"جسم سے بدبو آ رہی تھی… شاید مرے ہوئے کئی دن ہو چکے تھے."
یہ الفاظ پولیس اہلکار کے تھے، جو کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس فیز 6 میں واقع ایک فلیٹ میں اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش کے پاس کھڑا تھا۔
21 دن تک نہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، نہ کسی نے فون کیا۔ وہ وہاں تنہا، خاموش، اور گمنام پڑی رہی ،اس سماج کے لیے جو کبھی اس کی مسکراہٹ پر داد دیتا تھا۔جب "آزادی" تنہائی بن جائے یہ ایک عورت کی کہانی ہے، لیکن صرف ایک عورت کی نہیں۔ یہ ایک طرزِ فکر، ایک فکری تحریک اور ایک ثقافتی تبدیلی کی علامت ہے ، جسے ہم "فیمینزم" کہتے ہیں۔ پاکستان میں اکیلی رہنے والی خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ایسے گھروں کی تعداد 4 لاکھ سے زائد ہے جن میں خواتین تنہا رہتی ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ایک تحقیق (UN Women, 2022) کے مطابق:
"Urban feminist movements in South Asia have increased visibility but created social disconnection for women not aligned with traditional familial structures."
2020 میں لاہور میں ایک اور اداکارہ (کشف شاہ) کی لاش بھی کئی دن بعد اکیلے فلیٹ سے ملی — بالکل اسی طرح۔
فیمینزم: تحفظ یا پرفریب نظریہ؟
فیمینزم کے ابتدائی مقاصد خواتین کے حقِ تعلیم، حقِ ووٹ اور جنسی ہراسانی سے تحفظ جیسے مسائل تھے ، جو بجا طور پر اہم ہیں۔ لیکن آج کا فیمینزم ایک انتہائی ذاتی، خودمرکوز اور رشتوں سے منقطع نظریہ بن چکا ہے۔
Pew Research (2021) کے مطابق:
"In Pakistan, nearly 64% of women surveyed believe family support is more empowering than state feminism programs."
75% نوجوان لڑکیاں سوشل میڈیا پر "خودمختاری" کو جسمانی آزادی سے جوڑتی ہیں (Digital Rights Foundation, 2021) جب رشتے بوجھ لگیں۔ حمیرا اصغر کا المیہ صرف اس کا اکیلا مرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کی موت پر کوئی آنکھ اشکبار نہ ہوئی۔ پولیس کو جب اہل خانہ کو اطلاع دینی پڑی، تو والد کی طرف سے جواب تھاکہ "ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔جیسے چاہو دفناؤ۔"
یہ الفاظ نہ صرف ذاتی ردِعمل تھے، بلکہ اجتماعی بےحسی، خاندانی نظام کی کمزوری، اور عورت کی تنہائی کا اظہار تھے۔خاندان عورت کا اصل سرمایہ ہوتا ہے ۔اسلامی اصولوں کے مطابق، عورت کو معاشرتی تحفظ کا سب سے مضبوط قلعہ خاندان میں ملتا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"(النساء: 19)
"اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ."
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر ہو۔" (ترمذی)
فیمینزم کے نظریات ان تعلیمات سے انحراف کرتے ہیں ، جہاں ماں باپ، بھائی، شوہر، سب "رکاوٹ" کہلانے لگتے ہیں۔خدارا عورت کو تنہا نہ ہونے دیں۔یہی وجہ ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے 2023 میں تنہائی کو عالمی سطح پر ایک "Silent Killer" قرار دیا ہے ، جو نفسیاتی بیماریوں، خودکشی، اور جسمانی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔
ایک اور رپورٹ (The Lancet, 2022):
> "Loneliness among women aged 30–50 in urban South Asia is a growing mental health crisis, deeply linked to breakdown of family systems."
کاش حمیرا جانتی کہ باپ کی ڈانٹ، محبت کی گونج ہوتی ہے، کہ بھائی کی غیرت، عزت کی چادر ہوتی ہے، کہ شوہر، شراکت دار نہیں ، نجات دہندہ ہو سکتا ہے کہ انسٹاگرام کے لائکس، ماں کی دعا کا نعم البدل نہیں ہو سکتا . سوال یہ ہے کہ کیا یہی ترقی ہے؟
ہم کس ترقی کی طرف جا رہے ہیں؟
جہاں عورت کو "آزاد" کہہ کر اکیلا چھوڑ دیا جائے؟
جہاں رشتے "قید" اور تنہائی "آزادی" بن جائے؟
جہاں ایک عورت کی لاش 21 دن تک سڑتی رہے اور کسی کو پروا نہ ہو؟
ہمیں عورت کے لیے وہ فریم ورک اپنانا ہوگا جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو، رشتوں کو مضبوط کرے، عورت کو اس کی اصل پہچان دے اور آزادی کو فطری حدود کے ساتھ جوڑے۔یہ حقیقت ہے کہ فیمینزم عورت کو اشتہار بناتا ہے، جبکہ اسلام عورت کو عزت بناتا ہے.
آخری اور اہم پہلو۔۔۔
اگر یہ خودکشی تھی تو شواہد کیوں غائب ہیں؟
اگر طبعی موت تھی تو کسی کو اطلاع کیوں نہ دی گئی؟
اور اگر قتل تھا، تو قاتل کون ہے؟
21 دن تک کسی نے دروازہ کیوں نہ کھٹکھٹایا؟
سوشل میڈیا پر متحرک ایک شخصیت اچانک غائب ہو گئی، کسی کو خبر کیوں نہ ہوئی؟
یہ ایک 'مبینہ قتل' ہے، جس کی جامع اور غیرجانبدارانہ تحقیقات اشد ضروری ہیں۔ یہ تمام سوالات سنجیدہ اور فوری تفتیش کا تقاضا کرتے ہیں۔یہ واقعہ صرف معاشرتی انحطاط نہیں بلکہ قانونی غفلت ، حمیرا اصغر کے اہل خانہ کی بےحسی، سماجی زوال، دوستوں کی بےرخی، اور فکری گمراہی کا عکاس بھی ہے۔ یہی بے حس دنیا کی حقیقت ہے کہ جہاں عورت کو تنہا رہنے پر "بااختیار" کہا جاتا ہے، اور مرنے پر "سنسنی خیز خبر" بنا دیا جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے