ہوم << انسان کی حقیقت اور تکبر - بشارت حمید

انسان کی حقیقت اور تکبر - بشارت حمید

بشارت حمید قرآن مجید میں اہم مضامین ایک سے زیادہ بار بیان ہوئے ہیں۔ قصہ آدم و ابلیس مختلف مقامات پر سات بار آیا ہے۔ اس قصے میں ہمارے لیے ہدایت کے بہت سے پہلو ہیں۔ ابلیس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی، حضرت آدم و حوا علیھما السلام سے بھی چوک ہوئی۔ مگر ابلیس اپنے غلط موقف پر ڈٹ گیا اور تکبر کیا لیکن آدم و حوا نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اللہ تعالٰی سے معافی مانگ لی۔ ابلیس کا راستہ تکبر و گھمنڈ کا راستہ ہے جو اس راہ پر چلے گا، وہ اسی کا ساتھی شمار ہوگا. اسی لیے اللہ تعالی کو تکبر بہت ناپسند ہے.
ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو اعلٰی خاندان کا حامل سمجھتا ہے حالانکہ یہ اختیاری نہیں ہے، یہی ابلیس نے کہا تھا کہ میں بہتر نسل سے ہوں۔ ہم اپنی خوبصورتی پر اتراتے ہیں، اس میں بھی کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ ازخود خوبصورت بن جائے یا بدصورت۔ ہم اپنے مال و دولت کی وجہ سے تکبر کا شکار ہو کر اسے اپنی ذہانت کی کمائی سمجھتے ہیں حالانکہ اگر یہ ذہانت کی کمائی بھی تصور کر لیں تو ذہانت بھی اللہ کی عطا کردہ ہے، یہ بھی خود اختیاری والا معاملہ نہیں ہے۔
انسان اپنی ذات پر غور کرے کہ اپنی پیدائش سے پہلے میری کیا حیثیت تھی۔ میرا اس دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں تھا اور پھر کس طرح میں پیدا ہوا۔ اس میں بھی میرا کوئی اختیار نہیں تھا۔ پھر پیدائش کے بعد کتنا کمزور تھا کہ خود سے نہ کھا پی سکتا تھا نہ چل پھر سکتا تھا لیکن یہی انسان جب لڑکپن کے بعد جوانی میں آتا ہے تو خود کو بڑی چیز سمجھتا ہے اور گمان کرنے لگتا ہے کہ میں سب سے بہتر ہوں، پھر اسی تکبر میں دوسروں پر ظلم کرتا ہے۔ حالانکہ یہ جوانی بھی چند روزہ ہے، اس کے بعد بڑھاپا اور پھر زندگی کا اختتام۔ مرنے کے کچھ عرصہ بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اس نام کا کوئی شخص دنیا میں ہوا کرتا تھا حتیٰ کہ اولاد بھی اپنے والدین کو بھلا دیتی ہے۔
اللہ تعالٰی نے سورہ یٰسین میں فرمایا کہ انسان ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے اور کہتا ہے جب یہ ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو کون ان کو زندہ کرے گا (اے نبی) کہو ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انکو پہلی بار پیدا کیا تھا۔
انسان کی زندگی سراپا احتیاج ہے، پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک۔ اگر اللہ تعالٰی انسانی جسم کے کسی ایک عضو کے فنکشن کو ذرا سا کم کر دیں تو اپنے آپ کو اعلٰی و ارفع سمجھنے والا انسان اتنا بےبس ہو جاتا ہے کہ خود اٹھ کر باتھ روم بھی نہیں جا سکتا۔ جب انسان کو اپنے جسم پر بھی کامل اختیار نہیں تو پھر یہ بڑائی اور تکبر کیسا۔
آئیے ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم کس کس تکبر میں مبتلا ہیں اور اللہ سے معافی مانگ کر اپنی اصلاح کریں اور اپنے جد امجد آدم علیہ السلام کی صف میں شامل ہو جائیں تا کہ اللہ تعالٰی کی مغفرت ہمیں حاصل ہو جائے

Comments

Click here to post a comment