ہوم << مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے - حسن رضا چنگیزی

مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے - حسن رضا چنگیزی

حسن-رضا-چنگیزی-1-1.jpg زمانہ طالب علمی کی بات ہے۔ میں اور میرے دوست عام لا ابالی نوجوانوں کی طرح گھومنے پھرنے بلکہ بقول والدین آوارہ گردی کے شوقین تھے۔ ہمارے گروپ میں شیعہ اور سنی دونوں مسالک کے دوست شامل تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہم نے کبھی آپس میں مسلکی موضوعات پر کوئی گفتگو کی ہو۔ زندگی بڑے نارمل انداز میں بسر ہو رہی تھی۔ ان دنوں میرے کئی شیعہ دوست شیروانیاں زیب تن کر کے ایک مقامی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے جبکہ سنی دوست شام کے اوقات میں ٹوپیاں پہنے علاقے کی مساجد میں قرآن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ کون شیعہ ہے اور کون سنی، نہ ہی ہم ان موضوعات پر کبھی آپس میں بحث کیا کرتے۔
اس کے برعکس ہم نہ صرف اکھٹے پکنک منایا کرتے بلکہ محرم کی رسومات میں بھی مل جل کر شرکت کرتے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ہمارے سنی دوست بھی ہمارے ساتھ محرم کی مجالس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ دوسری طرف محلے کی مساجد کے طالب علم بچے جب شام کے وقت ہر دروازے پر دستک دے کر ”ٹکی راوڑی خیر یوسی“ کی آواز لگا کر مسجد کے طالب علموں کے لیے کھانا جمع کرتے تو محلے کی دیگر ماؤں کی طرح میری ماں بھی ان کے برتن میں ہمیشہ کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ڈال دیتی۔ تب مساجد اور امام بارگاہوں میں لاؤڈ اسپیکر پر بلند آواز میں خطبہ دینے کا چلن عام نہیں تھا۔ عاشورہ کے دن شیعہ ماتم کرتے تو سنی نذر و نیاز اور سبیل کی ذمہ داریاں سنبھالتے۔ علمدار روڑ پر واقع حاجی رفیق کا ”چکوال گرم حمام“ عاشورہ کے دن بال سنوارنے اور شیو بنانے سے یکسر انکار کردیتا لیکن اسی حمام میں صبح سے ہی پانی گرم کرنے کی تیاری شروع ہوتی تاکہ ماتمیوں کو مفت غسل کرنے کی سہولت میسر ہو۔
لیکن پھر بڑے غیر محسوس طریقے سے سارا نظارہ بدلنے لگا۔ جنرل ضیاءالحق کی پالیسیوں اور ایرانی انقلاب کی حشر سامانیوں کے باعث مساجد اور امام بارگاہوں میں لاؤڈ اسپیکر کی آوازیں بلند سے بلند تر ہونے لگیں۔ داڑھیوں کے سائز میں اضافے کے ساتھ دلوں میں کدورتیں بھی بڑھتی گئیں اور زبانیں محبت کا پرچار کرنے کے بجائے زہر اگلنے لگیں۔ ہمیں پہلی بار اس بات کا احساس دلایا گیا کہ چونکہ ہم شیعہ ہیں، اس لیے حق پر ہیں، جبکہ ہمارے سنی دوستوں کو اس بات کا یقین دلایا گیا کہ جنت صرف ان کے لیے بنی ہے۔
انہی دنوں پاکستان میں فقہ جعفریہ نافذ کرنے کی مہم چل نکلی اور پاکستان خصوصاَ کوئٹہ کو لبنان بنانے کی باتیں کی جانے لگیں۔ مجھے یاد ہے کہ تب کچھ امام بارگاہوں کے منتظمین میں محرم کے دس دنوں کے لیے پنجاب اور سندھ کے پیشہ ور خطیبوں اور ذاکرین کو بھاری معاوضوں کے عوض ”بک“ کرنے کی ایک دوڑ سی لگ جاتی۔ مجالس میں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ بِھیڑ جمع کرنے کی خاطر ان خطیبوں کے بھاری معاوضوں کی خصوصی تشہیر کی جاتی۔ ان دنوں امام بارگاہ کلان میکانگی روڈ میں پنجاب سے آئے ایک خطیب ضمیر الحسن نجفی کا بڑا شہرہ تھا جو اس وقت کا سب سے ”مہنگا“ خطیب تھا۔ وہ بڑے مضحکہ خیز انداز میں اصحاب رسول ﷺ کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ وہ ان اصحاب کے خلاف بولنے اور تبریٰ بھیجنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ تب اسے محرم کے دس دنوں میں خطابت کے عوض چالیس ہزار روپے ملتے تھے جو شاید آج کے آٹھ دس لاکھ روپے کے برابر ہوں۔
ہم سارے شیعہ دوست ان کے شیدائیوں میں شامل تھے۔ ایک دن میرے کسی دوست نے ایک پرچی پر ان کے لیے سوال لکھ بھیجا کہ ”ہم نماز کے وقت سجدہ گاہ ( مہر) کیوں استعمال کرتے ہیں؟“ ضمیر الحسن نجفی نے اس سوال کے جواب میں ایک لمبی چوڑی کہانی سنائی۔ کہنے لگے ”ایک دن میں پنجاب کے کسی گاؤں سے گزر رہا تھا تو نماز کا وقت آن پہنچا۔ میں نماز پڑھنے ایک قریبی مسجد میں گھس گیا جو سنیوں کی تھی۔ میں نے مصلیٰ بچھایا اور سجدہ گاہ رکھ کر نماز پڑھنے لگا۔ اس دوران مجھے محسوس ہوا کہ مسجد کا امام بڑی بے چینی اور غصے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ میں نے نماز ختم کی تو امام مسجد میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ تم اس ’ٹکیا‘ پہ سجدہ کیوں کرتے ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ کربلا کی اس مٹی پر سجدہ کرنے سے شیطان کو غصہ آتا ہے، کہیں آپ کو تونہیں آیا؟“ نجفی صاحب کا یہ کہنا تھا کہ امام بارگاہ نعرہ حیدری سے گونج اُٹھی۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس نعرے میں میری بلند آواز بھی شامل تھی۔ تب دوسروں کی طرح میں بھی یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ مولوی صاحب نے بڑی چالاکی سے ہمارے دوست کا سوال ایک من گھڑت قصے میں لپیٹ کر ہماری عقل پر دے مارا تھا۔
انھی دنوں ہم نے پہلی بار ”ایک ، دو ، تین پر لعنت“ کا نعرہ اور جواب میں ”بےشمار“ کی تکرار سنی۔ اور انھی دنوں شاید پہلی بار سامنے کی مسجد سے امام بارگاہ کلان پر پتھراؤ کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب اگلے دن ایک شخص نے مولوی (ضمیر الحسن نجفی) سے کہا کہ آپ تو اپنا کام کر کے چلے جائیں گے لیکن آپ کی ان تقریروں کی وجہ سے جو نفرت پھیل رہی ہے، اس کے باعث آج کے بعد ہمیں اسلحہ لے کر گھومنا ہوگا تو جناب کا جواب تھا کہ ”میں نےاپنا کام کردیا، اب آپ لوگ جانیں اور آپ کا کام جانے“۔ موصوف اگلے کئی سالوں تک بھاری بھر کم فیس لے کر نوجوانوں کے اذہان کو زہر آلود کرتے رہے۔
پھر ایک سال محرم کے دوران پنجابی امام بارگاہ میں پنجاب کے ایک اور آتش سخن خطیب کو دعوت دی گئی اور محرم کے آغاز سے قبل ہی بڑے منظم طریقے سے موصوف کی تشہیر کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔ ان کی پہلی خاصیت یہ بتائی گئی کہ وہ پہلے ایک دیوبندی مولوی تھے لیکن اب شیعہ مذہب کی حقانیت قبول کر کے ”راہ راست“ پر آگئے ہیں۔ ان کی دوسری خوبی جو ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنی ان کی بھاری بھرکم فیس تھی۔ اس بات کی خصوصی تشہیر کی گئی کہ انہیں محرم کے دس دنوں کے دوران خطابت کے عوض 90 ہزار روپے دیے جائیں گے جو اس سیزن میں کسی بھی خطیب کو دی جانے والی سب سے بڑی رقم تھی۔ میں اس خطیب کا نام شاید زندگی بھر نہ بھول سکوں۔ اس کا نام مظہر دیوبندی تھا۔ وہ بلا کا خطیب تھا۔ اس کا یہ جملہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ ”مجھ سے پوچھو میں بتاتا ہوں کہ سنیوں میں کیا خرابیاں ہیں، کیونکہ میں 45 سال تک سنی تھا اور ابھی ابھی شیعہ ہوا ہوں۔“
اس وقت اس ”نو شیعے“ کو جتنا معاوضہ اورعزت ملی، اتنی عزت کبھی کسی مقامی شیعہ عالم کے حصے میں نہیں آئی۔ انہی دنوں ایک موقع پر جب دیوبندی صاحب نفرتیں پھیلا کر اور اپنی روزی حلال کر کے منبر سے اترے تو ہم دوست بھی ان کے پیچھے پیچھے پنجابی امام بارگاہ کے مختصر سے حجرے میں چلے گئے۔ سلام دعا کے بعد ہم نے ان سے سجدہ گاہ سے متعلق وہی سوال پوچھا جو اس سے قبل ہم ضمیرالحسن نجفی سے پوچھ چکے تھے۔ پہلے تو انہوں نے تھکاوٹ کا بہانہ بنا کر ہم سے جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن ہمارے اصرار پر انہوں نے جو جواب دیا، وہ آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ فرمانے لگے ”بیٹے میں تو ابھی ابھی شیعہ ہوا ہوں، اس لیے اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، بہتر ہوگا یہ سوال آپ اپنے کسی جید عالم سے پوچھ لیں۔“ ہماری سادگی دیکھیے کہ ہم تب بھی یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ ہمارے ہی چندوں پر پلنے والے یہ پیشہ ور ”علماء“ جو اپنی کمائی کی خاطر مسلک بدلنے پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں، جن کو دین کی معمولی سمجھ بوجھ بھی نہیں اور جو ہمارے اذہان میں اُبھرنے والے بنیادی سوالوں کے جواب دینے کے بجائے انہیں ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں، ہمیں مستقبل میں کن آزمائشوں میں مبتلا کرنے والے تھے۔
وقت گزرتا گیا اور ساتھ ہی سنی امیرالمؤمنین ضیاءالحق کے نظام مصطفیٰ اور شیعہ امام خمینی کے ایرانی انقلاب کی بدولت خطے میں مذہبی جنون بھی بڑھتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی، دلائل کے بجائے پستول، کلاشنکوف اور بموں کے ذریعے بات کرنے کا سلسلہ چل پڑا، گھروں کی دیواریں اونچی ہونے لگیں، اپنی حقانیت ثابت کرنے کی خاطر سعودی عرب اور ایران سے طاقتور لاؤڈ اسپیکر منگوانے کی ریت چل پڑی۔ فتووں کا بازار گرم ہوا، معصوم لوگوں کو ذبح کرنے کی رسم چل پڑی اور میرے سنی ہمسائیوں نے محرم کے دنوں میں نذر و نیاز کا سلسلہ بند کر دیا۔ ساتھ ہی ”ٹکی راوڑی خیر یوسی“ کی آوازیں بھی آنا بند ہو گئیں۔ ماحول پر آسیب کا سایہ پڑ گیا۔ حاجی رفیق اپنا چکوال گرم حمام بند کر کے پنجاب چلا گیا۔ ہمارے اسکول کے کلین شیو استاد ماسٹر عزیز نے اپنی ساری توجہ داڑھی بڑھانے پر مرکوز کر دی اور میرے بچپن کے سنی دوست مجھ سے دور ہوتے چلےگئے۔
پھر تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک بھر سے قتل و غارت کی خبریں آنے لگیں۔ لوگ امن کی تلاش میں ملک سے بھاگنے لگے۔ سینکڑوں لوگ برف زاروں اور سمندروں کی نذر ہونے لگے، بم دھماکے ہونے لگے، ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی، بچے اور عورتیں خون میں نہلانے لگیں اور مائیں اپنے بچوں کو گھر سے رخصت کرتے وقت ان پر دعائیں پڑھ کر پھونکنے لگیں تاکہ وہ خیریت سےگھر لوٹ سکیں۔ لیکن امن ایسا روٹھا کہ اس نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔
میں آج بھی ماضی کے مزاروں میں جھانک کر ایک ایسے پرسکون معاشرے کی تلاش میں ہوں جہاں میں اپنے سنی دوستوں کے ساتھ پھر سے پکنک پر جا سکوں۔ مجھے ایک ایسے معاشرے کی تلاش ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر کسی کو قتل نہ کیا جاتا ہو اور جہاں لوگ شیعہ، سنی یا ہندو، مسلمان اور عیسائی بن کر نہیں بلکہ انسان بن کر رہیں۔ مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے۔ میں ہزاروں ریاض، تہران اور لبنان اپنے کوئٹہ پر قربان کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن کیا کوئی ہے ایسا جو میرا پرانا کوئٹہ مجھے واپس دلا سکے؟
ہے کوئی جو میری مدد کرے؟ ہل من ناصر ینصرنا؟