ہوم << آؤ اک سجدہ کریں - عدنان کیانی

آؤ اک سجدہ کریں - عدنان کیانی

ایک وقت تھا جب کائنات میں اللہ کے سوا کچھ نہ تھا اور ایک وقت ہو گا باقی رہ جائے گا تو بس اللہ، ہماری ساری کہانی اس بیچ کی ساعت میں لپٹی ہے۔
ایک خاک کے پتلے میں خدائے بزرگ وبرتر نے اپنی روح پھونکی اور کائنات کے کسی گوشے میں کوئی مخلوق ایسی نہ تھی جس کے بدن میں شک کے نشتر نہ اتر گئے ہوں۔تشکیکیت کے اسی پانی میں اس اولی العزم کے پر بھی گیلے ہو گئے جس نے ہزار برس کی بےریا ریاضت سے مقامِ بلند پایا تھا۔
سوال انوکھا تھا۔ بھلا کیونکر ایک رذیل اور بےحقیقت مخلوق روحِ الوہیت کے اظہار کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ بھلا کیونکر پستی کا یہ مکیں کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا مسکن بن سکتا ہے؟ تو کائنات گہری فکر کے سمندر میں غوطے کھاتی تھی کہ امتحان اور بھی مشکل کر دیا گیا۔ ایک مہرباں مسکراہٹ کے جلو میں سجدے کا حکم صادر ہو گیا اور ہر سوال کی گردن پر ایک جملہ تیرنے لگا
’’ ہم وہ جانتے ہیں جو تم نہیں جانتے‘‘
صدورِ حکم کے بعد کھیل بڑا واضح ہو گیا۔ ایک گروہ فرشتوں،اور موجودات کا تھا جنہوں نے اپنے سینوں میں اٹھنے والے ہر سوال کو تقدس کی موٹی چادر میں لپیٹ کر اونچے طاقچوں میں رکھ دیا(جہاں انکے بے اختیار ہاتھ اگر چاہتے بھی توپہنچ نہ پاتے) اور سجدے میں گر پڑے۔ ایک گروہ شیطان اور اس کے حوارین کا تھا جنہوں نے اپنی جبینوں پر مچلتے سجدوں کو اس وقت تک روک رکھنے کا عزم کیا جب تک کہ ان پر اس حکم کی منطق کھول نہیں دی جاتی۔ جیسے ہی دلیل مکمل ہو گی انہیں سجدے میں گرتے ایک لمحے کا توقف نہ ہو گا۔ اور تیسرا گروہ خود انسانوں کا ہے۔ ہم دونوں گروہوں کے کہیں بیچ میں ہیں۔ ہم بنا دلیل کے مانیں تو فرشتوں ، جمادات، نباتات اور حیوانات کے مقام پر جا گریں اور اگر دلیل مکمل ہونے کا انتظار کریں تو شیطان اور اسکے حواریوں میں ملا دیے جائیں۔
وقت کی اس گہری رات میں ہم بہت بار فرمانِ رب پر اندھے ہو کر گرے اور بہت بار شک کی دیو قامت لہریں ہمیں اٹھائے اتنا اونچا لے گئیں کہ ہم خود رب کے باب میں بھی بدگمان ہو لگے۔ لیکن ہم کسی ایک مقام پر ٹھہر نہ سکے۔ ہمارے اندر کچھ ہے۔ ایک دو رخا آئینہ جس میں ایک سمت دیکھتے ہیں تو ایک ایسی مجبورِ محض مخلوق کو پاتے ہیں جس کی سانس بھی چلتی ہے تو رحمتِ پروردگار کے طفیل اور دوسری سمت دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں خود خدا کا چہرہ۔
ہم اگر صبحِ ازل کے ان ملگجے اندھیروں میں دیکھ پاتے تو دیکھتے کہ آدم کے سامنے سجدے میں گر جانے کا حکم محض شیطان اور فرشتوں کے لیے نہیں تھا بلکہ خود آدم کے لیے بھی تھا۔وہ سجدہ تو اس روح کو تھا جو پروردگارِ عالم نے آدم میں پھونکی تھی تو پھر بھلا آدم کو اس سجدے سے رخصت کیسے مل سکتی تھی؟
آدم کو بہشت سے محض شجرِ ممنوعہ نے نہیں نکالا بلکہ اس سجدے کی تڑپ نے نکالا جو اس نے ابھی کرنا تھا۔ بہشت جیسے مقام پر جہاں کسی کو نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ کوئی حزن سے دوچار ہوتا ہے، تبھی ہم آدم کو شجرِ ممنوعہ کے لیے مضطرب پاتے ہیں تو صرف اس لیے کہ اسے ایک سجدہ ابھی کرنا تھا۔ ایک ایسا سجدہ جو حکمِ الہی کی اندھی تقلید میں ہوتا اور نہ وہ دلیلِ الہی کا منتظر رہتا بلکہ اسے تو اپنی دلیل خود بننا تھا۔ بھلے اس کے گرد کتنا بھی اندھیرا ہو مگر اسے ٹٹولتے، گرتے پڑتے، ٹھوکریں کھاتے اس دیے تک پہنچنا ہی تھا جو اِک محبت کرنے والے نے اس کے اندر رکھ دیا تھا۔ وہ دیا جو اگر جل اٹھا تو اس پتلا خاکی میں خدا کے چہرے کی جھلک نظر آئے گی اور شیطان سے فرشتوں تک ساری کائنات ایک ابدی سجدے میں گر جائے گی۔
پر یہ تلاش آسان نہیں ہے۔ ہم جسم کے بام ودر میں جتنا چاہیں بھٹک لیں خدا کو نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔ ہمارا دو رخا آئینہ کوئی کنجی نہیں بس ایک قطب نما ہے۔ بس ایک ندا ہے ہمیں بتانے کو کہ ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘۔ ہم علم ، عقل، وجدان کی کتنی بھی اونچی سیڑھی پر چلے جائیں مقامِ خدا اور ہم میں لا متناہی فاصلے حائل رہیں گے۔ اور لامتناہی فاصلے بھلا کون طے کر سکتا ہے؟
تو مان لیں کہ آپ خدا تک نہیں پہنچ سکتے۔ پر لامتناہی لفظ کے سارے بھید میرے رب کے سامنے کھلے ہیں۔وہ تو لامتناہی کائناتوں کی تخلیق کیلئے ‘‘کن فیکون’’ کہنے کا بھی محتاج نہیں ہے۔تو بھلے آپ خدا تک نہیں پہنچ سکتے پر مان لیں کہ وہ آپ تک پہنچ گیا ہے۔ کوئی آئینہ شاید اتنا شفاف نہ ہو کہ ہم جس میں اسے اپنے چہرے میں دیکھ پائیں مگر ہم کم ازکم دوسرے انسانوں کیلئے تو اس چہرے کے اظہار کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ جب ہم بھوک سے بلکتے بچوں کو اپنے حصے کی روٹی دیتے ہیں، جب ہم دشمن کی چھاتی پر بیٹھ کر تیز دھار خنجر کو اسکی گردن پر رکھتے ہوئے اسے معاف کر دیتے ہیں، جب ہم علم کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کرتے ہیں تو ہمارا اپنا چہرہ کہیں پیچھے چھپ جاتا ہے اور وہ لوگ دیکھ پاتے ہیں تو بس ان کے رب کا چہرہ۔
زندگی ہر روز ہمارے سامنے نئے سوال رکھے گی۔ لیکن سوال جو ہمارے دل میں اٹھنا چاہیے وہ ایک ہی ہو گا کہ ‘‘میرا رب اگر یہاں ہوتا تو انکے ساتھ کیا معاملہ کرتا؟’’
کیا وہ سردی سے ٹھٹھرتے بوڑھے کو چھوڑ کر اپنی گرم پوشاک میں آگے بڑھ جاتا؟
کیا وہ دشمن کی تلواروں کے خوف سے کلمہ حق سے منکر ہو جاتا؟
کیا وہ علم دینے میں بخیلت سے کام لیتا؟
جب ہم خدا کے حکم اور بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے جواب دینے کی سعی کرتے ہیں تو دیکھنے والے کو ہمارے چہرے پر واحد و لا شریک رب العزت کے ہونے کا یقین کامل کر دیتا ہے ۔ اور ایک وقت آئے گا جب نوعِ انسانی خواہشات کی بے معنی ردا ئیں اتار پھینکے گی، جب وہ اپنی آرزؤں کی تلوار اس بادشاہِ عظیم کے قدموں میں لا رکھے گی اور پھر کائنات میں کچھ بھی نہ رہے گا سوائے خدائے واحد لا شریک کے۔ وہ دن ہو گا جب پوری کائنات یکسو ہو کر ایک سجدہ عظیم میں گر جائے گی_

Comments

Click here to post a comment