھ کر لوگ بیٹیاں بیاہ دیتے تھے لیکن اب دونوں طرف یہی حال ہے کہ اگر لڑکے میں کچھ گُن ہیں تو ادھر کی فرمائشیں آسمان چھوتی ہیں اور گھر والے چاہتے ہیں کہ حورِ پری طور بھی ہو اور مال بھی لائے۔ اگر لڑکی ذرا غیر معمولی ہے تو پھر اس کا اور والدین کا دماغ عرش پر ہوتا ہے۔ گویا اب مال و دولت اور مراتب کو اولیّت دی جانے لگی ہے جن کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن ان کو ترجیح دینا غلطی ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ نئے رشتے کی استواری میں اولیت انسان کی نہیں بلکہ دوسرے عوامل کی ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے مخصوص مفادات کی خاطر ایک ناپائیدار سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ اسی لیے بزرگ ہمیشہ ہم پلّہ رشتوں کی وکالت کرتے رہے ہیں جس میں خاندانی شرافت کو فوقیت دی جاتی ہے، اس طرح کلاس کا فرق نہیں ہوتا اور رشتے مضبوط بنیاد پر بنتے ہیں۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ اولاد مردکا مقدر اور رزق اور مال عورت کا مقدر ۔ تو ہر دو فریق کا اپنی تقدیر پر بھروسہ اور اللہ پر توکّل ہی پر مسرّت اور عافیت کی زندگی کی نوید ہے۔
والدین خبردار رہیں کہ دراصل ایسا رشتہ جس میں شرافت، دینداری، احترام ، محنت، اطاعت و فرمانبرداری پر رہائشی علاقہ اورمال و جائیداد کو ترجیح دی جائے، بڑی کمزور بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ ایسی لالچی وخود غرضانہ اساس ناپائیدار روابط ہی تشکیل دے گی تو پھر اس سے خیر کی تمنّا عبث ہی ہے۔یہ بات فریقین کو سمجھ لینی چاہیئے کہ جو اجنبیت مادّی لوازمات اور لالچ کی بنیاد پر رشتے میں بدلتی ہے وہ زمانے کے حوادث سہنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے اور ایسے رشتے معمولی جھٹکے پر چٹخ جاتے ہیں جس سے خاص طور پر جوڑے کو پریشانیاں بھگتنی پڑتی ہیں۔ایسے حالات میں پھر رنجشیں بھی جنم لیتی ہیں۔ یہ بات مدّ نظر رہے کہ ایسی ترجیح کی بنیاد پر یعنی اعلیٰ اور برتر معیار زندگی کے رہائشی علاقے میں شادی کے بعد اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے شوہر کو رہائش تبدیل کرنی پڑے تو مصنوعی اور سطحی محبت پارہ پارہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ ایک فریق باطنی طور پرجس مصنوعی بندھن میں بندھا ہے وہ تو معدوم ہو رہا ہے۔
لیکن ایسی مثالیں سامنے ہیں کہ غریب علاقے کی شریف لڑکی کو امیر گھرانے والے بیاہ کر لے گئے اور امیر گھرانے کی لڑکی کم حیثیت والوں کو خاندان کی شرافت اور نیک نامی پر دی گئیں اور وہ سب خوش و خرّم ہیں۔ آئیڈیل ازم کا شکار خواتین اعلیٰ سوسائٹی میں بھی گھر بیٹھی ملیں گی۔ یہی حال ایسے مردوں کا بھی ہے۔ تو قصور ہماری سوچ کا ہے جس پر توجّہ کی ضرورت ہے۔ عملیت کے بجائے تصور پرستی یا آئیڈیل ازم مرد اور عورت دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
ایک جاننے والے اپنی بہن کی شادی کے سلسلے میں مشورے کے لیے ایک مشہور بزرگ کے پاس گئے تو بزرگ نے فرمایا کہ بس یہ دیکھ لو کہ لڑکا نمازی ہے کہ نہیں، نمازی ہے تو خوف خدا ہوگا اور خوف خدا ہے تو سب کچھ ہے۔ گویا رشتہ دینے اور لینے میں اہم ترین وصف خوف خدا ہے جو اگر طرفین میں ہے تو حقوق کی ادائیگی انصاف سے ہوگی۔ نئے رشتوں میں اصل چیز آپس میں بےلوث محبت کی آبیاری ہے جو خلوص کے ساتھ اللہ پر بھروسے سے ہی ملے گی۔
حاصل گزارش یہی ہے کہ مال اور مکان کے پیچھے نہیں جائیں بلکہ اقدار کو تولیں اور اپنی بیٹیاں اس خاندان میں دیں جہاں شرافت ایثار اور باہمی احترام کو فوقیت دی جاتی ہو۔ یہی بات گھروں میں تواتر کے ساتھ لڑکے اورلڑکیوں کو بتاتے رہنا چاہیے تاکہ ان کو اپنی اخلاقی اور ایمانی اقدار کی قدر ہو۔ والدین کو یقین ہونا چاہیے کہ اگر لڑکی کی قسمت میں راحتیں ہیں تو شوہر کی ترقی کے ذریعے اسے وہ راحتیں اور آسائشات ملتی رہیں گی ۔
یہ حدیث ِقُدسی یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ کا سلوک بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کی اچھی تقدیر پر پختہ یقین رکھیں اللہ سے نیک گمان رہیں تو عافیتیں ملتی رہیں گی ورنہ دنیاداری اور مال کی محبت بے سکون کیئے رہتی ہے۔ ایسے ہی یقین اور نیک گمانی کی تلقین اپنی اولاد کو بھی کریں۔ سب سے بہتر یہی ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی معلوم کرنے سے قبل سرپرست استخارہ کریں، کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ استخارہ کرنے والے کو ندامت نہیں ہوتی۔ اللہ سے خیر کی طلب کے بعد بننے والے رشتے پائیدار ہوتے ہیں اور بیوی اور شوہر کے لیے آئندہ عافیت کے ضامن ہوتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment