جب کربلا کی زمین شہیدوں کے خون سے سیراب کی گئی، ظالموں کے لشکر نے معصوم سروں کو نیزوں پر چڑھایا، حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے، پاکیزہ بیٹیاں قیدی بنالی گئیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی روایات کہ تنہا حسین اور ہزاروں کا لشکر، وہ بھوک پیاس، بچوں کی آہ و زاری۔ کربلا کی زمین نے اہلِِ بیت کی مظلومیت دیکھی۔۔۔ اور۔۔۔ انسانی تاریخ نے روزِ اوّل ہی سے حق اور باطل کی کشمکش میں اسی طرح خدا کی زمین انسانی خون سے لالہ زار بنتے دیکھی ہے۔
ہر برس محرم الحرام میں ہم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کی مظلومانہ شہادت کو یاد کرتے ہیں، ان تاریخی حقائق اور واقعات کو دہراتے ہیں، ہر سال اسی آہ و بکا میں یہ مقدس مہینہ یوں گزرتا ہے کہ اس نالہ و فریاد میں پیغام حسین دب کر رہ جاتا ہے۔
نواسۂ رسول ﷺ کی قربانی کی لازوال داستان میں اس کے سوا کیا سبق ہے کہ انسانوں پر انسانوں کی حکومت جب بھی قائم ہوگی انسان ظلم اور فساد کی آگ میں جلنے لگیں گے۔ ہر سال محرم ہمیں یہ یاد دلانے آتا ہے کہ اہلِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی ملوکیت، شہنشاہیت اور آمریت کو قبول نہ کریں اور زمین پر عدل اور اللہ کی حاکمیت کے نظام کو قائم کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی بھی لگانا پڑے تو دریغ نہ کریں۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید سے کوئی ذاتی پرخاش نہ تھی۔ نہ امام عالی مقام کے مقام و رتبہ کے یہ بات شایانِ شان تھی کہ وہ محض شخصی عداوت کی بنا پر اتنا بڑا قدم اٹھاتے اور اپنی جان کی قربانی کے ساتھ اہلِ بیت کو اتنی شدید آزمائش میں ڈالتے۔ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام یہ ہے کہ جب کسی ملک میں ظلم اور فساد بڑھتا ہے تو اس کے ذمے دار اس ملک کے حکمران ہوتے ہیں، اور اگر خلافتِ راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہو رہی ہو تو مصلحت سے کام لینا اسوۂ حسین رضی اللہ عنہ سے روگردانی ہے۔ ایسی صورت میں دل میں برا سمجھنا یا نمائشی بیان بازی اور نام نہاد قراردادوں سے آگے بڑھ کر اعلانِ بغاوت لازم ہے۔ منصبِ خلافت پر اگر نااہل افراد کو مقرر کردیا جائے تو اسی طرح شہنشاہیت اور چند خاندانوں کی حکومت قائم ہوجاتی ہے جنہیں غریب عوام کی بھوک، علاج اور تعلیم و تربیت کے بجائے اپنے اکاؤنٹس اور اثاثے بڑھانے اور اپنی سیکورٹی کی فکر لاحق رہتی ہے۔
اِس سال شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کی یاد ہم جن حالات میں منا رہے ہیں، یہ وہ وقت ہے جب کرۂ ارض پر ملوکیت و شہنشاہیت نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، پڑوس میں ہندوستان کی فوج نے کشمیر میں کربلا بپا کر رکھی ہے تو حسینہ واجد کے ناپاک اقدامات نے بنگلہ دیش کو کربلا بنا رکھا ہے۔ ساری مسلم دنیا میں فوجیں خود اپنے ہی عوام سے برسر پیکار ہیں۔ ہر جگہ بہنے والا خون لاالٰہ کے وارثوں کا ہے۔ مسلمانوں کے نام پر جو حکمران مسلط ہیں وہ یزید کے پیروکار ہیں۔ ساری مسلم دنیا کے عوام حسین بن علی رضی اللہ عنھما کو یاد کرکے رو تو سکتے ہیں، نوحہ کرسکتے ہیں، مگر امام عالی مقام کا راستہ اختیار کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ شہادتِ حسین کے پیغام پر پردہ ڈالنے کے لیے امتِ مسلمہ کو فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارا گیا ہے، کہ کہیں ان کا اتحاد امریکی سامراج اور اس کے کارندوں کے خلاف پھر سے جذبۂ حسینی کو زندہ کرنے کا سبب نہ بن جائے۔
وقت کے طاغوتوں کو للکارنے کی یہی قیمت ہوا کرتی ہے، اور جنہیں جان و دل عزیز ہوتے ہیں وہ اس کوچہ کا رخ ہی کب کرتے ہیں! نواسۂ رسول ﷺ نے اپنے لہو سے امتِ مسلمہ کے لیے جرأت کا ایک باب رقم کیا ہے۔ بقول سید اسعد گیلانی ’’خدمت و ملوکیت کے دوراہے پر جو سرخ نشان امام حسین رضی اللہ کے خونیں پیرہن کا آویزاں ہے، اس شہادت نے ہماری تاریخ میں ایک خطِ مستقیم کھینچ دیا جو دورِ خلافت اور دورِ ملوکیت کو اپنے خون سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ امتیاز اَن مٹ ہے، ملت کی تاریخ میں اس مخصوص چوراہے پر شہادت واقع ہوجانے سے یہ شہادتِ عظیم بن گئی۔ کربلا کا واقعہ عراق کی سرزمین کے ایک گوشے میں نہیں بلکہ تاریخ کے چوراہے پر واقع ہوا ہے اور میدانِ کربلا بالآخر ہماری تاریخ کا چوراہا بن گیا ہے۔‘‘
امام حسین رضی اللہ عنہ نے سر کٹا کر سبق دیا کہ جو سر کٹ نہیں سکتا اسے جھکنے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، اور کاسۂ گدائی اٹھانے والے کبھی سر اٹھا بھی نہیں سکتے۔ اب تک کی تاریخ اس کی شاہد ہے۔ جو اصولوں کی خاطر سر کٹانا نہیں جانتے ان کے سر یونہی گاجر مولی کی طرح کٹتے ہیں۔ جب ایمان اور جذبۂ جہاد کمزور ہوجائے تو بیرونی دشمنوں کو بہت اسلحہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وقت کے ہلاکو شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں لیکن نہ کہیں مردانِ حق ہیں نہ لا الٰہ کی شمشیریں۔ اور جہاں بے تیغ سپاہی لڑ رہے ہیں اور شجاعت کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں وہاں آج بھی باطل پر لرزہ طاری ہے۔ لیکن ہم جو ایٹمی قوت ہیں، جدید ترین میزائل رکھتے ہیں، ایسی مفتوح قوم ہیں جو لہو بھی بہا رہی ہے اور آنسو بھی۔ جس کی بقا، استحکام اور خودمختاری حملوں کی زد میں ہے، اس لیے کہ
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نمناک
یہ خودی اور خودداری وہ کانٹا ہے جو ل کے یزیدوں کو بھی کھٹکتا تھا اور آج کے یزیدوں کو بھی کھٹکتا ہے۔ دستِ قاتل کو ہم خود ہی خنجر فراہم کررہے ہیں اپنی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا اور خوئے غلامی کو پختہ کرکے۔
جو تماشائے سیاست آج ہے
جھوٹ کے بازی گروں کا راج ہے
وہ یزیدی یہ حسینی الاماں
کیا انھیں کچھ کربلا کی لاج ہے؟
امام حسین رضی اللہ اور شہدائے کربلا نے یزید کی خلافت کی صورت میں اسلامی ریاست کے دستور، مزاج اور نظام کا خون ہوتے دیکھا تو اس تبدیلی کو روکنے کے لیے اپنا سب کچھ فرضِ عین سمجھتے ہوئے لٹا دیا۔ اسلامی ریاست کا دستور اور بنیادی اصول اتنی بڑی چیز ہیں جو زندگی جیسی قیمتی چیز سے بھی بڑی متاع ہیں۔ آپؓ نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ دین فقط نماز، روزے اور انسان کو انسانوں اور مادّے کی غلامی کے لیے نہیں پیدا کیا گیا ہے، اسی لیے رہتی دنیا تک کربلا کو آزادی کے مکتب کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور سیدنا حسینؓ کو اس کے معلم کی حیثیت میں، کہ نظامِ کفر کی غلامی سے بہتر حق کے راستے میں جان دے دینا ہے۔ امام حسینؓ کے خون کا ہر قطرہ اپنے چاہنے والوں کے لیے عظیم سبق چھوڑ کر گیا ہے جس کو ہم نے بدقسمتی سے آہ و بکا اور کچھ رسمی اعمال کی تہ میں چھپا دیا ہے، جب کہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں آپ کا یہ ارشاد رقم ہے کہ ’’لوگو! رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حلال کرنے والے، خدا کے عہد کو توڑنے والے اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً اور عملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی تو خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو اس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے، آگاہ ہوجاؤ ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے، ملک میں فساد پھیلایا اور حدود اللہ کو معطل کردیا ہے، یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں، انھوں نے خدا کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کرلیا ہے، اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے۔‘‘ (ابن کثیر/الکامل فی التاریخ۔ 40/4)
اس ارشاد کی روشنی میں آج کے حکمرانوں کے طرزِعمل اور اپنی جرأتِ اظہار اور حق نوائی کا جائزہ لے لیں۔
تمہارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا
تبصرہ لکھیے