ہوم << ڈوبتے کوایوارڈ کا سہارا؟ رضوان الرحمن رضی

ڈوبتے کوایوارڈ کا سہارا؟ رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنی بھلی چنگی چلتی ہوئی حکومت کو آخر تنکوں کے سہارے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ وہ کون سا دباؤ ہے جس کے تحت، وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کاروباری طبقے کو لاہور کے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر بتانا ضروری خیال کیا کہ ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ’’ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے بڑے بڑے اداروں کی طرف سے بہترین وزیرخزانہ کا ایوارڈ مل گیا ہے‘‘۔ اگر یہ ایوارڈ اتنا ہی اہم تھا تو یہی ایوارڈ اسحاق ڈار صاحب کے دستِ راست، جن کی پاکستانی شہریت کے بارے میں بہت سی افواہیں زیرگردش ہیں، یعنی ہمارے گورنر سٹیٹ بینک صاحب کو بھی ملا ہے تو ان کا ذکر کرنا کیوں ضروری خیال نہیں کیا گیا۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ اباجان نے بازار سے اپنے لیے ایک عدد ٹوپی خریدی، کندھے پر سوار بچے نے ضد کی ’’میں نے بھی لینی ہے‘‘ تو ایک اسے بھی دلوا دی۔
یہ اور اس طرح کے کسی بھی ایوارڈ کی حیثیت شاید اب پرِکاہ کے برابر بھی نہیں رہ گئی۔ سب کام پیسے کا ہے۔ دنیا میں معروف لوگوں کی ایک سالانہ ڈائریکٹری چھپتی ہے، ہو از ہو؟ کوئی بھی شخص ڈیڑھ دو سو ڈالر دے کر اس میں نام چھپوا سکتا ہے۔ ’’ہو از ہو‘‘ نامی اس فراڈ کی مارکیٹنگ کرنے والے اپنے کلائنٹ (یعنی معزز چغد) کو یہ باور کروا دیتے ہیں کہ اس کتاب میں ان کے نام (اور پروفائل) کی اشاعت سے بس ان کی شخصیت اور صدرِ امریکہ کی شخصیت میں اہمیت کے حوالے سے دو چار انچ کا فاصلہ رہ جائے گا۔ شروع شروع میں تو اپنا نام اور پتہ چھپوانے کے لیے پاکستانی چغدوں نے ہزاروں ڈالر ادا کرنے میں بھی عار محسوس نہ کیا لیکن پھر امریکیوں کی بدقسمتی کہ ان کو ہمارا ایک چنیوٹی شیخ بزنس مین دوست ’ٹکر‘ گیا جس نے صرف سو ڈالر میں نام بھی درج کروایا بلکہ الٹا کافی بھی اس مارکیٹنگ مینیجر کے پلے سے پی۔
ہمیں اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کے دوران سب سے زیادہ مشکل اس وقت ہوتی جب کوئی کاروباری شخصیت اس ادارے سے دوسو ڈالر کا ’تھوک‘ لگوا کر آ جاتی اور فرمائش ہوتی کہ چوں کہ ہمارا نام ’ہو از ہو‘ نامی اس فراڈ میں چھپ گیا ہے تو اب تم ایک خبر اپنے اخبار میں چھاپو تاکہ اہلِ پاکستان پر بھی ہماری عظمت کا سورج طلوع ہو جائے۔ گھنٹوں مغز ماری کر کے اسے یہ باور کروانا پڑتا کہ حضور آپ بیوقوف بن چکے ہیں اور اب اس کی خبر چھپنے پر جن لوگوں کو نہیں پتہ، ان کو بھی پتہ چل جائے گا کہ آپ کتنے بڑے چغد ہیں۔
اسی طرح دنیا بھر میں مختلف ادرے ہیں جو پیسے لے کر ایوارڈ دیتے ہیں۔ پاکستان کا ہر تھکا ہوا اور اپنی سروس کے اعتبار سے گھٹیا ترین بینک ہر سال ’’یورو منی ایوارڈ‘‘ لے آتا ہے۔ اس کا اخبار میں اشتہار بھی دیا جاتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ہم یہ ایوارڈ گذشتہ دس سال سے جیت رہے ہیں۔ یادش بخیر اس طرح کی جعل سازیوں کا راستہ ہماری بینکنگ انڈسٹری کو اللہ بخشے جناب شوکت عزیز صاحب نے دکھایا تھا جواس شعبے کے بہت پرانے اور نامور کھلاڑی تھے۔
ملکی سطح پر اس طرح کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ایف پی سی سی آئی ایکسپورٹ ٹرافی‘‘ ہے جس کا وہ بیس سے پچاس لاکھ کا خرچہ وصول کرتے ہیں یعنی جہاں پر جو گر جائے، اس سے وہ رقم وصول کر کے اسے یہ ٹرافی یا ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔ اس کو فیڈریشن کے لوگ ’ڈونیشن‘ یعنی عطیے کا نام دیتے ہیں۔ اگر ایک شعبے میں زیادہ دعویدار آ جائیں تو پھر ’’بزرگ‘‘ صلح صفائی سے معاملہ یوں حل کرواتے ہیں کہ اس سال ایک کو دے دیں، اگلے سال دوسرے فریق کو اور یوں گلشن کا یہ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ یہی کام ایوانِ صنعت و تجارت لاہور اور دیگر مقامی ایوانوں نے بھی شروع کیا بقول شخصے بات یہاں تک جا پہنچی کہ ’’پرانی جوتیوں اور کپڑوں کے بدلے ایوارڈ بھی ملنے لگ گئے‘‘۔ حاصل وصول یہ ہوتا ہے کہ حکومت جس کو اپنی کارکردگی کے جھنڈت گاڑنے ہوتے ہیں، اس کا نمائندہ (صدر یا وزیراعظم) یہ ایوارڈ دینے کے لیے تشریف لاتا ہے اور اس کے ساتھ ایوارڈ وصول کرنے والی کی ایک تصویر بن جاتی ہے جسے وہ صاحب اپنے ڈرائنگ روم میں لگا کر آنے جانے والوں پر اپنی کاروباری عظمت کی دھاک بٹھاتے رہتے ہیں۔ ورنہ دبئی میں اپنی ہیرے جیسے پراڈکٹس کوڑیوں کے مول بھارتیوں کو بیچ آنے والوں کو تو جوتے پڑنے چاہییں۔
ملک کے اندر واقفانِ حال کو معلوم ہے کہ ان ایوارڈوں کی اہمیت اور ’’ذلت‘‘ کیا ہوتی ہے اس لیے اسے کوئی قابلِ فخر بات نہیں سمجھا جاتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر صدا کے کاروباری وزیراعظم کو کاروباری افراد میں بیٹھ کر ایسی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ایک باغ و بہار شخصیت پائی ہے۔ وہ ’بندہ جاتا ہے تو جائے فقرہ نہ جائے‘ کے اصول کے بانی مبانی ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے سمدھی کو ’جگت‘ فرمائی تھی لیکن میڈیا مینیجر کوڑھ مغز ہونے کے باعث اس کو سمجھ ہی نہ سکا اور اس کی خبر بنوا کر چلوا دی۔ میڈیا مینیجر کے کوڑھ مغز ہونے کی تصدیق کچھ یوں بھی ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کی سمری کے لیک ہونے کا الزام بھی جناب کی ذا ت پر آ رہا ہے۔
یادش بخیر وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور کی بات ہے کہ انہوں نے الحمرا میں تقریر کرتے ہوئے ایک لطیفہ سنا دیا۔ شام کو ان کے اُس وقت کے میڈیا مینیجر سارے اخبارات کے دفاتر میں اس ’لطیفے‘ کو رکوانے کے لیے منتیں ترلے کرتے پائے جا رہے تھے۔ جی ہاں اس پر حیران نہ ہوں، اس وقت میڈیا کی عزت ہوا کرتی تھی۔ تو نتیجہ یہ ہے کہ میاں صاحب آئی ہوئی بات روکنے کے قائل نہیں اس لیے یہ بات بھی اسی اصول کے تحت ان کے منہ سے نکل گئی ہوگی۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی مالیاتی ٹیم کو ایسے تنکوں کے سہاروں کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟ ابھی کل ہی تو اسحاق ڈار صاحب نے پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے چوبیس ارب ڈالر کی سطح سے پار جا پڑے ہیں۔ اب جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر سے اس قدر بڑھ گئے ہیں، کیسے بڑھے یہ ایک الگ داستان ہے، تو ایسے میں امریکی ڈالر کی پاک روپے سے شرح تبادلہ کو 104 روپے کے آس پاس رکھنے کا کیا جواز ہے؟ پھر تو روپے کی قیمت ایک سو روپے سے کم ہونا چاہیے۔ لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اگلے سال جب پاکستان کے ذمے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کا وقت آئے گا تو ڈالر مزید گرایا جائے گا، اور یوں ڈالر کی اس کمی بیشی سے یار لوگوں کی دیہاڑیاں لگیں گی۔
ملکی معیشت کی درماندگی کی جو اہم وجوہات ہیں اور جن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جارہا، وہ یہ ہے کہ ملک کی برآمدات موجودہ مالی سال کے پہلے تین ماہ میں دس فی صد سے زائد کے حساب سے تنزلی کا شکار ہیں اور برآمدات کے اس زوال میں کمی کے کوئی امکانات مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہے۔ وزیرتجارت اور ان کے خاندان کے مالیاتی مفادات گوجرانوالہ شہر کی حدود کی طرح مسلسل پھیلتے جا رہے ہیں لیکن ملک کی برآمدات مسلسل سکڑ رہی ہیں۔ گرتی برآمدات کو سہارا دینے کے لیے حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ایک پیکیج دینے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں لیکن حکومت بظاہر ایسا کرنے سے بھی گھبرا رہی ہے کہ اس مجوزہ پیکیج کو اقرباء پروری کے کھاتے میں ڈال کر کنٹینر پر کھڑے حضرات ان کے خلاف چارج شیٹ میں ایک اور الزام کا اضافہ نہ کرلیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پنجاب میں صنعتوں کے لیے بجلی کی بندش کی شرح اکتوبر 2015ء سے صفر کر دی ہے تواس کا مطلب تو یہ ہے کہ پنجاب میں بھی تمام بند صنعت چل پڑی ہے جو بجلی کی عدم یا کم دستیابی کے باعث کلی یا جزوی طور پر بند پڑی تھی؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ بند صنعتیں چل پڑی ہیں تو ان کا نتیجہ برآمدی اعداد و شمار میں ظاہر کیوں نہیں ہو پا رہا؟
اُدھر مالی سال کے پہلے انہی تین ماہ کے دوران حکومتی محاصل کی وصولی کی شرح میں بھی مسلسل کمی کا رحجان ہے لیکن حکومت کی خواہش ہے کہ اس طرف نہ دیکھا جائے اور صرف اقتصادی راہداری کا وہ خرگوش دیکھا جائے جو اس کے چیف جادوگر، جناب چوہدری احسن اقبال صاحب ہر چوک میں اپنے ہیٹ میں سے نکال کر دکھاتے پائے جا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف عمران خان کا کرپشن اور احتساب کا نعرہ اس قدر دلفریب ہے کہ اب عوام اقتصادی راہداری کے خرگوش کی طرف دیکھنا نہیں چاہ رہے۔
مجموعی طور پر آج کی تاریخ میں حکومت کے کھاتوں میں منفی اقتصادی اشاریوں کی شرح مثبت کی اقتصادی اشاریوں کی نسبت زیادہ ہے تو ایسے میں وزیراعظم صاحب کا ایسی باتیں کرنا ہی بنتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment