مسئلۂ کشمیر کاحل کیا ہے؟اگر آپ نے سنیچر(ہفتے) کی دوپہر 'دنیا نیوز‘ پر استادِگرامی جاوید احمدصاحب غامدی کی گفتگو نہیں سنی تواِسے انٹر نیٹ پر ضرور تلاش کیجیے۔ اس مسئلے کی گتھیاں آپ کو سلجھتی دکھائی دیںگی۔
دنیا آج جس طرح مقبوضہ کشمیر کی طرف متو جہ ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔8جولائی سے 17 ستمبر تک،اہلِ کشمیر نے دنیا کویقین کی حد تک باور کرادیا ہے کہ انہیں بھارت کا تسلط قبول نہیں۔برہان وانی کے سینے میں اترنے والی ایک گولی کی آواز،وادی ء کشمیرمیں اس طرح گونجی کہ صورِ اسرافیل بن گئی۔کشمیری مرد، خواتین اور بچے گھروں سے باہر نکل آئے۔دو لاکھ سے زیادہ افراد اس جواں مرگ کے جنازے میں شریک ہوئے۔بھارت کی سات لاکھ فوج انہیں رو ک نہ سکی۔ریاست کو کرفیو نافذ کر نا پڑا۔اسی دن سے قابض ریاست طاقت کے زور پر شہریوں کوگھروں میں بندرکھنا چاہتی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں۔ان کا عزم یہ ہے کہ آزادی تک، وہ گھروں میں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔بی بی سی سمیت بین الاقوامی ابلاغی ادارے بتا رہے ہیں کہ بارہ جمعے ایسے گزر چکے جب لوگ گھروں میں محصور رہے اور جمعہ کی نمازنہیں ادا کر سکے۔پہلی بار عید کی نمازبھی نہیں پڑھی جا سکی۔
اِن دنوںمیں چند باتیں ہر شائبے سے پاک، نکھر کر سامنے آگئیں۔ایک یہ کہ اہلِ کشمیر کو بھارتی تسلط قبول نہیں۔دوسرا یہ کہ آزادی کا جذبہ کسی خارجی قوت کی تائید یا مدد سے نہیں اٹھا،لوگوں کے دلوں سے پھوٹا ہے۔تیسرا یہ کہ نہتے عوام ریاستی بندوقوں اور بینائی چھین لینے والے چھروں کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں جب ان دنوں میںشہریوں کی طرف سے تشدد کاارتکاب کیا گیا ہو۔ان تین باتوں نے آزادیٔ کشمیر کے مقدمے کو ایسی اخلاقی بنیادیں فراہم کر دی ہیں جن کا سامنا کرنا بھارت کے لیے آسان نہیں۔بھارت کی سات لاکھ فوج بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ عد م تشدد کی بنیاد پر ہونے والی مزاحمت میں انسانی جانوں کا ضیاع کم ہو تا ہے مگر اس میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہو تے ہیں۔
بھارت کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ آزادیٔ کشمیر کی تحریک کو خارجی مداخلت کے سہارے اٹھنے والی دہشت گردی اور تشدد کی تحریک ثابت کرے۔اس مقدمے کو غلط ثابت کر نے کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر سرگرم متشدد تحریکوں کے پاؤں کے نشانات وادیٔ کشمیر میں دکھائی نہ دیں۔بھارت اپنے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے ان تنظیموں کا نام لیتا ہے جو پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔بد قسمتی سے یہ تنظیمیں اُڑی جیسے واقعات کا کریڈٹ بھی لیتی ہیں۔ یوں پاکستان کا مقدمہ کمزور ہوتا ہے اور بھارت کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ یہ تنظیمیں پاکستانی ریاست کی سرپرستی میں سرگرم ہیں۔
1979ء کے بعد، جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو ہماری ریاست نے ایسی رضاکار تنظیموں کو جنم دیا جو محاذِ جنگ پر متحرک رہیں۔امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو عالمی جہادی تنظیموں نے بھی پاکستان کا رخ کیا،یہاں تک کہ اسامہ بن لادن بھی یہیں پائے گئے۔اس پر جو گرد اٹھی ،وہ ابھی تک بیٹھی نہیں۔یہی وہ پس منظر ہے جو بھارت کے مقدمے کو ایک دلیل فراہم کرتا ہے۔ضربِ عضب کے بعد یہ مقدمہ کمزور ہوا ہے کہ پاکستان ریاست کی سطح پر کسی متشدد سرگرمی کی حمایت کرتا ہے۔اسے مزید کمزور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی پر ان جماعتوں کا سایہ نہ پڑنے دیاجائے۔ ان تنظیموں کے ذمہ داران کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اہلِ کشمیر کے ساتھ ان کی ہمدردی ان کے لیے مہنگی ثابت ہو رہی ہے۔
اہلِ کشمیر کو بھی اب یک سو ہونا چاہیے کہ سیاسی جد و جہد ہی ان کی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔اس کے دواسباب ہیں۔ایک یہ کہ جب لوگوں کی طرف سے تشدد ہوتا ہے تویہ ریاستی تشدد کے لیے جواز بن جاتا ہے۔غلط یا صحیح کی بحث سے قطع نظر،دنیا ریاست کے حقِ تشدد کو قبول کر تی ہے۔ریاست کی قوت زیادہ ہوتی ہے اور ایسے معرکے میں عام طور پر کامیابی کا امکان کم ہو تا ہے۔ایک ریاست کی قوت کا جواب کوئی ریاست ہی دے سکتی ہے۔دوسرا یہ کہ حقِ خود ارادیت کسی قوم کا بنیادی حق مانا جا تا ہے۔اگر کوئی قوم اس حق کے لیے سیاسی جد جہد کر تی ہے تو اسے دنیا کے مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر درست مانا جا تا ہے۔جب اسے دنیا کے سامنے دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے تواس میں کامیابی کا امکان موجود ہے۔اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ اہلِ کشمیر کو یہ حق دیا جائے گا۔تاہم یہ قراردادیں، اسے پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ معاملہ قرار دیتی ہے۔ شملہ معاہدے میں ہم نے اسے دوطرفہ ہی مانا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اہلِ کشمیراسے حقِ خود ارادیت کے یک نکاتی ایجنڈے کے طورپر پیش کریں ۔اس کے لیے لازم ہے کہ وہ خودکوایک سیاسی قیادت کے تحت منظم کریں۔
اہلِ کشمیر کو آج ایک قائد اعظم کی ضرورت ہے۔جاویداحمد غامدی صاحب کا تجزیہ یہی ہے۔بر صغیر کے مسلمانوں کا مقدمہ بھی حقِ خود ارادیت کا تھا۔ان کا مطالبہ تھا کہ بطور قوم ان کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنی اجتماعی صورت گری کریں۔ اس آزادی کے لیے عسکری جد وجہد ہوئی مگرناکام رہی۔ہندوستان کو دارالحرب قراد دیا گیا اورمسلمانوں کو افغانستان کی طرف ہجرت کے لیے ابھارا گیا۔ان گنت جانیں گئیں ،بہت سی قیمتی املاک برباد ہوئیں مگر نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ نہ نکلا۔
یہ مقدمہ اس وقت کامیاب ہوا جب مسلمانوں نے خود کو ایک قیادت کے تحت منظم کیا اور سیاسی جدو جہد کا فیصلہ کیا۔اس کے لیے قائد اعظم نے مسلمانوں کو آئینی اور قانونی بنیادوں پر سیاسی جد و جہد پر آ مادہ کیا۔سیاسی وحدت نہ ہوتوعسکری بنیادوں پر جیتی گئی جنگ بھی ناکام ہو جاتی ہے۔اس کا ایک مظہر آج کاافغانستان ہے۔افغانوں نے دنیا کی مدد سے سوویت یونین کے خلاف عسکری معرکہ جیت لیامگر سیاسی انتشار کے باعث اس کے ثمرات سمیٹنے میں ناکام رہے۔یوں انہوں نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی۔
قائد اعظم نے چوہدری غلام عباس کو کشمیر میں اپنا متبادل قرار دیاتھا۔آج پھر انہیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو انہیں ایک نکتے،حقِ خود ارادیت پر جمع کر دے جس طرح قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نکتے،پاکستان پر جمع کر دیا تھا۔یہ الحاقِ پاکستان کا نہیں،حقِ خود ارادیت کامقدمہ ہونا چاہیے۔الحاقِ پاکستان اس کا بدیہی نتیجہ ہے۔ یہی حقِ خودارادیت ایسا مقدمہ ہے، کوئی انصاف پسند جس کاانکار نہیں کر سکتا۔جب پاکستان اس مطالبے کے حق میں کھڑا ہو گاوہ تو اسے دنیاکے ہر فورم پر پیش کر سکتا ہے اور کوئی سیاسی یا اخلاقی ضابطہ پاکستان کو اس سے روک نہیں سکتا۔وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ کے فورم پر اسی بنیاد پر کشمیر کا مقدمہ پیش کیا ہے ۔یہ اصلاً بنیادی حقوق کا مقدمہ ہے۔
8 جولائی کے بعداہلِ کشمیر نے ثابت کر دیا ہے کہ بطور قوم انہیں بھارت کا تسلط قبول نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس مقدمے کود نیا سے کیسے منوا یا جا ئے۔استادِ گرامی کا تجزیہ اس کا جواب دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کشمیروں کونادان دوستوں کی نہیں، اہلِ بصیرت خیر خواہوں کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے