ہوم << مسلمان اور ماضی کا سحر - ناصرمحمود

مسلمان اور ماضی کا سحر - ناصرمحمود

ناصر محمود اہمیت اس کی نہیں ہوتی کہ کس کا ماضی کیسا تھا بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ کس نے اپنے ماضی سے کیا سیکھا اور حال کو کتنا سنوارا۔ بطور مسلمان ایک شاندار ماضی رکھنے کے باوجود آج ہم دفاعی حکمتِ عملی اپنانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اور انتہائی خوفناک قسم کی تاریخ رکھنے والے غیر مسلم آج کی دنیا کے حکمران ہیں۔ جن مسلمانوں کا دنیا میں کبھی طوطی بولا کرتا تھا وہ آج اپنی پہچان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور جو کبھی کسی کھاتے میں نہیں گنے جاتے تھے آج دنیا کا رخ متعین کر رہے ہیں۔ وجہ بہت سادہ سی ہے کہ ہم آج تک اپنے ماضی کے سحر سے نکل ہی نہیں پائے، کہ جس وقت ہم دنیا کے حکمران ہوا کرتے تھے۔ ماضی کے سنہری دور کو اتنی کثرت سے دوہرایا جاتا ہے کہ ہم حال سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ مستقبل کو لے کر کچھ ایسی پیشین گوئیاں کی جاتیں ہیں، کہ لاشعوری طور پر ہم خود کو آنے والے وقت کا حکمران سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ فطری قوانین کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اور دنیا میں کوئی قابلِ ذکر مقام حاصل کرنے کے لیئے ان تقاضوں کا پورا کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لیئے سانس لینا۔ ہمارا حال اس بگڑے رئیس زادے سے قطعا مختلف نہیں جو صرف اس امید پر اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر لیتا ہے کہ باپ کا "کمایا" ہوا بہت کچھ ہے، اور پھر جب حالات کروٹ لیتے ہیں تو اس کے پاس سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہم نے ہمیشہ اپنے سنہری ماضی پر اکتفا کیا ہے، اور برسوں کی محنت نے ہمارے لاشعور میں کہیں یہ بات بٹھا دی ہے کہ ہم چاہے کچھ بھی کرتے رہیں آخر کار جیت ہماری ہی ہو گی۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ہم سے بڑا خوابوں کا بیوپاری ہو گا جو صرف امکانیات کی بنیاد پر اپنی نسلوں کے شعور کا سودا کر لے۔ ہم صدیوں سے ایسے خواب بن رہے ہیں جن میں ہم اپنی موجودہ اخلاقی گراوٹ، بیزاری، بد عنوانی اور مذہب سے کھلواڑ کے باوجود ایک بار پھر دنیا کے راجا ہوں گے، اور ساری دنیا ہمارے قدموں کے نیچے ہو گی۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی تک ہم سے نالاں ہے۔ اور آج کی تاریخ میں ہم مجموعی طور پر سوائے فتوی بازی کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ گویا کوئی معجزہ رونما ہو گا اور ہماری کرتوتوں کے باوجود دنیا کی حکمرانی، کسی پکے ہوئے پھل کی طرح، ہماری جھولی میں ڈال دی جائے گی اور ساری دنیا اس کو قبول بھی کر لے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کی جس وقت ہمیں خدائی کلام سے بہرہ ور کیا جا رہا تھا، اس وقت باقی دنیا اپنے نفس کی غلامی کر رہی تھی۔ جس وقت ہم انسانیت کے مبلغ کی حیثیت سے دنیا میں ابھر رہے تھے، باقی دنیا غلامی کے عفریت کو پروان چڑھا رہی تھی، اور جس وقت ہم تہذیب کا درس دیا کرتے تھے باقی دنیا اس کی دھجیاں اڑانے میں مصروف تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ بہت مختصر عرصے میں ہم آدھی دنیا سے بھی زیادہ کے حکمران بن چکے تھے۔ کیونکہ ہماری تعلیمات نہایت سادہ اور فطرت کے عین مطابق تھیں، اور فوری طور پر دوسروں کے دل میں اتر جایا کرتیں تھی۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ ہم نے اپنی تعلیمات پر مفادات کو ترجیح دینی شروع کر دی۔ حکمِ الہی اور انسانیت نے ہمارے نزدیک عملا ثانوی حیثیت اختیار کر لی اور پہلا درجہ نفسانی خواہشات کا حق ٹہرا، اور نتیجے کے طور پر پہلے ہم ٹکڑوں میں بٹے، اور آہستہ آہستہ مخدومیت سے خادمیت کی طرف سفر شروع کر دیا۔ اور بالآخر اقتدار کے ساتھ ساتھ عزّتِ نفس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ جو کبھی وسعتِ قلبی کے علمبردار ہوا کرتے تھے وہ منافرت کے پیامبر بن کر ابھرنے لگے۔ جو انبیاء کے وارث گردانے جاتے تھے وہی امت کی تقسیم میں جڑ گئے۔ جو کبھی دنیا کو علمی خزانے فراہم کیا کرتے تھے، وہی تنگ نظری اور شدت پسندی کا درس دینے میں مصروف ہوتے چلے گئے۔ اور جو کبھی امن کے سفیر ہوا کرتے تھے، وہی دہشت کی علامت بن کر ابھرنے لگے۔ جیسے ہی ہم نے فطرت کے قوانین کو پسِ پشت ڈالا، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ دنیاوی ترقی نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا۔ اور پھر بجائے اس کے کہ ہم اپنی خامیوں پر غور کرتے ہوئے ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے، اپنی شرمندگی چھپانے کے لیئے ہم نے شاندار ماضی کے حوالے دینےشروع کر دیئے اور اپنے بڑوں کے کارناموں پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنی شروع کر دی۔ صدیوں سے ہم مسلمانوں کے عروج کے قصے تو سنا رہے ہیں، لیکن کبھی زوال پر غور نہیں کرتے۔ سچائی اور بہادری کی مثالیں تو بہت دی جاتی ہیں، لیکن عمل کرنے والے نہ ہونے کےبرابر ہیں۔ جہاں ماضی پر فخر کیا جاتا ہے، وہیں موجودہ زوال کا ذمہ دار نہایت سادگی سے کسی "غیر" کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اسے کسی اور کے سر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور پھر تصور میں اپنے آپ کو مستقبل کا حکمران سمجھ کر طفل تسلیاں دی جاتیں ہیں۔
جبکہ ہمارے مقابلے میں جو لوگ کوئی شاندار قسم کی تاریخ نہیں رکھتے تھے انہوں نے اپنے ماضی سے سبق، اور ہمارے حال سے عبرت پکڑتے ہوئے اپنے لیئے ایسے قوانین بنانے شروع کر دیئے جو فطرت کے عین مطابق تھے۔ جہاں انہوں نے تعلیم کو ضروری قرار دیا، وہیں تربیت کو اپنا مقصد بنا لیا۔ حرمتِ انسانی کو مدار اور اس کی ترقی کو ھدف بنایا، اور اپنی خامیوں کو کسی پر تھوپنے کی بجائے ان کا سامنا کیا۔ اور آہستہ آہستہ ان پر قابو پانا شروع کر دیا۔ خوابوں کی بجائے حقیقت پر توجہ دی اور عملی طور پر "من جدّ وجد" کی عملی تفسیر بن کر ابھرتے ہوئے آہستہ آہستہ اقتدار کے مستحق ہوتے چلے گئے۔ اور ہم آج بھی اپنی غلطی تسلیم کے بجائے ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں اور غیر شعوری طور پر احساسِ کمتری کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب بھی ہمیں مہذب معاشروں کی کوئی غیر مہذب تصویر یا ویڈیو نظر آتی ہے تو بڑے زور و شور سے نہ صرف یہ کہ اس کو پھیلایا جاتا ہے، بلکہ دل کی بھڑاس بھی خوب نکالی جاتی ہے۔ کسی پولیس والے نے کسی خاتون کو زدوکوب کیا ہو یا کسی کی سرِ عام تذلیل کے مناظر ہوں، کسی طالبعلم کی طرف سے استاذ پر ہاتھ اٹھانے کی ویڈیو ہو یا خواتین کے آپسی جھگڑے کا منظر سامنے آ جائے، پورے معاشرے کو خوب رگڑا جاتا ہے اور اپنے تئیں ان کی "حقیقت" کھول کر رکھ دی جاتی ہے۔ قطع نظر اس سے کے اچھے اور برے افراد ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور اس کے بارے میں حتمی فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت، ظالم، بدعنوان، مفاد پرست اور کام چور ہے۔ ہمیں دوسروں کے اکا دکا منفی معاملات تو نظر آتے ہیں، لیکن اپنے ہاں کثرت سے ہونے والے واقعات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں کثرت سے وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر بھی عموما کوئی کاروائی نہیں کی جاتی اور "مہذب" معاشروں میں ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔ اور مجرم کو قرار واقعی سزا بھی بلا تفریق دی جاتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ماضی کے سحر سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں۔ خوابوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنی خامیوں کو تسلیم کریں۔ اور ان کی اصلاح پر توجہ دیں۔ اسلام کا اصل چہرہ لوگوں کو دیکھائیں۔ اور اپنے اوپر لگی "چھاپ" کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس دن ہم دنیا کو اسلام کا صحیح معنی سمجھانے، اور اصلی روپ دکھانے میں کامیاب ہو گئے۔ یقین کریں اس دن ہمیں کسی کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلکہ لوگ خود بخود کچھے چلے آئیں گے۔ کہ آج کی دنیا ہراس چیز کو بخوشی قبول کرتی ہے جو ان کے لیئے مفید ہو۔ اور ہمیں صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ آج کی سچائی صرف اسلام ہے۔س جو نہ صرف دنیا میں مفید ہے بلکہ دنیا کے بعد بھی نجات کا ضامن ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں ماضی کے سحر سے نکل کر خوابوں سے پیچھا چھڑانا ہو گا۔ اپنی غلطی تسلیم کرنی ہو گی، کہ یہی ترقی کی منزل کا پہلا پڑاؤ ہے۔
(ناصر محمود جرمنی میں مقیم ہیں اور پی ایچ ڈی اسکالر ہیں)

Comments

Click here to post a comment