شہر سو ہی گیا ایک مدت سے جاگا ہوا شہر آخر کو سو ہی گیا چادرِ خاک کو اپنا بستر کیے اور سرھانے میں ملبے کا تکیہ لیے دائمی نیند یعنی دمِ حشر تک شہر سو ہی گیا...
شکوے سارے ختم ہوتے گئے تعلق ہمارے ختم ہوتے گئے پھر اک دن ہوا ختم سب کچھ پھر عکس ہمارے مدہم ہوتے گئے جو عکس تھے مدہم وہ ختم ہوئے وہی مدہم ستارے ختم ہوتے گئے...
یوں تو رہے گا رابطہ، کہیں فون کی لکیروں میں، مگر ایک ساتھ بیٹھ کر ہنسنے کی وہ تصویریں نہیں ہوں گی۔ لگا تو دیں گے ہم اسٹیٹس پر سالگرہ کی مبارک باد، پر باغ کی...
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اصرار حیات یہ کبھی گوہر کبھی شبنم کبھی آنسو ہوا بشر کی زندگی سکھلاتی ہے جینے کا قرینہ کہیں زہر ہلاہل بھی پڑے ہیں ہنس کے پینا صبر کا...