ہوم << عبد الستار ایدھی سے ملاقات - حافظ صفوان

عبد الستار ایدھی سے ملاقات - حافظ صفوان

hafiz safwanاللہ کی توفیق سے اکتوبر 2007ء میں مستورات کی جماعت میں کراچی جانا ہوا۔ 22 یوم کی اس تشکیل میں کئی اہم اور بڑے لوگوں سے تبلیغی ملاقات ہوئی جن میں جناب مشتاق احمد خاں یوسفی، ڈاکٹر مولانا عبد الشہید نعمانی، جناب ابراہیم عبد الجبار، ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، جناب حنیف محمد، ڈاکٹر جمیل جالبی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی، مفتی محمد تقی عثمانی، جناب ابو سعادت جلیلی، ڈاکٹر طاہر مسعود، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، محترمہ سیدہ فرحت فاطمہ رضوی اور ان کے میاں جناب زوار حسین صاحب، ڈاکٹر سید خالد جامعی، جناب معراج جامی اور جناب امراؤ طارق کے علاوہ جناب عبد الستار ایدھی بھی شامل تھے۔ (کئی نام ابھی ذہن سے اتر رہے ہیں۔) جناب جنید جمشید کی مسجد میں بھی تشکیل ہوئی جہاں ان سے اور ان کے والد سے ملاقاتیں رہیں۔ ان کے محلے میں جس گھر میں مستورات ٹھہریں، وہاں بیان اور مستورات کی نصرت کے لیے محترمہ روبینہ اشرف بھی تشریف لائیں، اگرچہ مجھے بعد میں فون پر بتایا۔
ان سب لوگوں سے ملاقاتیں کرانے کے لیے میرے عزیز دوست جناب سلمان سعد خان نے بہت وقت نکالا۔ اللہ انھیں بہت جزائے خیر دے۔
اکتوبر 2005ء والے زلزلے کے وقت ہم لوگ ہری پور میں تھے۔ اس زلزلے کی سالگرہ انہی دنوں میں آئی چنانچہ کراچی کے لوگ ہم سے زلزلے کا احوال سنتے رہتے تھے۔
اللہ کی توفیق سے ہم لوگوں نے زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے عملی اقدامات کیے تھے اور اس میں فوج اور ایدھی والوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان دنوں میں ایدھی والوں کے ساتھ کام کرکے اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں پھیلائی گئی بہت سی باتیں بالکل غلط ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ لوگ مخصوص مذہبی لوگوں کی پارٹی ہیں یا مغربی ایجنڈہ رکھتے ہیں اور یتیم بچوں کو غیر ممالک میں سپلائی کرتے ہیں، وغیرہ۔ یہ بات تو تب پتا چلی کہ بالاکوٹ سے زلزلہ زدگان کے کافی سارے بچے اغوا کر لیے گئے اور بچوں کو گود لینے والوں کے لیے فوج نے فوری طور پر ایک خصوصی سیل بنایا۔ مختلف غیر سرکاری نیز مذہبی تنظیموں اور مدارس کے لوگ صرف یتیم بچوں بچیوں کے لیے لڑتے اور ایک دوسرے سے بچے چھینتے تھے اور اس پر گولیاں بھی چلتی رہیں۔ بچوں سے بھرے کئی ڈالے اور سوزوکیاں علاقہ غیر اور مختلف اطراف میں جاتی پکڑی گئیں۔ ان دنوں ہمیں معلوم ہوا کہ بردہ فروش کون ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ اللہ معاف کرے۔
زلزلہ زدگان کی بحالی کا ابتدائی کام کئی مہینے چلا۔ یہاں مجھے ایدھی کے کام کا اندازہ ہوا کہ یہ لوگ کس دیانت داری سے بچوں کو اغوا سے بچاتے رہے اور انھیں فوج کے پاس پہنچانے کا بندوبست کرتے رہے۔
لیکن ایدھی والوں کی دیانت داری کا پہلا اندازہ مجھے اس سے بھی پہلے ہوا تھا۔ زلزلے سے اگلے دن جب ہم دوست مظفر آباد جانے لگے تو وہاں سے ہمارے دوست مرحوم سید افتخار حسین شاہ صاحب کا فون آیا کہ آتے وقت کھانے پینے کا سامان مت لائیے بلکہ صرف کفن لائیے۔ یہاں سب سے زیادہ کمی کفن کے کپڑے کی ہے۔ ہم ہری پور سے نکلنے لگے تو دیکھا کہ میزائل چوک پر واقع ایدھی سنٹر میں زلزلہ زدگان کے لیے کفن کا کپڑا دینے کی اپیل کا بڑا سا چارٹ لگا ہوا ہے۔ میں زندگی میں پہلی بار ایدھی سنٹر کے اندر گیا اور پوچھا کہ ہمیں مظفر آباد کیا لے کر جانا چاہیے۔ انھوں نے بھی کفن کا نام لیا۔ مجھے ایدھی والوں سے درست اطلاع ملنے پر خوشی ہوئی اور اندازہ ہوا کہ یہ لوگ صرف چندہ بٹورنے کے لیے نہیں بیٹھے۔
لیکن ابھی تک ایدھی والوں کے بارے میں یہ بات ذہن میں تھی کہ یہ لوگ فلاں فلاں گمراہ فرقے کے ہیں اور انسانی اعضا بیچنے اور بم دھماکے کرانے میں خود ملوث ہیں۔ ہمیں یہ باتیں ہفت روزہ تکبیر کے ذریعے معلوم ہوئی تھیں۔ اس میں صداقت بھی ہوگی کیونکہ تکبیر ایک معتبر جریدہ ہے لیکن مجھے ہری پور اور مضافاتی علاقوں یعنی ایبٹ آباد اور مظفر آباد وغیرہ میں کئی مہینے ان لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ظاہر ہے کہ میں اپنے تحفظات کی وجہ سے ان چیزوں کی ٹوہ میں ضرور لگا رہا تھا۔
ایدھی والوں کی زلزلہ زدگان کے لیے دیانت دارانہ خدمت کا دوسرا اندازہ اس وقت ہوا جب یہ بات ہر طرف پھیل چکی تھی کہ سارے پاکستان سے زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی امداد کے ٹرک غائب ہونے لگے ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ صوبہ سرحد میں داخل ہوتے ہی ٹرکوں کے سودے ہونے لگے۔ یہ بہت اندوہناک صورتِ حال تھی اور ساری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہونے لگی۔ اس موقع پر بھی فوج نے اپنے جوان تعینات کیے جو یہ سامان زلزلہ زدگان تک پوری ذمہ داری سے پہنچاتے تھے۔ ایدھی والوں کے لوگ اس کام میں فوج کے شانہ بشانہ تھے ورنہ ان علاقوں میں اچانک اگ آنے والی بہت کی رفاہی تنظیمیں اور مدارس باہروں باہر یہ سامان وصول کر لیا کرتے تھے۔ جگہ جگہ افغان مارکیٹیں بھی کھل گئی تھیں جہاں یہ سامان فروخت ہوتا تھا۔
امدادی سامان کے ٹرک غائب کرنے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دو تین دن میں اینٹیں کھڑی کرکے اور ٹی آئرن کی چھت ڈال کر اور دو چار تمبو لگا کر چند بے آسرا خاندان ٹھہرا لیے جاتے اور بتایا جاتا کہ یہ بالا کوٹی یا مظفر آبادی بے گھر خاندان ہیں اور یہ ہمارا مدرسہ یا تنظیم ہے، یہ امداد ہمیں دی جائے تاکہ ان لوگوں پر خرچ کی جا سکے۔ پنڈی اور حسن ابدال سے ہی ان ٹرکوں کو گھیر کر لایا جاتا یا ان کو وہیں بیچ کھوچ دیا جاتا جس کا میں عینی گواہ ہوں۔
یہ زلزلہ رمضان شریف میں آیا تھا اور یہ ساری لوٹ مار بھی رمضان کے مہینے میں ہوتی رہی۔ اس مکروہ کام میں چھوٹے موٹے پرچونیوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے مگرمچھ بھی شامل تھے۔
القصہ کراچی کی تشکیل میں جب جناب عبد الستار ایدھی کے پاس جانے کا مشورہ ہوا تو ان کے ادارے کی ہری پور، ایبٹ آباد اور مظفر آباد برانچز کے کام کو براہ راست دیکھنے کا یہ عملی تجربہ میرے پاس تھا۔ اگرچہ کچھ مقامی ساتھی اس ملاقات کے حق میں نہ تھے لیکن میرے اصرار پر راضی ہوگئے. ہم پہنچے تو ظہر کا وقت داخل ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ دفتر کے لوگ یہی سمجھے کہ ہم چندہ دینے آئے ہیں یا کچھ اور کام ہے تاہم میں نے جب ایدھی صاحب سے چند منٹ لینے کا عرض کیا تو عملے کے لوگ ہمیں دفتر میں لے گئے۔ سلام دعا ہوئی۔ میں نے ہری پور سے آنے کا عرض کیا تو یکسو ہوکر بیٹھے اور کچھ سوالات کیے۔ میں نے زلزلہ زدگان کی بحالی کے کام کے دوران میں جو کچھ خود کیا اور جیسا ایدھی والوں کو کرتے دیکھا تھا بیان کر دیا۔ خوش ہوئے۔ ان کے دفتر میں قرآن مجید بھی رکھا ہوا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ چائے پانی کا موقع ہی نہ تھا۔ ان کا بھی روزہ تھا اور ہمارا بھی۔
اب میں نے موقع پاکر تبلیغی جماعت کے ساتھ آنے کا ذکر کیا۔ کہنے لگے بڑا اچھا کام ہے۔ ان کے لیے یہ بات حیرت کا سبب ہوئی کہ زلزلہ زدگان کے لیے تبلیغ والوں نے بھی کام کیا ہے۔ بہت دعائیں دیں اور بہت خوش ہوئے۔
ہم نے اجازت چاہی تو کہنے لگے نماز پڑھا دو۔ مولوی اور پوچھ پوچھ!! میں نے فوراً ہامی بھری اور ہم تینوں ساتھیوں نے جلدی سے وضو کیا۔ ایدھی صاحب پہلے سے وضو سے تھے۔ ان کے دفتر میں دری بچھی تھی اسی پر نماز پڑھائی۔
میں سوچ رہا تھا کہ آج ایک آغا خانی کو نماز پڑھاؤں گا، لیکن ایدھی صاحب نے مجھے شدید مایوس کیا کیونکہ وہ آغا خانی نہیں نکلے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔