ہوم << سرجیکل اسٹرائیک اور اسلام کی تعلیمات - رضی الاسلام ندوی

سرجیکل اسٹرائیک اور اسلام کی تعلیمات - رضی الاسلام ندوی

رضی الاسلام ندوی آج کل سرجیکل اسٹرایک کا بہت چرچا ہے. اس کی گونج سب سے پہلے ہندوستان کے حکم رانوں کی زبان سے سنی گئی. انھوں نے دعوی کیا کہ ان کی فوج نے پاکستان میں سرحد کے کئی کلومیٹر اندر گھس کر کارروائی کی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ و برباد کر دیا، اس طرح اس خونی کارروائی کا بدلہ لے لیا جو پاکستانی گھس بیٹھیوں نے اڑی کے فوجی ہیڈکوارٹر میں انجام دی تھی. پھر تو یہ اصطلاح دوسرے ممالک بھی استعمال کرنے لگے، خبر آئی کہ امریکہ شام میں محدود سرجیکل اسٹرائک پر غور کر رہا ہے.گویا اب تک وہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریزاں رہا ہے اور ان کی سالمیت اور اقتدارِ اعلی کااحترام کرتا رہا ہے. پھر تو یہ اصطلاح مذاق بن کر رہ گئی اور تفریحِ طبع کے طور پر کرکٹ اور دیگر میدانوں میں بھی اس کا استعمال ہونے لگا.
ممالک کی سرحدوں کا احترام ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے. حالتِ امن میں اس کی پابندی مہذّب ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کو سخت معیوب تصوّر کیا جاتا ہے. اسلام نے اس کو کتنی اہمیت دی ہے اور اس کی پامالی سے کتنی سختی سے روکا ہے، اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے:
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رومیوں سے ایک مدّت تک کے لیے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ تھا. انھوں نے سوچا کہ اس عرصہ میں اپنی فوج کو سرحد کے قریب کردیں، تاکہ مدّت پوری ہونے کے بعد اس کی توسیع نہ کریں، بلکہ مسلم فوج فوراً دشمن پر حملہ آور ہوجائے. انھوں نے فوج کو سرحد کی جانب کوچ کرنے کا حکم دے دیا. فوج نے ابھی تھوڑا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ پیچھے سے ایک شخص برق رفتاری سے گھوڑا دوڑاتا ہوا پہنچا. وہ چیخ رہا تھا: [pullquote]اللہ اکبر، اللہ اکبر، وَفَاءٌ وَلا غَدر[/pullquote] (اللہ اکبر، اللہ اکبر، معاہدہ کی پابندی کرو، غدّاری نہ کرو)
یہ شہ سوار حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے. ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: کسی قوم سے عہد و پیمان باندھا جائے تو جب تک مدت پوری نہ ہو، ہرگز اسے نہ کھولا جائے اور اس پر حملہ نہ کیا جائے، یا فریق مخالف کے علم میں لاکر معاہدہ کو ختم کر دیا جائے.
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچائی گئی تو انھوں نے فوراً فوج کو واپس ہونے کا حکم دے دیا.
(ابوداؤد :2759،ترمذی : 1580، احمد :4/112،281)
یہ ہے اسلام کی تعلیم سرحدوں کا احترام کرنے کے سلسلے میں، جو مذہب حالتِ امن میں ریاست کو اندرونِ ملک فوجی سرگرمیاں تیز کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو، وہ سرحد پار کرکے دوسرے ملک میں چھاپہ مار کارروائی کرنے کی کیوں کر اجازت دے گا؟
کہاں اسلام کی یہ اعلی و ارفع تعلیم اور کہاں مکّاری و عیّاری پر مبنی انسانوں کی دست درازیاں اور ڈھٹائی اور بےشرمی کے ساتھ معاہدوں کی بے دریغ پامالی!