ہوم << ”پوسٹر بوائے“ - جدوجہد آزادی کا نیا استعارہ - اُسامہ عبدالحمید

”پوسٹر بوائے“ - جدوجہد آزادی کا نیا استعارہ - اُسامہ عبدالحمید

usama abdul hameed
مقبوضہ وادی کشمیر کے عوام نے شاید اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستانی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عوام ان کی جہدِ آزادی کی اخلاقی اور سفارتی حمایت تو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن بدلتے عالمی تناظر میں کچھ محاذوں پر شاید اب تعاون کبھی ممکن نہ ہوسکے۔ اب جو کچھ کرنا ہے، کشمیری عوام کو کسی بیرونی امداد کی توقع کیے بغیر ازخود کرنا ہے۔ اس حقیقت کے ادراک نے کشمیریوں کے اندر اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوکر غاصب قوت کو للکارنے کی جرات پیدا کردی۔ کشمیری نوجوان ہزاروں کی تعداد میں غلامی کا شکنجہ توڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ گزشتہ چند برس سے جدوجہد آزادی کشمیر کے اندر ایک نئی تیزی اور ولولہ دیکھنے کو ملا۔ کبھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں بھارت کی شکست پر کشمیری نوجوان دیوانہ وار پاکستانی پرچم لہرانے نکل کھڑے ہوئے تو کبھی حریت کانفرنس کی اپیل پر نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ کرکے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے میں کامیاب رہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں سے جھٹک کر تحریک آزادی کی جدوجہد میں جی جان سے شامل ہوئے اور تحریک مزاحمت میں نئی روح پھونک دی۔ برہان مظفر وانی اسی دستے کی اگلی صفوں میں شامل ایک بانکا نوجوان تھا جو چند روز پہلے سرینگر سے پچاسی میل جنوب میں واقع کوکر ناگ میں بھارتی آرمی اور وادی کی پولیس کے ایک مشترکہ آپریشن میں مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوا۔
ستمبر 1994ء میں پلوامہ کے علاقے ترال کے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولنے والے برہان وانی نے ہوش سنبھالا تو اس کے اردگرد کی زندگی اپنے معمول کے مطابق انتہائی پرسکون انداز میں چل رہی تھی۔ وانی کا اول و آخر عشق کرکٹ تھا۔ علاقے بھر میں وہ اپنی جارحانہ بلے بازی کے سبب مشہور ہوا۔ مخالف بائولروں کے چھکے چھڑانے والے برہان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک روز اس انداز سے دنیا کی منظم ترین فوج کی ناک میں دم کردے گا کہ اس کے سر کی قیمت لاکھوں روپے مقرر کرنی پڑے گی۔
تاہم اس کی زندگی میں ایک فیصلہ کن موڑ 2010 ءمیں آیا جب وادی میں تعینات بھارتی فوج کے ایک سپاہی نے برہان کے بھائی کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ قریب موجود 16 سالہ برہان یہ منظر دیکھتے ہی فیصلہ کرچکا تھا کہ اب اسے بلا اور گیند چھوڑ کر بندوق اور گولی سے کھیلنا ہے۔ اس نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی۔
وانی صرف کھیل کا شوقین ہی نہیں تھا بلکہ پڑھائی میں بھی نمایاں تھا۔آٹھویں جماعت میں 90فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے اس ہونہار طالبعلم کو حریت پسندوں سے تعلق کی پاداش میں میٹرک کے امتحان سے صرف ایک ہفتہ پہلے گورنمنٹ ہائی سکول ترال سے خارج کر دیا گیا۔ اگرچہ اس کے والد اسی سکول کے ہیڈماسٹر تھے تاہم افسران بالا کے دبائو کے سبب وہ اپنے بیٹے کی مدد کرنے سے معذور تھے۔ اس جھٹکے نے برہان کے سامنے اس کی منزل مزید واضح کر دی اور اب وہ یکسو ہوکر جدوجہد آزادی کی راہ کا راہ رو بن گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وانی نے عسکری جدوجہد کے چھے سالہ دور میں ایک آدھ کے علاوہ خود کسی عسکری کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ تاہم اپنی تخلیقی صلاحیت اور منصوبہ سازی کے شاہکار ذہن کی بدولت اس نے بھارت سرکار کو ایسے ایسے زخم دیئے کہ اس کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کردی گئی۔ وانی نے ہندوستانی فوج اور املاک پر کئی کامیاب حملوں کی پلاننگ کی تاہم اس نے اپنی اصل قوت سوشل میڈیا کو بنایا۔ تقریری صلاحیت اس کے اندر بے پناہ تھی۔ چنانچہ وہ چھوٹے چھوٹے آڈیو اور ویڈیو کلپ بناتا اور ان کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو جہد آزادی کا عملی حصہ بننے کی دعوت دیتا۔ ان کلپس کو وہ فیس بک اور وٹس ایپ جیسی سماجی ویب سائٹس پہ پوسٹ کرتا۔ شخصیت تو اس کی دلآویز تھی ہی ،سونے پہ سہاگہ اس کی گفتگو ہوتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے کیرئر کی فکر سے بے پروا ہوکر اسلحہ تھامے نکلتے رہے۔
بھارتی میڈیا نے خود اعتراف کیا ہے کہ وانی نے جنوری 2015ء سے جولائی 2016ء تک صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں سینکڑوں نوجوانوں کو بھارتی فوج کے مقابل لا کھڑا کیا۔ یہ سوشل میڈیا پہ اس کی طاقت ہی تھی کہ جیسے ہی اس کی شہادت کی اطلاع عام ہوئی، بھارتی حکومت اور فوج کے بڑے بڑے سورما ایک دوسرے کو ٹوئٹر پہ ایسے مبارک باد دے رہے ہیں جیسے کوئی ملک فتح کرلیا گیا ہو۔ ٹوئٹر پہ ان مبارک بادی پیغامات میں چار وناچار برہان کی ہیبت اور طاقت کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے۔
wani 02
وانی چھوٹے ویڈیو پیغامات میں بھارتی فوج کو دھمکیاں بھی دیتا۔ اس کے علاوہ اس نے پہلے دن ہی سے اپنی دلکش تصاویر پوسٹ کرنا شروع کیں جن میں اکثر وہ بندوق اٹھائے کھڑا ہوتا تھا۔ یہ تصاویر آن کی آن میں سوشل میڈیا پہ وائرل ہوجاتیں اور نوجوان اس کی جانب کھنچے چلے آتے۔ وہ کبھی اپنا چہرہ چھپانے کے لیے ماسک کا استعمال نہیں کرتا تھا۔ اس کی انھی سرگرمیوں کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے اسے حزب کے ”پوسٹر بوائے“ کا خطاب دیا۔
بھارتی فوج کے کئی اعلیٰ افسران نے اعتراف کیا ہے کہ وانی کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اترتی تھی چنانچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی برہان کو اپنا راہبر ماننے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر وادی میں جنگل کی آگ کی مانند پھیلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وادی میں ہنگامے پھوٹ پڑے جنھیں ریاستی مشینری 18 جانیں لینے کے بعد بھی کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ لاکھوں کشمیریوں نے اپنے محبوب رہنما کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بھارتی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“ کے مطابق سرینگر کی وسیع و عریض عید گاہ میں جگہ اتنی کم پڑگئی کہ 9 جولائی کو لگ بھگ چالیس مرتبہ وانی کی نماز جنازہ ادا کرنا پڑی۔ وادی کے مختلف حصوں میں ہزاروں لوگوں نے جو غائبانہ جنازے پڑھے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ جنازے کے موقع پہ عیدگاہ کے باہر کشمیری خواتین روایتی کشمیری گیت گاکر اپنے شہزادے کو الوداع کر رہی تھیں۔ جبکہ اس موقع پہ حزب المجاہدین نے 21 گولے فائر کرکے وانی کو سلامی پیش کی۔ وانی کے والد نے بھارتی اخبار ”دی ہندو“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوسٹر بوائے اب اپنے رب کے حضور پیش ہوچکا ہے اور انھیں اللہ سے اس کے لیے بہترین جزا کی امید ہے۔

Comments

Click here to post a comment