مزاح کوئی بری چیز نہیں بلکہ جمالیاتی حس کا حصہ اور فطرتا انسان میں ودیعت ہے۔ اسلام بھی اس جمالیاتی حس کے اظہار کا حامی ہے لیکن عصر حاضر میں اسے بلاحدود سمجھ کر واہیات اور خرافات کو لطف اندوز ہونے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے، اور اس ناچ گانے، ڈانس اور نہ جانے کیا کچھ شامل کردیا گیا ہے، جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اس لیے اگر اس کی حدود اور قیود بنالی جائیں تو شاید تفریح طبع کا بہتر سامان ہو جائے۔ بلاشبہ ہمیں فنون لطیفہ اور مزاح کو رواج دینا چاہیے مگر اس کی آڑ میں لوگوں کی تذلیل اور فضولیات کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ افسوس کہ عمومی طور پر ہم غلط کو غلط کہنے سے بھی رک گئے اور مزاح کے نام پر اللہ کے حکموں کی پامالی کرنے لگے۔ خدا کے حکموں کی پامالی کرتے کرتے ہم یہاں تک آن پہنچے کہ مسلم معاشرے میں فنون لطیفہ کے نام پر ڈانس، میوزک اور شوبز وغیرہ کی باقاعدہ تعلیم دی جانے لگی۔
ذرا پڑھ کر دیکھیے کہ محبوب عالم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے اور کس قسم کا مزاح کیا کرتے تھے۔ یہ اسوہ ہی ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے۔
ایک مرتبہ بوڑھی عورت جنت کے بارے پوچھنے آئی کہ کیا وہ جنت میں جائی گی، ارشادفرمایا بوڑھی جنت میں نہ جائی گی۔ بوڑھی اماں رونے لگی۔ فرمایا وہاں تو سب جوان ہوں گے، بوڑھا تو کوئی نہ ہوگا تو وہ بوڑھی ہنس پڑی۔
ایک صحابی آتے ہیں کہ یارسول اللہ مجھے اونٹنی دیجیے اور اس پر سوار کیجے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ہم تو تمھیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔ پوچھا یارسول اللہ بھلا اونٹنی کے بچے پر بھی کوئی سواری کرسکتا ہے؟ ارشاد فرمایا جو سواری کے قابل اونٹ ہوتا ہے، وہ اونٹنی کا بچہ نہیں ہوتاکیا؟ (ابوداؤد واحمد)۔
خادم رسول ﷺ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے پیار سے رسول اللہ ﷺ دو کانوں والا کہہ کر پکارتے تھے (ابوداؤد وترمذی)۔
ایک مرتبہ صحابہ کے ہاں مزاح کی مجلس چل رہی تھی، آپ بھی تشریف فرما تھے۔ اسید کی کسی بات پر آپ نے عود کی ہلکی سی چھڑی اس کی کمر پر ماری۔ اسید نے کہا رکیے رکیے مجھے بدلہ دیجے۔ آپ ﷺ نے فرمایا آئیے بدلہ لیجیے۔ اسید نے کہا کہ قمیض اوپر کریں، آپ نے مجھے بنا قمیض کا مارا تھا۔ رحمت عالمﷺ قمیض اٹھاتے ہیں، ادھر اسید جھپٹ کر کمر مبارک کو چوم لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یارسول اللہ ﷺ میرا مقصود تو بس یہی تھا کہ سرکار کے جسم کو چوم لوں۔(ابوداؤد)۔
رحمت عالم ﷺ لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر جاتے ہیں۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا پوچھتے ہیں۔ کہا کہ مجھ سے ناراض ہو کر مسجد جا کر سوگئے۔ آپﷺ مسجد جاتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ مٹی پر سوئے ہیں۔ فرمایا مٹی کے ابا! اٹھیے اور گھر چلیے۔( مسلم وبخاری)۔
رحمت عالم بازار میں جاتے ہیں. محبت کرنے والے صحابی جو سرکارﷺ کو ھدیہ دیا کرتے تھے، ان کی آنکھوں پر پیچھے سے جا کر ہاتھ رکھتے ہیں۔اور پوچھتے ہیں کہ بتائیے کون ہے یہ؟ صحابی پوری توجہ آپ کی طرف کرتے ہیں اور پہچان لیتے ہیں۔ ادھر آپ آواز لگاتے ہیں کہ کوئی ہے جو اس غلام کو خریدے۔ صحابی رسولﷺ کہتے ہیں کہ مجھے بیچ کر خسارہ ہی خسارہ ہوگا آپ کو. آپﷺ نے فرمایا کہ کیسی بات کرتے ہو، اللہ کے ہاں تمھاری بہت قیمت ہے۔(مسند احمد)۔
حضرت صہیب آشوب چشم میں مبتلا ہیں، سرکارﷺ عیادت کے لیے آتے ہیں۔ ادھر حضرت صہیب کھجوریں کھارہے ہیں۔ آپ نے پوچھا کہ آشوب چشم میں کھجوریں کھا رہے ہو؟حضرت صہیب نے کہا یارسول اللہ ﷺ میں تو دوسری طرف (صحیح آنکھ جو آشوب چشم میں مبتلا نہیں ہے) سے کھارہا ہوں۔آپ ﷺ ہنس پڑے۔
عوف الاشجعي تبوک میں آپ کے پاس دوران جنگ آتے ہیں، آپ کسی چھوٹے سے گنبد نما جگہ میں کھڑے ہیں۔ عوف اجازت چاہتے ہیں یارسول اللہ ﷺ میں بھی داخل ہوجاؤں۔آپ ﷺ نے کہا داخل ہوجاؤ۔ عوف نے کہا کہ یارسول اللہ پورا یا آدھا؟ آپ ﷺ نے کہا ارے پورے ہی داخل ہوجاؤ۔
درج بالا سیرت کے چند واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رحمت عالم ﷺ جو اس امت بالخصوص مسلمانوں کے مقتدا و رہبر ہیں، کیسے اپنی حس مزاح کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔ ایک مسلمان معاشرے کے لیے آپ ہی کا اسوہ لائق تقلید ہے۔ اس لیے جمالیات پر خوش ہونا، مزاح کرنا اور طبیعت کو ہشاش بشاش کرنا پسندیدہ امر ہے، بھلے وہ فنون لطیفہ کے ذریعے ہو یا مشاعرہ وغیرہ کی محفلوں کے ذریعے۔ اللہ قرآن میں جابجا ہرے بھرے کھیتوں، باغوں، سرسبز وشاداب وادیوں، نہروں، پھلوں سے لدے باغیچوں، رنگ برنگے جانوروں جیسی جمالیاتی چیزوں کو نعمت قرار دے کر شکریہ کا حکم دیا ہے۔ یہی نہیں اللہ کے محبوب نے یہاں تک فرمایا کہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں ضرور اپنی جمالیاتی حس کا اظہار کرنا چاہیے کیوں کہ درشتی عموما انسان کو سخت بنادیتی ہے۔ لیکن اس خوبصورتی، تفریح طبع اور فنون لطیفہ کے نام پر جھوٹ بولنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، دوسروں کی غیبت کرنا، ان کی تذلیل کرنا، ان کے عیب ٹٹولنا، نیم عریاں ہوکر رقص کرنا، اسلام کے احکامات کو پاؤں تلے روندنے اور ایسی واہیات اور خرافات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ میڈیا پر سیاسی شخصیات ہوں یا مذہبی شخصیات، جو بھی کارٹونز یا خاکہ جات وغیرہ کے ذریعے ان کی تذلیل کرے اور اسے فنون لطیفہ کا نام دے، ہر آدمی کو اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے ہر کسی کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اس عمل کے خلاف اپنے طور پر کوشش کرے بلکہ پوری قوم کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مزاح کے نام پر دوسروں کی تذلیل کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کرے۔
تبصرہ لکھیے