حضرت قبلہ ڈاکٹرطاہر القادری وہ مرد بحران ہیں جو اکثر بقلم خود ہی بحران کے ذمہ وارقرار پائے جاتے ہیں۔ ہر آنے والے سال کے ساتھ ان کے جوشیلے، جذباتی اور جنونی انقلاب کی مدت قیام کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ پہلے یہ انقلاب ہمیشہ کے لیے آنا تھا، دائمی ہونا تھا۔ پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر انقلاب نے چند مہینے ہی قیام پر اکتفا کیا۔ انقلاب کا دوسرا حملہ بھی تاریخ میں چند ماہ سے زیادہ جگہ نہ بناسکا۔ اور اس دفعہ تو انقلاب کا سورج صرف ایک سہ پہر کو نکلا اور سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ انقلاب بھی ڈوب گیا۔ کچھ بعید نہیں کہ اگلا انقلاب چند منٹوں کا ہو یا پھر ممکن ہے کہ داعی انقلاب کینیڈین ائر لائن کی پرواز سے اپنے مریدین کا فضائی دورہ کریں، جہاز کی کھڑکی سے سینہ بکف ہوکر ایک ولولہ انگیز خطاب فرمائیں۔ انقلاب کی راہ میں مرجانے والوں کی قربانی پر داد و تحسین کے ڈونگرے بجائیں، انہیں شہادت کی بشارت سنائیں اور مبارک ہو مسلمانو! مبارک ہومسلمانو! کی گردان کرتے اپنے آبائی گاوں کینیڈا کی جانب عازم سفر ہوجائیں۔
میں ذاتی طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کا بہت معتقد ہوں۔ کوشش کرتا ہوں ان کے ہر ٹی وی انٹرویو، ہر قومی خطاب، ہر بین لاقوامی دورے، ہر دعوے اور ہر دلیل سے استفادہ کروں۔ ان کے بے پایاں علم سے اپنی بے علمی کو منور کرنے کی جسارت کروں۔ ان کے ہر قول زریں پر سر دھنوں۔ یہ کچھ نہیں تو کم از کم ہر ولولہ انگیز جہادی خطاب پرحال ہی پڑے، کچھ جنوںکا سودا ہی سر میں سمائے۔ مگر کیا کیجئے کہ راز کی بہت سی باتیں ہم سے کم عقلوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں۔
اپنے ایک حالیہ انٹرویومیں جب ایک ناہنجار، نابکار اور شیطان صفت اینکر نے قبلہ سے جی کڑا کر یہ سوال کر لیا کہ حضور! یہ درست ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کا درد آپ کے سینے میں سمایا ہوا ہے۔ اس جاہل قوم کی فلاح کا سودا آپ کے سینے میں شعلہ بن کر الائو کی طرح بھڑک رہا ہے۔ لیکن جناب والا اس اہم فریضے کی بجا آوری کے لیے اگر حضور کا قیام بھی اسی ملک میں رہے تو کیا یہ زیادہ مناسب بات نہیں ہوگی؟ سوال کرنے والے کی نیت ہی ایسی تھی کہ قبلہ اشتعال میں آگئے۔ گردن کی رگیں پھول گئیں، چہرہ انار ہو گیا، جلال کی کیفیت تن بدن پر طاری ہوگئی۔ فرمایا اگر میں یہاں رہوں گا تو عالم اسلام کی خدمت کون کرے گا؟ کفار دنیا تک میرا پیغام کیسے پہنچے گا؟ تحریک منہاج القران کا غلبہ سلطنت امریکہ و انگللشیہ پر کیسے ہوگا؟ اقوام متحدہ میں پاکستان کا دفاع کون کرے گا؟ آئی ایم ایف سے مذاکرات کیسے ہوں گے؟ بین الاقوامی طاقتوں میں صلح کون کروائے گا؟ ہر سال دو سو سے زائد مسلم ممالک کا دورہ کیسے ہوگا؟ بتائیں؟ بتائیں؟ مظلوم اینکر اس انقلابی افتاد سے ایسا گھبرایا کہ یہ بھی نہ پوچھ سکا حضور انور دنیا میں کل ممالک کی تعداد بھی اتنی نہیں جتنی مسلمان ریاستوں کے دوروں کا انکشاف آپ نے ایک ہی ہلے میں کردیا۔ ویسے زیادہ حساب کتاب نہیں کرنا چاہیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس لمحے قبلہ جلال میں تھے اور جلال کی یہ مخفی کیفیت کوئی صاحب حال ہی جان سکتا ہے یہ کسی نوکری پیشہ اینکر کے بس کی بات نہیں ۔
ڈاکٹر طاہر القادری سے یہ سوال بھی بارہاپو چھا گیا کہ پار سال جب پاکستان کے ہنگامی و انقلابی دورے پرا ٓئے تھے تو فرمایا تھا کہ اب میرا جینامرنا یہیں ہے۔ میں اپنا سب اسباب یہاں لے آیا ہوں۔ یہیں رہوں گا ،یہیں مروں گا۔ مزید براں قبلہ نے ناظرین، سامعین اور حاضرین کی تشفی کے لیے یہاں تک فرما دیا کہ میں اپنے سامان میں سے آخری موزہ بھی یہاں لے آیا ہوں۔ اس موقعے پر صاحبان عقل و دانش سمجھ گئے کہ جب آخری موزہ بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہجرت کا سفر طے کرچکا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس دفعہ انقلاب آ کر ہی رہے گا۔ باطل کے لشکر کو شکست ہو گی ۔ حق کی فتح ہو گی۔ اور فتح کا جشن ایسے منایا جائے گا کہ قبلہ ہاتھ میں خونی تلوار سونتے کیسری رنگ کے گھوڑے پر سوار ہوں گے اور دشمن چاروں اور سر نگوں ہوں گے۔ لیکن جانے داعی انقلاب کے جی میں کیا سمائی کہ چند مہینوں میں انقلاب کی بساط لپیٹ کر پھر عازم کینیڈا ہوگئے۔ ناسمجھوں نے بہت سمجھایا کہ حضور اب تو وہاں آپ کے موزے بھی نہیں رہے۔ سنا ہے سردی بھی بہت پڑتی ہے کافروں کے اس ملک میں۔ برف بھی قبلہ کی دلیلوں کی طرح ہر وقت سر پر برستی رہتی ہے۔ پھر گھر کا سب سامان بھی تو آپ یہاں لے آئے ہیں، وہاں نیا سامان خریدنا ہوگا، تکیہ ، بستر ، لوٹا، موزہ وغیرہ وغیرہ۔ رخصت کا ارادہ ملتوی کر دیں۔ مگر قبلہ دھن کے پکے نکلے۔ آن کی آن میں یہ جا وہ جا۔ اس اچانک رخصت کی وجہ جاننے کی کئی ناسمجھ ٹی وی اینکروں نے بہت کوشش کی۔ پہلے تو قبلہ نے اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف اور عالم اسلام کی خدمت وغیرہ کی دلیلوں سے کام چلایا مگر جب یہ اینکر بچوں کی طرح ضد کرنے لگے تو ڈاکٹر طاہر القادری نے انکشاف کر ہی دیا۔ انقلاب جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ اسے گھمایا اور انقلاب آگیا۔ انقلاب بچوں کا کھیل بھی نہیں ہے۔ بھئی انقلاب آتے آتے ہی آتا ہے۔ اب انقلاب کے انتظار میں دنیا کے دھندے رک تو نہیں جاتے ۔ اور پھر آئی ایم ایف، اقوام متحدہ کب کسی کا انتظار کرتے ہیں وہاں ہماری موجودگی ضروری ہے۔ ہم یہاں رکے رہتے تو تو دنیا میں نہ جانے کیا سے کیا ہو جاتا۔ وہ تو غنیمت ہوئی کہ ہم دنیا کے دورے پر نکل گئے ورنہ شاید تیسری عالمی جنگ چھڑ جاتی، افریقہ میں قحط آ جاتا، جاپان زلزلوں سے ختم ہو جاتا، امریکہ اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جاتاوغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے مرید بھی لاجواب ہیں۔ ان کی جماعت کے ایک سربرآوردہ رکن سے ایک ٹی وی شو میں سوال کیا گیا کہ کل کے جلسے میںکتنے افراد کی شمولیت کا امکان ہے؟ بغیر کسی تامل کے ارشاد فرمایا دو کروڑ۔ پروگرام کے پینل کے دیگر مہمان بشمول اینکر کے ایک لمحے کے لیے تو سکتے میں آگئے۔ پہلے تو کچھ دیر احمقوں کی طرح سر ہلاتے رہے، پھر اینکر نے جی کڑا کر عرض کیاقبلہ بالفرض محال اگر یہ لوگ جمع بھی ہو گئے تو اکھٹے کہاں ہوں گے؟ کھائیں گے کہاں سے؟ رہیں گے کہاں پر؟ شاگرد رشید نے رسان سے جواب دیا کہ آپ قبلہ کی انقلابی پکار پہچان نہیں پائے۔ قبلہ چاہیںتو سارا عالم اسلام مال روڈ پر جمع ہوجائے۔ اس مدلل بیان کے بعد اب کی بار کسی میں جرات نہیں ہوئی کہ پوچھ سکے کہ سارا عالم اسلام مال روڈ پر کیسے جمع ہوسکتا ہے؟ اینکر نے مارے خجالت کے شاگرد رشید سے کوئی مزید سوال کی ہمت ہی نہیں کی اور باقی ماندہ وقت دیگرمہمانوں سے بے سروپا گفتگو میں گزار دیا۔
میری کیا بساط کہ ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی سوال کرسکوں۔ بس ایک استدعا کا خواہشمند ہوں کہ حضور اب کی بار جب انقلاب کا سودا سر میں سمائے اور رخ انور پاکستان کی جانب ہو تو اس دفعہ کچھ بنیادی باتوں پر گفتگو ہو جائے۔ بھوک، افلاس اور غربت کا سدباب ہوجائے۔ سارے پاکستان کی نہ سہی آپ کے ماننے والوں کی حالت ہی سنور جائے۔ انقلاب سے آپ کے سوا بھی کسی کو کچھ مل جائے۔
خیر وقت تنگ ہے اور قبلہ کی کرامات کاقصہ طویل ہے۔ فی الوقت فیض صاحب سے معذرت کے بعد بات ختم ہوتی ہے
آئے کچھ شرم، کچھ حجاب آئے
اس کے بعد آئے جو انقلاب آئے
تبصرہ لکھیے