ایدھی صاحب کے لیے ڈھیروں دعائیں! جو وقتِ آخر بھی انہی کےہمراہ جا سوئے جن کاکوئی وارث نہ تھا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ اس دھرتی کے افق میں غروب ہوتا کل کا سورج اپنے ہمراہ ایدھی کو بھی ساتھ لے جائے گا:
اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
یقین نہیں آرہا آج کراچی کی فضاؤں میں اس ایمبولینس کا سائرن بھی بج اُٹھا جو خود ایدھی کے عنبر فشاں جسد کو اس کی دائمی آرام گاہ کے سپرد کرنے چلی ہے۔ وہ ایدھی کہ جس کے آنگن سے کھٹا کھٹ چھوٹتی پندرہ سو ایمبولینسیں اس شہر بے اماں کی تنگ و تاریک گلیوں میں تو کبھی کشادہ شاہراہوں پر تھرکتی موت کے سرکس تماشوں کے بیچوں بیچ زندگی کا ہُوٹر بجاتی رہیں، تباہ کن باقاعدگی سے جاری دہشت گردی میں لقمہ اجل بن جانے والوں کی لاشیں اٹھا اٹھا انہیں حرمت واکرام آگیں انداز میں سپرد خاک کرنے کا فریضہ ادا کرتی رہیں۔
شہر کراچی کی متعفن گلیوں میں یاسیت سے معمور زندگیوں کو مشکبار کرنے کا عزم لیے ایدھی نے اپنا اوّلین فلاحی کلینک 1951ء میں کھولا۔ مفت علاج کی فراہمی ان کاخواب تھا۔بعد ازاں میٹرنٹی وارڈز، پناہ گاہیں، یتیم خانے اور ایدھی ہومز وجود میں آئے۔ یوں 1951ء میں روشن ہونے والا یہ چراغ کم و بیش 66 برس تک جلتااور ان گنت تاریک زندگیوں میں اجالےبکھیرتا رہا۔ خدمت انسانیت کے شعبہ میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے کسی ایک صفحے کی زینت بنا، جگمگاتا یہ نام اصل میں کروڑوں انسانوںکی زمینِ دل میں گڑا وہ سدا بہار درخت ہے خزائیں جس سے نا آشنا ہیں۔ یہ نام امر ہوگیا۔ کیوں نہ ہو کہ کروڑوں دلوں میں اس کی عظمت کے گیت بجتے، کروڑوں آنکھوں میں اس کی محبت کے آنسو تیرتے ہیں۔
اس مہر ضو فشاں کے بادلوں کی اوٹ میں چھپ جانے کا یہ منظر بھی کیا منظر ہے! وہ کون سی آنکھ ہے جو نم فشاں نہیں، اور وہ کون سا دل ہے جو ایدھی صاحب ایسی عنبر فشاں ہستی کی رخصتی پرآہ فشاں نہیں۔ کامل نصف صدی جو شخص بھیک مانگنے، اور بانٹنے کی خود ساختہ، خود عائد کردہ فریضے کی مشقت میں جُتا دامن فشاں رہا، اس کے سفرِ آخرت کی سواری کے گردوپیش اس شہر بے رنگ کی فضائیں تک آج نغمہ فشاں ہیں کہ:
شہرِ بے رنگ ترے لوگ گواہی دیں گے
ہم سے خوش رنگ بھی تیرے خس و خشاک میں تھے
ایدھی صاحب کا طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ مثال قطرہِ باراں وہ تہی دستوں، معذوروں اور مجبوروں کی دنیائے بے اماں کی بے برگ و بار زمین پر اترنے والے اولین شہسوار تھے، وہ اولین ابر باراں جو برگ و بار کی نوید لائے۔ بلاشبہ آپ نے لاکھوں زندگیاں بچائیں، اور بے شمار بیواؤں اور یتیموں کے لیے کشت امید بنے۔
آج ٹویٹر پر ٹویٹس کی یہ بارش کیوں نہ ہو کہ جانے والا اس دھرتی پر کسی شمار میں نہ آسکنے والی خیرات کی برسوں بارشیں برساتا رہا۔ آج فیس بک کے سٹیٹس ہمک ہمک کر اس کے گیت کیوں نہ گائیں جس نے عمر بھر لاکھوں بے سہارا واداس دل نونہالانِ وطن کی اداسیاں رفع کرنے کو امیدافزا گیت گائے۔ آج اخباروں، ویب سائٹوں اور ٹی وی چینلز پر ایدھی کے نام نامی کا شور کیوں بلند نہ ہو کہ اس نے دم توڑتی انسانیت کے کانوں میں حیات افروز سرگوشیاں کی تھیں۔ سوچتا ہوں موت اس کا نام صفحہ ہستی سے کیونکر کھرچ پائے گی کہ جس کے لہو کی ایک ایک بوند حیاتِ نو کی بوندیں برسانے، زندگی ارزاں کرنے میں وقف رہی۔
سوچتا ہوں کتنی ناپائیدار ہے یہ دنیا جہاں کی چہکتی، ہمکتی زندگی کو آنِ واحد میں ایک بے ضرر سی ہچکی اُچک لے جاتی اور عدم کے تاریک، مہیب جنگلوں میں کہیں پھینک آتی ہے۔ کیسے ناقابلِ اعتبار اور فریبی ہیں یہ گلزار ہفت رنگ جو پل بھر میں اپنی رعنائیاں کھو دیتے، بے رنگ، بے نور ہوجاتے ہیں۔ اِس زارو زبوں جنَتا کی زمینِ مردہ دل پر گھٹا بن کر برسنے، نجانے کتنوں کے تاریک مسکن میں مہ و انجم کی شمعیں جلانے، ہمارے اس برباد آنگن کو قافلہ ہائے بہار سے سجانے، اور ان گنت دم توڑتی زندگیوں کو اپنے لمسِ مسیحا ئی سے حیات نو اَرزاں کر دینے والا پاکستان کا امیر ترین غریب--- عبدالستار ایدھی راہیِ عدم ہوا۔ جیسے کہہ رہا ہو:
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
ساتھیو، ختم ہوئی دیدہِ تر کی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں، ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ راہ آج لیے ہے لبِ دلدار کا رنگ
دیکھیے، دیتے ہیں کس کس کو صدا میرے بعد!
تبصرہ لکھیے