اُلجھا ہوا ہر ایک یہاں سازشوں میں ہے
رشتے سے منسلک ہے مگر رنجشوں میں ہے
اک شام ہجر کی مری آنکھوں میں آ بسی
اک لمس کا وجود مری انگلیوں میں ہے
پلکیں جھپکنا بھول گئی اُسکی یاد میں
یعنی عجب نشہ سا مرے رتجگوں میں ہے
طے کر رہی ہوں ایسے تِرے ہجر کی خلیج
قربت زدہ خمار تری دوریوں میں ہے
موسم کبھی خلوص میں حائل نہیں ہوئے
اک شخص میرے ساتھ بدلتی رُتوں میں ہے
یہ تو کھلا کہ پشت بھی محفوظ اب نہیں
اب دیکھنا ہے کون ہماری صفوں میں ہے
اس درجہ خوبرو تو نہیں ہے مرا وجود
یہ کون روبرو مرے ان آئینوں میں ہے
دل میں مچل رہا ہے ثمینہ حسین راگ
نغمہ صفت بہاؤ ابھی پا نیوں میں ہے
تبصرہ لکھیے